تکالیف سانجھی تھیں، کوئی بناوٹ نہ تھی،ہماری دوستی مثالی تھی اب ایسی دوستی خواب رہ گئی ہے،ماضی انسان کو زندہ رکھنے میں مدد دیتا ہے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:18
انکل دوستوں کو یاد کرکے کہنے لگے؛”ہم جہاں بھی ہوتے روزانہ شام کو میرے گھر پر یا جعفر کے گھر اکٹھے ہوتے تھے۔ ہمارے دکھ، سکھ، تکالیف سانجھی تھیں۔تمھارا باپ، نجو، امین اور میں تو ایک دوسرے کے رازدان تھے۔ ہمارا کچھ بھی ایک دوسرے سے چھپا نہ تھا۔ اب تو میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ سب اپنے ابدی گھروں کے ہو لئے ہیں۔ روز بیتے دنوں کو یاد کرتا ہوں۔ ماضی ہی انسان کو زندہ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ میں بھی پوتے، پوتیوں اور نواسوں کے ساتھ میں ماضی کی یادوں کو تازہ رکھے زندگی کے دن گزار رہاہوں۔بیٹا! ہماری دوستی مثالی تھی۔ اب ایسی دوستی خواب ہی رہ گئی ہے۔“
میں نے انکل سے پوچھا؛”انکل! کوئی پچھتاوا یا کوئی ایسی بات جو آپ بہت مس یا محسوس کرتے ہوں۔“ لمحوں کی خاموشی کے بعد کہنے لگے؛”شہزاد! اس دور میں عجیب سی مسرت تھی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے خوشی اور دل سے ملتا۔ کوئی بناوٹ نہ تھی۔ ہر وقت ہنسی، مذاق، بے پرواہی، کھلنڈرا پن۔ خوشی نہ جانے کہاں کھو گئی ہے۔اس سے بھی زیادہ جو چیز محسوس ہو تی ہے وہ ہے اپنی شناخت( identity)کا کھو جا نا۔ وہاں ہر کوئی جانتا تھا میں، میرا باپ داداکون تھے۔ یہاں سب کو بتا نا پڑتا ہے۔ کوئی نہ مانے تو کیسے یقین دلائیں ہم کون تھے، کیا تھے۔ شہزاد! تمھارے دادا، نجو کے والد، میرا خاندان یہ سب حیثیت والے لوگ تھے ان کی اپنی شناخت تھی دور دور تک۔ علاقے میں قدرو منزلت تھی۔ اس دور میں کتنے مسلمان گھرانے صاحب حیثیت تھے؟“loss of identity i think is the biggest issue but life goes on. No regrets
میں نے پوچھا؛”انکل! وہاں رہ جاتے تو کیا کرتے۔“ بولے؛”بیٹا! مستقبل کا تو سوچا ہی نہ تھا۔ہاں پڑھتے تھے۔ پڑھائی مکمل کرتے۔ نوکری تو کرنی نہیں تھی۔صاحب حیثیت، معززتھے ہمارے گھرانے۔آ ج تو حیثیت کی بھی قدر نہیں رہی۔ ہم بھی ایم این اے بنتے، ایم پی اے بنتے۔ چوہدراہٹ کرتے۔اب تو یاروں کو، گرزے وقت کو یاد کرتا ہوں۔موجودہ دور کی بے ثباتی کو محسوس کرتا ہوں تو اپنا کوئی پرانا شعر گنگنا دیتا ہوں یا کوئی نیا شعر کہہ ڈالتا ہوں۔
لکھ تو دوں تمھارے نام یہ حیات بے مصرف
تم اٹھا نہ پاؤ گے بو جھ دو گنا یارو
اک سیلم سید گھر میں ہی مقید ہے
باغ و بہار تھا وہ شخص کتنا اجڑ گیا یارو
ایک اس کے جانے سے کیا ہو گیا یارو
چپ ہیں کوچہ و بازار شہر بے صدا یارو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اپنے خواب چن کر ہم جدا ہو جائیں گے
عمر بھر کے رکھ جگہوں کا سلسلہ رہ جائے گا
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔