آغا خان کو مصریوں سے بڑا لگاؤ تھا انہوں نے اسوان میں فلاح و بہبود کے کئی منصوبے مکمل کئے، وہ یہاں بڑی عزت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:91
جزیر ہ پھلائے Island) (Philae
سہ پہر ہونے والی تھی۔ یہاں سے فارغ ہو کر گائیڈ ہمیں ایک اور قریبی جزیرے پر لے گیا۔ یہ بھی ایک بہت ہی تاریخی اور سیاحتی مقام تھا جس کا نام اس نے’پھلائے‘ بتایا۔ اس میں اس علاقے کے قدیم مصری حکمرانوں یعنی نیوبن (Nuben) کے بنائے ہوئے کچھ مندروں کے آثار تھے۔ ان میں سے کچھ تو شروع سے ہی اس جزیرے میں ہی واقع تھے۔ البتہ کچھ اس جزیرے سے ہٹ کران علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے جو ڈیم بن جانے کے بعد وسیع و عریض جھیل ناصر کے پانیوں میں ڈوب جانے والے تھے۔ان میں سے چند چھوٹے مگر اہم مندروں کو یونیسکو کے ایک مربوط پروگرام کے تحت مجوزہ زیر آب آنے والے علاقوں سے نکال کر جھیل کے کنارے واقع اس جزیرے پھلائے پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اور جو نہ کئے جاسکے وہ پانی کے اندرہی رہ گئے۔جب جھیل میں پانی کی سطح گرتی ہے تو اکثر مقامات پر ڈوبے ہوئے ایسے مندروں کے آثار نظر آجاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے چند بہت بڑے بڑے مجسمے اور مندروں کو کاٹ کر یہاں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے نہ صرف سرمایہ اور تکنیکی معاونت فراہم کی بلکہ دنیا بھر سے انجینئر اور کاریگر بھی یہاں بھیجے۔ جنہوں نے ایک زبردست منصوبہ بندی کے تحت ان یادگاروں کو مختلف حصوں میں کاٹ کر مجوزہ جھیل کے اونچے کناروں پر لا کر نصب کر دیا۔ ان میں سب سے بڑا اور حیران کن منصوبہ ابو سمبل کے دیوہیکل مجسموں اور مندروں کو منتقل کرنا تھا جس کا تفصیلی ذکر آگے چل کر آئے گا۔
مقبرہ محمد شاہ آغا خان
پھلائے کے مندروں میں کچھ دیر بھٹکنے کے بعد گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ اس دورے کا اختتام کرنے سے قبل وہ ہمیں دریا کے دوسرے کنارے پر لے جائے گا جہاں آغا خان کا محل اور مقبرہ بھی ہے۔ یہ ریت کے اونچے اونچے ٹیلوں میں گھری ہوئی اکلوتی عمارت ہے،جس کا اپنا ہی ایک حسن ہے اور وہاں سے نیچے دریائے نیل کا روح پرور منظر دیکھنے لائق ہے۔
محمد شاہ آغا خان اپنے وقت کی ایک بہت ہی عظیم شخصیت تھی۔ جس نے ہندوستان کی آزادی اور مملکت پاکستان بنانے کے لئے بڑا کام کیا۔ ویسے تو وہ مستقل طور پر یورپ میں قیام پذیر تھے، لیکن پھر شدید علالت کے باعث اور ڈاکٹروں کے مشورے پر وہ ایک بہتر اور موافق موسم کی تلاش میں اسوان آگئے۔ یہاں کا ماحول اور موسم انہیں راس آگیا اور انہوں نے مستقل طور پر یہیں قیام کا فیصلہ کر لیا۔ دریائے نیل کے دوسرے کنارے پر اسوان شہر کے شور شرابے سے دور انہوں نے ایک قطعہ زمین خرید کر اس غیر معروف اور سنسان مقام پر اپنا ایک خوبصورت محل نما گھر بنایا۔ سفید رنگ کی اس دلکش عمارت کو انہوں نے سفید محل یعنی (White House) کا نام دیا اور وہ اپنی چوتھی بیوی کے ساتھ اپنی موت تک یہیں قیام پذیر رہے۔
اور پھر جب اُن کا انتقال ہوا تو وصیت کے مطابق اُن کی تدفین اسی محل کے اوپر چاروں طرف پھیلی ہوئی ریت کے عین وسط میں ایک اونچے ٹیلے پر کی گئی۔اُن کی شریک حیات نے وہاں ان کا ایک خوبصورت مزار تعمیر کروا دیا۔ آغا خان کو مصریوں سے بھی بڑا لگاؤ تھا اور انہوں نے اسوان اور آس پاس کے علاقوں میں ا ن کی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے مکمل کئے، جس کی وجہ سے وہ یہاں بڑی عزت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ بعدازاں جب اُن کی شریک حیات بھی فوت ہوگئیں تو اُن کو بھی یہیں دفن کیا گیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں