سوچا سمجھا مگر انوکھا طریقہ واردات!!
ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا یہ سوچا سمجھا طریقہ واردات ہو لیکن ہے بلکہ انوکھا۔ اب اس کے نتائج سیاسی طور پر مثبت آتے ہیں یا نہیں اس کے لئے آئندہ عام انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ طریقہ واردات یوں ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی پھڈا مول لے لیا جائے تاکہ عوام کا دھیان فلم کی کہانی اور ہدایت کاری یا اداکاری کی طرف جانے کی بجائے مختلف کرداروں کی ”گھسن مکی“ کی طرف رہے۔ اس پالیسی کا تسلسل دیکھنا ہو تو ساڑھے تین سال کے دوران ہونے والی پھڈے بازی کا جائزہ لے لیا جائے۔ اس سلسلے کا تازہ شاہکار الیکشن کمیشن سے متھا لگانے کی کپتانی کوشش ہے۔ تحریک انصاف کے مضبوط گڑھ صوبہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ انتخابات یوں بھی پی ٹی آئی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہونے چاہئیں۔ عام طور پر بلدیاتی انتخابات حکمران جماعت ہی جیتنی ہے۔ کے پی کے میں تو حکمران جماعت کا نیٹ ورک بھی بہت وسیع، منظم اور مضبوط ہے۔ ساڑھے آٹھ سال سے حکومت چلی آ رہی ہے۔ انتظامیہ میں بھی اس کی جڑیں گہری ہو چکی ہوں گی۔ ایسے میں پشاور میں کارڈ یا چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں خود وزیر اعظم کا جانا کوئی ضروری بھی نہیں تھا۔ مگر اعلان کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطے کے مطابق نوٹس لے لیا اور باقاعدہ وزیر اعظم کو خط لکھا کہ وہ الیکشن شیڈول کا آغاز ہونے کے بعد انتخابی علاقے میں کوئی فلاحی یا رفاہی سرگرمی نہیں کر سکتے۔ بازار میں اور پشاور نہ جائیں۔ اگر آپ نے یہ دورہ اس موقعہ پر کیا تو الیکشن کمیشن ضابطے کی کارروائی کرے گا اور وزیر اعظم کو اسی طرح جرمانہ کر دے گا جس طرح وہ دیگر ارکان اسمبلی یا وزراء مشیروں کو کرتا آ رہا ہے۔
اس بروقت انتباہ کے باوجود وزیر اعظم پشاور گئے اور تقریب میں حسب عادت دھواں دھار خطاب بھی کر ڈالا۔ اس کے بعد پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی آڈیو منظر عام پر آ گئی جس میں وہ اپنے علاقہ میں کارکنوں سے پشتو میں خطاب کر رہے ہیں۔ اس میں وہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں ہاری تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ اس موقعہ پر وہ یونین کونسل سطح پر کروڑوں روپے ترقیاتی کاموں کے لئے جاری کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس 64 کروڑ روپے تو ویسے ہی پڑے ہیں وہ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں تقسیم کر دیں گے۔ اس کھلی مداخلت کو ”پری پول رگِنگ“ شمار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جناب اسد قیصر کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کر لی ہے۔ اب اگر انہوں نے سرے سے اس آڈیو کو جعلی قرار دے دیا تو پھر فرانزک ٹیسٹ کی نوبت آ جائے گی۔ جس میں پتہ چل جائے گا کہ آواز سپیکر صاحب کی ہے بھی یا نہیں۔ بظاہر تو یہ آواز اور لہجہ اسد قیصر کا ہی لگ رہا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کا بھی امتحان ہے کہ اس نے حکومتی زعماء سے جو پنگا لیا ہے اسے منطقی انجام تک پہنچا پاتا ہے یا فیصل واؤڈا والا معاملہ ہوگا۔ جنہوں نے الیکشن کمیشن کے کسی نوٹس کو پرکاہ کے برابر لفٹ نہ کرائی اور بار بار طلب کرنے پر بھی پیش نہ ہوئے اور ان کا بگاڑا بھی کچھ نہ جا سکا۔ وہ ایوان زیریں سے اٹھ کر ایوان بالا میں جا بیٹھے ہیں۔ اگر یہی رفتار تازہ معاملات میں بھی رہی تو حکومت کی مدت پوری ہو جائے گی مگر فیصلے نہیں آئیں گے۔
اسی طرح بعض آئینی معاملات میں بھی تحریک انصاف کی قیادت من مرضی کی قائل ہے۔ آئین کہتا ہے کہ چیئرمین نیب اور چیئرمین الیکشن کمیشن کے لئے فیصلہ وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے ہوگا۔ مگر وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کرپٹ ہیں ان سے ملوں گا نہ رابطہ کروں گا۔ پھر اتفاق رائے کیسے ہو اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ معاملہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق قائد ایوان (وزیر اعظم) اور قائد حزب اختلاف کسی ایک نام پر متفق ہوں۔ وہ نام صدر مملکت کو بھیجے جاتے جو تعیناتی کے احکامات جاری کریں گے۔ یہاں کام الٹا کیا جا رہا ہے۔ صدر صاحب نے دونوں کو خطوط لکھے ہیں کہ اپنی طرف سے چیئرمین نیب کے لئے ایسے نام بھیجیں جو طے شدہ طریقہ کار اور قواعد و ضوابط پر پورا اترتے ہوں۔ صدر صاحب نام آنے پر اتفاق رائے سے نئے چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ اگر اتفاق رائے نہ ہو سکا تو صدر مملکت یہی معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیں گے۔ اس کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے نمائندوں کی تعداد برابر برابر ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ جب فریقین کی تعداد برابر برابر ہو گی تو فیصلہ کیسا ہوگا؟
فریقین اپنی اپنی قیادت کے تجویز کردہ نام پر ڈٹ جائیں گے۔ فیصلہ کن ووٹ کوئی ہوگا نہیں اور معاملہ لٹکا رہے گا۔ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال تب تک موجیں کریں گے اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے انہی کا نام تجویز کیا جائے جو ظاہر ہے کہ گزشتہ تین سالہ دور میں ان کے اقدامات کی وجہ سے اپوزیشن کے لئے فائل قبول نہیں ہوگا۔ ادھر اسد قیصر صاحب کو الیکشن کمیشن نے جو طلب کیا ہے تو اس پر سپیکر قومی اسمبلی کا ردعمل بھی اہم ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بطور سپیکر کسی آئینی استثنیٰ کا سہارا لے کر الٹا چیئرمین الیکشن کمیشن کو طلب کر لیں کہ مجھے بلانے کی جرأت کیسے ہوئی؟ اس حوالے سے صورتحال جو بھی ہو یہ طے ہے کہ حکومت رونق لگائے رکھتی ہے اب ایک بار پھر عوام کی توجہ کے لئے نئی پھڈا کہانی لے کر آ گئی ہے۔ اب ٹاک شوز ہوں گے۔ بیان بازی ہو گی۔ نوٹس نوٹس کھیلا جائے گا عوام ”ٹک ٹک ویدم“ بیانات پڑھیں گے۔ ٹی وی کی سکرینوں سے چپکے چیختے چنگھاڑتے سیاسی کارندوں کو دیکھیں گے۔ جب ان موضوعات کو رگڑا لگ جائے گا اور دلچسپی ذرا کم ہو گی تو کوئی نیا پھڈا عوام کی دلچسپی کے لئے مارکیٹ میں لانچ کر دیا جائے گا۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ سیاست زندہ باد، مہنگائی، بیروزگاری کی ایسی تیسی۔۔۔