زینب اور قومی ادارے :بسلسلہ زینِ اب(2)

زینب اور قومی ادارے :بسلسلہ زینِ اب(2)
زینب اور قومی ادارے :بسلسلہ زینِ اب(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ننھی زینب کی لاش نے کئی بنیادی سوال اٹھائے ہیں جو جرم اور سزاکے باب میں ہیں۔


1۔قومی ادارے ان گھناؤنے جرائم کا سد باب کرنے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟


2۔جنسی بے راہ راوی کئی منازل طے کرتے ہوئے ریپ تک کیسے پہنچتی ہے؟


3۔بچوں سے جنسی عمل کرنے کے محرکات کیا ہیں؟


تمام قومی اور ریاستی ادارے جرم کے ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔جوں ہی جرم ہوتا ہے ،ریاست جاگ اُٹھتی ہے۔لیکن جرم ہونے سے پہلے ریاست کا کوئی ادارہ موجود نہیں جو جرم کے اسباب کی روشنی میں تدارک کا اہتمام کرے اور قانون سازی کو اُن اندوہناک حالات یا منفی ماحول کو بدلنے کیلئے متحرک کرے جو جرم پیدا کرتے ہیں۔


جرم پر سب سے پہلے بپھرے ہوئے میڈیا کا شور و غوغا سنائی دیتا ہے۔جرم کے خلاف میڈیا "خبریت"کے پیمانے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔خبر کا واقعہ سے کم اور اُس خبر پر قارئین ،ناظرین کے ردعمل کا زیادہ انحصار ہوتا ہے۔

خبر کے بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے جوں ہی لوگوں کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے ،میڈیا اُس خبر کی بجائے کسی اور خبر کی تلاش میں مصروف ہوجاتا ہے ۔میڈیا وہی بات کہتا ہے جوقابل فروخت ہوتی ہے۔سنسنی خیزیت کو بیچنا اصل مقصد ہے۔

عمران خان اور نواز شریف کی مہا بھارت پورے عروج پر تھی کہ یکا یک زینب کی لاش برآمد ہو گئی۔دونوں سیاسی پہلوان خبروں سے غائب ہوگئے۔لیکن کچھ وقت بعد خبر باسی ہو جاتی ہے اب میڈیا پر زینب کی باتیں سنائی نہیں دیتیں۔

اس کا مطلب یہ ہواکہ ظلم خود قابل توجہ نہیں ہے۔نہ ہی ظالم مذمت کا ہدف ہے۔ظلم سے منسلک،ڈرامہ توجہ کھینچنا ہے۔سچ پوچھئے تو میڈیا ظلم کی پبلسٹی کرتا ہے۔ظلم کے خلاف منظم محاذ آرائی نہیں کرتا۔

کاروباری وجوہات پرمیڈیا نہیں چاہتا کہ ظلم اور جرم ختم ہو جائے کیونکہ ظلم اور جرم کو اچھالنے سے میڈیا کا کاروبار چلتا ہے۔اس لئے میڈیا سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ میڈیا ترسیل کے جدید اوزاروں سے معاشرے کے شعور میں اضافے کا باعث بنے۔ میڈیا پر کبھی جرم کے سماجی اور نفسیاتی محرکات پر بحث نہیں سُنی۔کیونکہ تدریس اُس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔اور خود تنقیدی ہمارے قومی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
پارلیمنٹ بھی جرم پر سوچ بچار کا ایک ذمہ دار قومی ادارہ ہونا چاہیے۔مفروضہ ہے کہ پارلیمنٹ میں عوام کی اکثریت کے نمائندے عوام کے مصائب اور تکالیف کے ازالے کیلئے دن رات سرجوڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں اس مفروضہ پر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔

الیکشن کاروبار ہے۔سرمایہ دار،بہت زیادہ سرمایہ کاری کر کے اسمبلیوں کی رکنیت خریدتے ہیں اور پھر اُس رکنیت سے وابستہ اختیارات کو بے تحاشا استعمال کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں۔نہ انہیں قانون سے کوئی غرض اور نہ قومی منصوبوں سے عوام کی فلاح کی فکر۔یہ ملک موت کا گہوارہ بن چکا ہے۔سکولوں میں چوھدریوں کے مویشی بندھے ہوتے ہیں۔

ہسپتال میں دوائیاں نہیں۔ایسے حالات میں زینب کی لاش کا تذکرہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔سنگ مرمر کی بلند عمارتوں کے باسی ناک پر رومال رکھ کر کچرے پر پڑی لاش سے گزر جائیں گے۔قبضہ گروپوں اور کمیشن ایجنٹوں کو قانون سازی سے کوئی دلچسپی نہیں۔


پولیس تو اُس وقت سرگرم عمل ہوتی ہے جب جرم ہو چکا ہوتا ہے پاکستانی پولیس نہ ریفامر ہے اور نہ جرم کی وجوہات پر غور کرنا اُس کے فرائض میں شامل ہے۔

دوتھانوں کی سرحد پر پڑی لاش کو ایک تھانے کے سپاہی گھسیٹ کر دوسرے تھانے کی حد میں ڈال آتے ہیں۔ایسی پولیس کے بارے میں اُسی تھانے میں بڑے بڑے لفظوں میں نعرہ لکھا ہوتا ہے۔"پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی"۔

عدالتیں اپنے فیصلوں میں لکھتے لکھتے تھک گئیں کہ " استغاثہ جرم کو ثابت کرنے میں ناکام ہو گیا اس لئے ملزم رہا کیا جاتا ہے"۔پولیس جب جرم کا ثبوت مہیا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پولیس ماورائے عدالت قتل کر کے عہدہ برآہو جاتی ہے۔بعض اوقات ملزم کی گرفتاری کیلئے میڈیا اور عوام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو پولیس جلد ی میں خانہ پُری کے لیے کسی بھی شخص کو نامزد کر کے اپنی جان چھڑا لیتی ہے۔


معاف کیجئے یہاں میری مراد زینب کے قتل کے نامزد ملزم عمران سے نہیں ہے۔اگر عمران قاتل ہے تو اُسے قرار واقعی سزا دینے سے پورے ملک کے ضمیر پر بوجھ کم ہو جائے گا ۔لیکن اگر زینب کسی سیریل قاتل کا شکار ہوئی ہے تو یہ سیریل قاتل محض ایک کارکن بھی ہوسکتا ہے جو کثیر تعداد میں جنسی جنون میں مبتلا لوگوں کے لیے ویڈیو بنانے کے کاروبار میں ملوث ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پس منظر میں بااثر سرمایہ دار پوشیدہ ہوں یا جنسی پاگل پن فعال ہویہ بھی ممکن ہے کہ دونوں صورتوں میں پولیس پس منظر میں چھپے ہوئے جرم کو تحفظ دینے کیلئے عمران کی گرفتاری کو ڈھال بنا رہی ہو۔


عدلیہ بھی ایک اہم قومی ادارہ ہے جو حکومتی تجاوزات اور معاشرتی ٹیڑھے پن کو سیدھا کر سکتی ہے۔


جنگ عظیم دوئم کے دوران کسی نے برطانیہ کے وزیر اعظم سے پوچھا "کیا ہم جنگ جیت جائیں گے"۔وزیر اعظم نے جواب دیا "کیا برطانیہ کی عدالتیں عام آدمی کو انصاف دے رہی ہیں"۔اس شخص نے جواب دیا "ہاں ہر شخص کو انصاف مل رہا ہے"۔وزیر اعظم نے اعتماد سے کہا "تو پھر ہم یقیناًجنگ جیت جائیں گے"۔


اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنگیں محض فوج اور اسلحے سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ انصاف کے قائم کرنے سے جیتی جاتی ہیں۔کیونکہ انصاف لوگوں میں باہمی جڑت اور قومی افتخار پیدا کرتا ہے اورملک کے ادارے فعال ہو جاتے ہیں۔کیا پاکستان کے ہر شخص کو یہ پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی عدالتیں ہر حال میں انصاف مہیا کریں گی۔یاد رکھیے مہنگا انصاف غریب کی رسائی میں نہیں ہوتا ۔

تحریر شدہ قانون میں تضادات انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔عدلیہ کی تشریحی کوششوں کے باوجود اسلامی قانون اور برطانونی قانون میں نکاتِ اتصال نہیں ڈھونڈے جاسکتے۔

عدلیہ کی بے بسی کو دور کرنے کے لیے فوج کو عدالتیں لگانا پڑیں اور پاکستان کے ہر طبقے نے عدلیہ کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو قابل تحسین اقدام قرار دیا۔

انتظامیہ پر عدم اعتماد کی وجہ سے سپریم کورٹ کو بار بار تفتیش اپنے ہاتھ میں لینی پڑتی ہے۔ زینب کے قتل کی تفتیش عدلیہ کی نگرانی میں ہوئی اور پھر کہیں نتیجہ برآمد ہوا۔عمران کی گرفتاری نے ایک عوامی مطالبے کی تشقّی کر دی ہے۔

عمران اکیلا اتنی مربوط اور مسلسل کاروائیاں نہیں کر سکتا۔ عمران کے پس منظر میں با اثر اور با وسائل چھپے ہوئے مجرموں کو کیفرِکردار تک پہنچائے بغیر عدل قائم نہیں ہوگا۔


اس تشویش ناک صورت حال پر کیا کہا جائے کہ پارلیمنٹ کے ارکان پارلیمنٹ پر لعنت بھیجیں،انتظامیہ کا کام عدلیہ کو کرنا پڑے،اور آخر کار عدلیہ کا کام فوج کو کرنا پڑے تو پاکستان کی زینب کی عزت اور زندگی کی ضمانت کون دے گا۔

تمام ریاستی ادارے ایک اقلیت کے قبضے میں ہیں جب کہ وہ حکمران اقلیت کسی کے قبضے میں نہیں۔یہ قابض اقلیت اپنے قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتی ہے لیکن اختیار کو عوام تک نہیں پہنچنے دینا۔


یہ سوچنے میں ہرج نہیں کہ عوام ، پاکستان کے عوام ۔۔۔ایک طاقت ور عیار پر اعتماد کرنے والے بھولے بھالے عوام۔۔۔کہیں بے اختیار زینب تو نہیں۔جس کی چیخ و پکار سن کر کوئی بھی مدد کو نہ آیا۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -