ویلنٹا ئن ڈے
ویلنٹائن ڈے بنیادی طور پر غیر مسلموں کا تہوار ہے جو ہر سال14فروری کو منا یا جا تا ہے ۔ اس تہوار کو غیر مسلموں کی تقلید میں اب مسلمان بھی بڑے زور شور سے منا نے لگے ہیں ،ان کا موقف ہے کہ خوشی جہاں سے بھی ملے وہاں سے حاصل کر لینی چاہیے اور یہ سب جکڑ بندیاں انسانوں کے لئے کیوں ہیں ،جبکہ جانور اور پرندے تو ان سب زنجیروں سے آزاد ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور حیوانات اور چرند پرند کا ساطرز عمل اُس کے شایان نہیں ،جبکہ مسلمانوں کی تو اپنی اخلاقی اقدار اور تہذیب ہے اور اہل اسلام کے لئے خوشی کے جو معیار مقرر ہیں ،ان سے تجاوز کرنا اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے زمرے میں آتا ہے ۔اسلام میں تہواروں کا تعین بھی کر دیا گیا ہے جو اسلامی عبادات اور رسوم کا حصہ ہیں ۔۔۔ارشادات الٰہی ملاحظہ کیجئے ’’ہر اُمت کے لئے ہم نے مقرر کیا ہے عبادت کا طریقہ کہ وہ اُس طریقے سے عبادت کرتی ہے۔۔۔(الحج 67:22)‘‘۔۔۔’’اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی (منُہ مورڑ کر)اُس سے جو آگیا ہے تمہارے پاس حق،ہرایک کے لئے تم میں سے مقرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ ۔۔۔(المائدہ 48:05)۔۔۔ ’’اور اختلاف میں مبتلا ہو گئے اس کے بعد بھی کہ آچکے تھے اُن کے پاس واضح احکام ،یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔۔۔ (آ ل عمران105:03)
ویلنٹائن ڈے کی ابتدا ء کے متعلق ’’انسا ئیکلو پیڈیا آف برٹا نیکا‘‘میں بتا یا گیا ہے کہ اس دن کا تعلق سینٹ ویلنٹا ئن سے نہیں، بلکہ قدیم رومیوں کے چرواہوں کے ایک دیوتا لو پر کیلیا (LUPERCALIA) کے مشر کانہ تہوارار سے ہے۔ لوپر کیلیا دراصل لوپا سے ماخوذ ہے جو ایک مادہ بھیڑیا تھی جس نے 771قبل مسیح میں روم کی پیلاٹائن پہاڑی کی غار میں دو نو زائدہ جڑواں یتیم بچوں رومولس اور ریمس کو دودھ پلایا، جہاں ایک بکرا اور کتا قربان کئے گئے اور کنواری لڑکیوں کے تیار کردہ نمکین کیک جلائے گئے ۔کہا جاتا ہے کہ انہی دو لڑکوں نے روم کی بنیاد رکھی، چنانچہ 44قبل مسیح میں یہ تہوار 13تا 15 فروری کو منایا جاتا تھا ،جس میں ان کی یاد میں دو بکروں اور ایک کتے کی قربانی دی جاتی تھی ۔اس میں پادری قربان شدہ بکروں کی کھالیں پہنتے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں عریاں ہو کر دوڑتے تھے ۔اس دوڑ میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی خواہش مند لڑکیاں لڑکوں سے ٹکراتی تھیں جو موٹے بالوں والی کھال کے تسمے پکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ بعد میں یہ دن 14فروری کو جو نو فیبر و آٹا JUNOFEBRUATA دیوی کے اعزاز میں منعقد ہونے لگا ،جس میں لڑکیوں کے نام ایک بر تن میں ڈا ل دیئے جا تے اور مرد بغیر دیکھے جس لڑکی کا نام نکا لتے، وہی ان کی ساتھی بن جا تی ۔
کئی لو گ اس تہوا ر کو کیوپڈ (CUPID) سے متعلق سمجھتے ہیں جو رو میوں کا محبت کا دیوتا تھا،وہ لو گوں کے دلوں میں تیر ما ر کر ان کو عشق میں مبتلا کر تا تھا۔ کہا جا تا ہے کہ اس کی ماں خو بصورتی اور محبت کی دیوی زہرہ (VENUS) ہے ،جس کا پسندید ہ پھول گلا ب تھا۔۔۔ ایک اور روایت کے مطا بق ویلنٹا ئن نا می تین شخص تھے، جن میں سے ایک روم میں پا دری تھا ،دوسرا ٹرنی میں بشپ تھا، جبکہ تیسرا افریقہ میں فوت ہوا۔ اول الذکر ویلنٹائن کو شاہ روم کلا ڈیس نے 270ء میں اس جرم میں قید کر دیا کہ وُہ فو جیوں کی خفیہ طو ر پر شادیاں کروا دیتا تھا، جبکہ با دشاہ نے فوجیوں کی شادیوں پر پا بندی لگا رکھی تھی، کیونکہ اس کے خیال میں شادی شدہ فو جی اپنے فرائض بہتر طور پر ادا نہیں کر سکتے تھے ۔دوران قید اسے قید خا نے کے داروغہ آسٹیریس (جیلر ) کی اُس بیٹی سے عشق ہو گیا جو پہلے بینائی سے معذور تھی ،جسے اس نے اپنی رو حا نی قوت سے بینا کر دیا پھا نسی پا نے سے قبل اس نے داروغہ کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کے آخر میں لکھا تھا ’’تمہا را ویلنٹائن‘‘ یہ طریقہ بعد میں لو گوں میں رواج پا گیا (یہ واقعہ 14فروری 270عیسوی کا ہے )۔
پا پا ئے روم پو پ گیلا سئیس (Gelasius ) نے 14 فروری کے اس بیہو دہ تہوا ر کو یوم ویلنٹا ئن (ویلنٹا ئن ڈے ) میں تبدیل کر دیا ۔ فرا نس میں ویلنٹا ئن ڈے پر لڑکیوں کی قرعہ اندا زی نے سخت مشکلا ت پید اکیں اور 1776ء میں اسے ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ انگلینڈ اسوقت تک اس سے محفوظ رہا۔ جب تک Purintansکی حکمرانی رہی، لیکن چا رلس دوم نے اسے دوبارہ رواج دیا، یہاں سے یہ امریکہ میں داخل ہوا اور ای ہا ؤلینڈ (EAHOWLAND) نے پہلی مر تبہ اسے تجا رتی شکل دی اور ویلنٹا ئن کا رڈ بیچ کر پا نچ ہزا ر ڈا لر کما ئے۔ 1990ء میں امریکہ میں ایک ارب ویلنٹا ئن کا رڈ بذریعہ ڈاک بھیجے گئے اور محکمہ ڈا ک کو 30ملین ڈا لر کا منا فع ہو ا ۔ پھولوں کا استعما ل بھی فروغ پا نے لگا ۔ اب تو پا کستان میں بھی ویلنٹا ئن ڈے پر پھولوں کی ایک کلی والی شاخ سو روپے میں فروخت ہو تی ہے۔ مخملیں کپڑے کے دل مارکیٹ میں نہا یت مہنگے دا موں میں فروخت ہو تے ہیں، میڈیا بھی اس مو قع کو تجا رتی مقاصد کے لئے استعما ل کر تا ہے۔ نو جوان دلوں میں جذبا ت کو بھڑکا کر ،کسی محبو ب کی ضرورت کا احساس دلا کر نئی نسل کو بے راہ روی کی طرف مائل کیا جا تا ہے ۔ غیر محرم لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ تعلق اور اعلانیہ برائی کو فروغ دے کر احکام الٰہی کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ اس دن کو منا نے کے حا می اپنے رشتے داروں کو محبت کے پیغا ما ت بھیجتے نظر آتے ہیں، حالانکہ اپنوں سے محبت کے اظہار کے لئے کسی دن کے تقرر کی ضرورت نہیں، ویسے بھی بحیثیت مسلمان لڑکے لڑکی کی خفیہ دوستی منع ہے۔ سورۃ النسا ء میں نیک عور ت کے اوصاف اس طرح بیان ہو ئے ہیں ، پا ک دامن نہ کہ اعلا نیہ بدکا ری کر نے والی ، نہ خفیہ آشنا ئی کر نے والی۔۔۔ (آیت نمبر 25 جزو) ۔
اسلام انسان کو اپنے رب سے محبت کر نے کا درس دیتا ہے کہ اس کی محبت ہی انسا نیت کے لئے پا کیزہ جذبہ پید ا کر تی ہے۔ اسلام انسانوں کو تمام مذاہب سے زیادہ ایک دوسرے سے محبت کرنے کا درس بھی دیتا ہے نا کہ نفسانی خواہشات کو فروغ دینے کا۔ مسلما نوں کے پا س اظہا ر محبت کے لئے عید الفطر ، عید ا لاضحی اور میلا د النبی ﷺ کے دن مو جود ہیں۔ عید الفطر پر رمضا ن المبا رک کی بر کتوں کا شکر ادا کیا جا تا ہے ،عید الا ضحی ایثا ر و قربا نی کا درس دیتی ہے ۔ عیدین کے موقع پر اپنے اعزا و اقارب سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔انسان کو حقیقی خوشی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے ہوتی ہے ۔نبی کریم ﷺ قربا نی کے موقع پر یہ دعا پڑھا کر تے تھے : بے شک میں اپنا چہرہ یکسوئی سے اس کی طرف کرتا ہوں، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔ (الانعام 79:6)۔۔۔ بے شک میری نماز اور میری قر بانی ، میرا جینا ، میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں اور مَیں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔۔۔ (الانعام 163,162:6) ۔۔۔اسی طرح ربیع الا ول کے مہینے میں سورہ یو نس آیت 58میں حکم الٰہی: ’’اللہ کے فضل و رحمت پر ہی خو شی منا یا کرو‘‘ پر عمل کر تے ہو ئے مسلمانان عالم صا حب قرآن کی ولادت کی خو شی منا تے ہیں ۔ایسی خو شی جو کہ ابدی ہے، جبکہ نزول قرآن کی خو شی میں بھی مساجد میں خصوصی تقاریب کا اہتما م کیا جا تا ہے ۔ ہماری خوشی کے مواقع ہمارے دیگر قومی دن بھی ہیں ،جن میں اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔