اعلیٰ تعلیمی نصاب اور اخلاقی اقدار کے اسباق

گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک بڑامسئلہ تعلیم کے طبقاتی نظام کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کابھی ہے جسکی بدولت آئے روز بد اخلاقی کے عوامل سامنے آتے ہیں ۔ان اعمال کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ یکساں نظامِ تعلیم و نصاب کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار پر مبنی موضوعات بھی نصاب میں شامل کیے جائیں اوراس حوالے سے اساتذہ و والدین کی خصوصی تربیت نشستوں کا اہتمام بھی کیا جائے ،اخلاقی اقدار کے حوالے سے حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کویقینی طور پر عملی جامہ پہنایا جائے جبکہ علماء ،سیاستدان ،دانشور ،اینکر پرسن اور ڈرامہ نگار اپنی تحریروں و تقریروں میں شائستگی اور حسن اخلاق کا عنصر مزید بیدار کریں جبکہ میڈیا کے ذمہ داران اشتہارات وپروگرامز میں بھی اخلاقی اقدار کو مدِنظر رکھیں۔اسلام اخلاقی اقدار کوانسانوں کی روزمرہ زندگی میں بنیادی اہمیت دیتا ہے،یہ اخلاقی اقدار کا فیض ہے کہ مسلمان جہاں جہاں گئے انہوں نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا عملی مظاہرہ اس طرح کیا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اسلامی اخلاقی اقدار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور بڑی تعددا میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے ۔گویا اسلام کے عالمی پھیلاؤ کا ایک بنیادی سبب اسکے اعلیٰ اخلاقی اقدار تھے اوریہی اقدار آدمی کو انسان بننے کا مرتبہ عطا کرتے ہیں ، اخلاقی اقدار پر مشتمل اسباق پرائمری سطح سے اعلیٰ سطح کی تعلیم کے نصاب میں شامل کئے جائیں تاکہ یہ ہر پاکستانی کا طریقِ زندگی بن جائیں۔
یہ اس موضوع ہے جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں ’’ابتدایہ اور اعلیٰ تعلیمی نصاب میں اخلاقی اقدار پر مشتمل اسباق کی شمولیت‘‘کے موضوع پر ہوٹل فلیٹیز لاہور میں ہوا تو اس موقع پر کئی مفکرین کے خیالات سن کر احساس ہوا کہ ملک و قوم کو بچانے کے لئے اخلاقی اقدار کو نصابی کتابوں کا حصہ ہونا چاہئے۔اس اجلاس میں محترمہبشریٰ رحمن ،ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی ، ڈاکٹر طارق شریف زادہ ،ابصارعبدالعلی، تسنیم کوثر، فاطمہ قمر ، خالدہ جمیل چوہدری ،میجر (ر)صدیق ریحان، ثمرجمیل خان، تاثیر مصطفی،جنرل (ر)راحت لطیف، میجر (ر)خالد نصر، پروفیسر میاں محمد اکرم ، شاہد علی خان، پروفیسر خالد محمود عطاء، رانا امیر احمد خان، سید احمد حسن ،محترم فاروق اکرم و دیگر بھی شامل تھے ۔محترمہ بشریٰ رحمن کا کہناتھا کہ انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے پھر اُسکا ارد گرد کاماحول اور اُسکے بعد بچہ تعلیمی درسگاوں میں برائے تعلیم و تربیت جاتا ہے لہذا یہ ہماری معاشی و معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم گھر سے ہی بچوں کو اچھی تربیت دیں اور بعد از تحقیق ایسی درسگاہ میں برائے تعلیم و تربیت داخل کروائیں جہاں قومی زبان اُردو ،ثقافت اوراخلاقیات کی بہترین تربیت دی جاتی ہو جہاں سے بچہ ہر زبان ،ہُنر اور علم حاصل کر کے نکلے لیکن اپنی زبان اور ثقافت پر ناز کرے فخر کرے۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’میں تمہیں اولاد سے متعلق نصیحت کرتا ہوں وصیت کرتا ہوں ‘،یعنی اپنی اولاد کی مثبت تربیت کرو اُنکو معاشرتی و معاشی سطح پر اخلاقی اقدار سے آشنا کرو ۔حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ’ہر آدمی ذی حق کو اُسکا حق اد اکرے ‘یعنی جب ہر انسان دوسرے کا حق ادا کرے گا تو کسی کو بھی حق چھیننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بچے کو والدین کی عزت کرنی چاہیے جبکہ والدین کو بچے سے مشفقانہ رویہ رکھنا چاہیے تاکہ بچہ اپنے ساتھ ہونے والا ہر قسم واقعہ اورحادثہ بلا جھجھک بیان کر سکے ۔والدین کو چاہیے اولاد کو حلال رزق کھلائیں تاکہ بڑے ہوکر وہ نیک اعمال کی جانب راغب ہوں، فطری طور پر ہر بچہ نیک ہوتا ہے اُسکی تربیت اُسکو اچھا یا بُرا بناتی ہے اور تربیت میں پہلی تربیت گاہ والدین اور پھر اساتذہ ہوتے ہیں لہذا ماں باپ اچھے تعلیم والے مہنگے اسکولز کو دیکھنے کی بجائے اچھی تربیت دینے والی درسگاہ کو ترجیح دیں ۔
آج کل ایک نعرہ بڑا مشہور ہو رہا ہے کہ ’بچوں کو بتایا جائے کہ آپکی کہیں پر کوئی ہاتھ نہ لگائے یا کسی سے کوئی چیز نہ لیں‘ جبکہ یہ نہیں کہا جا رہا کہ بچوں آپ نے بھی کسی کو ،کہیں پرغلط انداز سے ہاتھ نہیں لگانا اور نہ لگانے دینا ہے ۔حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ’دو چیزوں کی حفاظت کر لو میں تمہارے لیے جنت کا ضامن بن جاؤں گا ایک وہ جو دونوں جبڑوں کے درمیان میں ہے (زبان )دوسرا وہ جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے ‘یعنی اگر ہم اپنی زبان سے اچھا بولیں گے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں گے تو ہم معاشرے میں اور اللہ کے حضور سرخرو ہونگے۔
اس اجلاس میں پروفیسر میاں محمد اکرم کا موقف تھا کہ تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر کرنے کی ضرورت ہے اسکولوں میں اسمبلیوں میں بزمِ ادب دوبارہ ترتیب دی جائے ،میڈیااپنی ذمہ درایاں بنھائیں جبکہ والدین کے ذمہ ہے کہ گھروں کا ماحول آسان بنائیں کیونکہ بچوں کو وقت اور توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور غیر محسوس انداز میں بچوں کے اندرشعور پیدا کریں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسوۂ حسنہ ﷺ بہترین نمونہ ہے ،گذشتہ ستَّر سال کے دوران ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں سے قرآن پاک کو ختم کر دیا ہے ،قرآن باترجمہ تمام اسکولز کے نصاب میں شامل کیا جائے تو انتہا پسندی ،فرقہ واریت اور عدم برداشت سے نکل کر بہتر اخلاق کی تربیت پر زور دیا جاسکے گا ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔