انقلاب ایران کی اڑتیسویں سالگرہ کے موقع پر امن اور دوستی کا پیغام

انقلاب ایران کی اڑتیسویں سالگرہ کے موقع پر امن اور دوستی کا پیغام
 انقلاب ایران کی اڑتیسویں سالگرہ کے موقع پر امن اور دوستی کا پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایران اپنے انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کا جشن ایسے ماحول میں منا رہا ہے، جبکہ وہ بارہ سال پر محیط مذاکرات کے بعد ایران فوبیا کی فضا اور اپنے خلاف عالمی سطح پر کیے جانے والے پراپیگنڈے کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس دوران مغربی ممالک اور ان سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے ایران کی طرف سے اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے کے بہانے اس بات کی بہت زیادہ کوشش کی کہ ایران کی دنیا والوں کے سامنے ایک ڈراؤنی تصویر پیش کر سکیں جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی نصیب ہوئی۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ بالآخر تمام عالمی قوتیں اس بات پر قائل ہو گئں کہ ایران کا وجود نہ صرف باعث امن و استحکام، بلکہ یہ ملک پوری دنیا میں دہشت گری کے خلاف جدوجہد کی حقیقی علامت بھی ہے ۔ ایران اور چھ عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے سے جسے ’’برجام‘‘ کا نام دیاہے نہ صرف اس کے خلاف ہونے والی تمام کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، بلکہ اس معاہدے کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں منظور کی جانے والی چھ ملکی قرارداد بھی ختم ہوئی اور ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو بین الاقوامی سطح پر قانونی تائید بھی حاصل ہوگئی۔ ایران کی کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کی مہارت کس قدر زیادہ ہے اور ایران کی کامیابی اس امر کی شہادت بھی دیتی ہے کہ اس درجہ پیچیدہ موضوع کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے تو یقینادیگر تمام علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا حل بھی مذاکرات کے ذریعے نکالنا بدرجہ اولی ممکن ہے۔
ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔گذشتہ دو سال کے دوران دنیا کے مختلف 150ممالک سے زیادہ وفود جن میں زیادہ کا تعلق معیشت اور تجارت سے تھا ،ایران کا دورہ کرکے اپنے ایرانی ہم منصبوں سے ملاقات کرچکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی کا حالیہ دورۂ اٹلی و فرانس ،ایران کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے دورۂ اٹلی کے دوران ۵۱ اور دورۂ ویٹی کن اور فرانس کے دوران د ونوں جانب کے قومی اور نجی اداروں کے درمیان تعاون کے۰۲ معاہدوں پر دستخط کیے گئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
ایران ہائیڈروکاربن کے سب سے بڑے ذخائر کا حامل ملک ہونے کے ناطے تیل اور گیس کی صنعت کو وسعت دینے کے سلسلے میں دنیا کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران تیل اور گیس کی عالمی منڈی میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے انرجی سیکٹر میں تیل کی تلاش،انرجی کی پیدائش اور تیل کے تصفیہ کے شعبہ کے لئے بیرونی سرمایہ کاری کا ضرورتمند ہے اور اس سلسلے میں ایرانی تیل کی صنعت کے دروازے تمام بڑے بین الاقوامی سرمایہ کاروں پر کھلے ہیں۔
صدر اسلامی جمہوریہ ایران حسن روحانی نے اپنے دور اقتدار کی ابتدا سے ہی تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جہاد کو ایران کی خارجہ پالیسی میں اولیت دی ہے اور اسی اپروچ کی بنیاد پر تشدد کے خلاف ایران کے نظریہ کو بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی اور آخر کار اسے اقوام متحدہ نے منظور کرلیا۔ ہم نے ہمیشہ برملا کہا ہے کہ ہم کسی ملک کے ساتھ کھینچاؤ پیدا نہیں کرنا چاہتے اور ہم اس مقولہ پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کا امن ہمارا امن ہے اور ہم اس سلسلے میں سب کے ساتھ ہر قسم کے فوجی اور سیکیورٹی تعاون کے لئے تیار ہیں۔ اور یہ نظریہ ہماری اس ترجیح کی پیداوار ہے کہ جس کا ایران ہمیشہ کے لئے اپنے ہمسایوں کے لئے قائل ہے۔ اور ہمارا عقیدہ ہے ہمسایوں کے قریبی دوستانہ اور پر امن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات ہی خطے کے ممالک کی ترقی کی بنیاد ہیں۔ علاقائی امور میں فیصلہ سازی ہم اسی طرح میں بیرونی ممالک کی مداخلت کوروک کرسکتے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اسلامی جمہوریہ ایران کی اس پالیسی پر گواہ ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف گذشتہ ایک سال کے دوران تین مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ جو علاقے کے دو ملکوں کے باہمی تعلقات کی اہمیت اور تعاون کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ تعلقات صرف سیاسی سطح تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ دو طرفہ گہرے ثقافتی اور اجتماعی رشتے ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں ان دو نوں قوموں کے درمیان گہرے رشتے ایسے نہیں جن میں کوششوں اور دہشت گروی کی کاروائیوں کے ذریعے کوئی رخنہ پیدا ہوسکے۔
علاقائی سطح پر ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں وسعت کو ایران کی خارجہ پالیسی میں اولیت حاصل رہی ہے۔ بے شک ایران کی وہ پالیسی جو ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین مفاہمت پر منتج ہوئی۔ وہ اس علاقائی مسایل کے حل اور علاقائی ممالک کے ساتھ درپیش چیلینجوں پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کے ساتھ پیدا ہوئے والی مخاصمت کا تعلق ہے وہ جو ایک خودسر گروہ کے تہران میں اس ملک کے سفارت خانے پر حملے کے گھناؤنے واقعے سے پیدا ہوئی جس میں قطعا حکومت کی مرضی شامل نہ تھی۔ اس واقعے کے فورا بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب روحانی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سعودی عرب کے سفارت خانے اور قونصلیٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری طور پر انکوائری اور ملزموں کو مرتکب افراد گرفتار کرکے ان کے خلاف عدالتی کاروائی کا حکم دیا۔ ایسا واقعہ ان حالات میں پیش آیا کہ گذشتہ سال حج کے موقع پر ہزاروں حجاج بیت اللہ جن میں زیادہ تعداد ایرانیوں اور پاکستانیوں کی تھی سعودی حکام کی لاپرواہی ، غیر ذمہ داری اور ناپختہ پالیسیوں کی وجہ سے اپنی جان سے چلے گئے اور سعودی حکام نے ان کے پسماندگان سے معذرت اور ان کی دلجویی کے بجائے اس واقعے کو قضا اور قدر کا نتیجہ قرار دے دیا۔
شام کے سلسلے میں ہم اس ملک کے عوام اور حکومت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات پر ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں ۔ بعض ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی حمایت نے اس ملک کے بے گناہ عوام کی قتل و غارت اور اس ملک کے اقتصادی انفرا اسٹرکچر کی تباہی کے سوا کوئی فایدہ نہ پہنچایا اور موجودہ پالیسی کا تسلسل اس ملک میں دہشت گردی کے مزیدپھیلاو اور اس ناسور کے علاقے کے دیگر ممالک میں سرایت کرنے کا موجب بنے گا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اور اسی نظر یے کی بنیاد پر ویانا۔۳ مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مذاکرات قومی سطح پر بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر اس پانچ سالہ بحران کے خاتمے کے مقصد کے ساتھ کیے جارہے رہیں۔
اور یمن کے بارے پوری دنیا گواہ ہے کہ اس ملک کے خلاف سعودی عرب کی گیارہ مہینوں پر محیط فوجی کارروائی میں اس ملک کے انفرااسٹرکچر اور غیر فوجی تنصیبات کی تباہی کے سوا کوئی اور کامیابی سعودی عرب کے ہاتھ نہیں آئی، بلکہ حالات مزید پچیدہ ہوگئے ہیں۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی ، حکومت اور افواج پاکستان کا گذشتہ سال یمن کے بحران میں فوجی مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کس قدر دانشمندانہ اور مبنی بر حکمت تھا۔ ان حالات میں یمن کے بحران کا واحد حل متحارب یمنی گروہوں کے درمیان ہر قسم کی بیرونی مداخلت کے بغیر اقوام متحدہ کے زیر سایہ باہمی مذاکرات ہیں۔
آج اسلامی دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں مذہبی اور سیاسی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ گفتگو کے دروازہ کو پہلے سے زیادہ کھلا رکھیں۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے اور مغربی کنارے کے نہتے فلسطینوں پر مظالم کا تسلسل، شام اور یمن کا بحران ، عراق اور افغانستان میں دہشت گردی وسطی ایشا اور شمالی افریقہ میں داعش کی کارروائیوں کا پھیلاؤ سب کی سب وہ ضروریات ہیں جو اسلامی ممالک کے باہمی تعاون و تعامل کی احتیاج کو دو چند کردیتی ہے۔
اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی تعاون کی تنظیم جو اسلامی ممالک کے اتحاد کی علامت ہے کس حد تک اپنی اصلی ذمہ داریوں سے بے خبر ہے لیکن اس دوران وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا ثالثی کی خاطر حالیہ دورہ سعودی عرب اور ایران ایک بجا اور اہم آغاز تھا جس کی اسلامی ممالک کو مزید ضرورت ہے۔ بہر حال ایران اسلامی ممالک کی طرف سے بڑھنے والے مصالحت کے ہر ہاتھ کوگرمجوشی سے دبائے گا اور ساتھ ساتھ یہ ملک اپنی طرف سے علاقائی سطح اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی اور امن کی خاطر اپنی آمادگی کا اعلان کرتا ہے. ّ ّّ

مزید :

علاقائی -