سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ۔۔۔تاریخی دورہ
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان پر پوری دُنیا کی نظریں ہیں۔ پاکستان میں بھی اُن کے دورے کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔سب جانتے ہیں کہ اِس وقت سعودی عرب کی اصل کمان شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے پچھلے کچھ عرصے میں سعودی عرب کو ایک جدید اسلامی ملک بنانے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں، اُن کی وجہ سے اُن پر تنقید بھی ہوئی ہے، مگر وہ اپنی دھن کے پکے ہیں، اُنہیں عالمگیر شہرت دو واقعات کی وجہ سے حاصل ہوئی،ایک وہ جس میں انہوں نے کرپشن میں ملوث سعودی ایلیٹ کلاس کی شخصیات کو گرفتار کیا اور راتوں رات اُن سے اربوں ڈالرز نکلوا لئے۔
دوسرا واقعہ صحافی خشوگی کے ترکی میں بہیمانہ قتل کا تھا، جس میں الزام لگایا گیا کہ یہ قتل سعودی خفیہ ایجنسی نے شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر کیا۔اس پر بڑی لے دی ہوئی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے سخت لفظوں میں دھمکیاں دیں، ترکی کے صدر طیب اردوان نے بھی کہا کہ شہزادے کو اِس قتل کا حساب دینا پڑے گا، مگر سعودی عرب کی حکومت نے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔
البتہ یہ ضرور کہا کہ جو سعودی اس قتل میں ملوث ہیں، اُنہیں سزا ضرور دی جائے گی۔اِسی کیس کی وجہ سے دُنیا کو محمد بن سلمان کے مضبوط اعصاب کا اندازہ ہوا۔انہوں نے کسی ایک لمحے میں بھی کمزوری نہیں دکھائی اور الزامات کو لغو، جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیتے رہے۔
ان دونوں واقعات کی وجہ سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر اُن کی گہری نظر بھی ہے اور گرفت بھی۔
سعودی شہزادوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شخصیات سے اربوں ڈالرز نکلوانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا، وگرنہ تصور یہی تھا کہ سعودی عرب کی ایلیٹ کلاس ایک طرف ہے اور عوام دوسری طرف۔ آلِ سعود میں سے کوئی جو کچھ بھی کرے، اُس پر قانون کی کوئی گرفت نہیں،لیکن شہزادہ محمد بن سلمان نے اِس تصور کو غلط ثابت کر دیا۔
جب یہ سب کچھ سعودی عرب میں ہو رہا تھا تو عالمی میڈیا یہ خدشات ظاہر کر رہا تھا کہ شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے، مگر سب نے دیکھا کہ سعودی عوام شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ آ کھڑے ہوئے اور کرپشن سے دولت بنانے والی سعودی شخصیات کو مال واپس کرتے ہی بنی۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور قطر دو ایسے ممالک ہیں،جنہوں نے حکمرانی کے حوالے سے نئے تجربے کئے ہیں۔قطر کے امیر نے بھی حکومت کی عنان اپنے جواں سال بیٹے کو سونپ دی اور سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا ولی عہد نامزد کر کے سارے اختیارات اُنہیں منتقل کر دیئے۔ دونوں ممالک میں اِس وقت جو تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں،اُن کی وجہ یہی نوجوان حکمران ہیں۔تعلیم کے شعبے میں دونوں ممالک میں اب دوڑ لگی ہوئی ہے۔اس میں پہل قطر نے کی تھی، جب دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے کیمپس دوہا میں کھول دیئے تھے۔ اب سعودی عرب بھی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی سربراہی میں جدید تعلیم کا حب بن رہا ہے۔
سعودی عرب میں سینماؤں کا کھلنا اور خواتین کو ڈرائیونگ کی آزادی دینا، دو ایسے اقدامات ہیں،جو سعودی عرب میں ایک بڑی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔اس سے سعودی عرب کے ولی عہد کی عالمی سطح پر شخصیت ایک روشن خیال حکمران کے طور پر اُبھری ہے۔ یہ ایسا پہلو ہے،جو سعودی عرب کو ایک بند ریاست سے کھلی ریاست کا درجہ دے سکتا ہے۔پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے تین ممالک سعودی عرب،قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے سرد مہری کے تعلقات ختم ہو گئے ہیں،اِن تینوں ممالک نے پاکستان کی اِس کڑے وقت میں مالی مدد بھی کی ہے اور دونوں ممالک میں اعلیٰ سطحی دوروں سے قریبی تعاون بھی بڑھا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے برسوں بعدپاکستان کا دورہ کیا اور اب سعودی عرب کے ولی عہد بھی ایک طویل مدت کے بعد پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، جو پاکستان کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو گی۔یہ بھی شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ سعودی شہزادے کی آمد پر اتنے بڑے انتظامات کئے گئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کوئی سعودی حکمران اتنے بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ کبھی پاکستان آیا ہی نہیں۔جس طرح کے انتظامات کئے جا رہے ہیں، وہ پہلے کسی بھی مُلک کے سربراہ کی آمد پر نہیں کئے گئے۔
متحدہ اسلامی فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف اِس دورے کے انتظامات کا جائزہ لینے پہلے پہنچ گئے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا اتنے بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آنا اِس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنا اہم پیکیج لے کر پاکستان آ رہے ہیں، اُن کی سیکیورٹی کے لئے جو غیر معمولی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ماضی میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے پر بھی نہیں کئے گئے تھے۔
اِس بات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو سیکیورٹی خطرات بھی لاحق ہیں،وہ جس طرزِ حکمرانی کو سعودی عرب میں متعارف کرا رہے ہیں، وہ بجائے خود اُن کے لئے خطرے کا سبب ہیں۔ یاد رہے کہ اس دورے میں جہاں اقتصادی پہلوؤں پر بات ہو گی،وہیں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی پر بھی غور ہو گا۔
سعودی عرب کو داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے جو خطرات لاحق ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی اِس حوالے سے پوری مدد کی ہے۔۔۔ تاہم امکان یہی ہے کہ سعودی ولی عہد اِس ضمن میں مزید تعاون کی خواہش کا اظہار کریں گے۔ جنرل (ر) راحیل شریف کا دورے سے پہلے آنا اِس بات کو ظاہر کرتا ہے،سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف اِس لئے بھی ہے کہ سعودی عرب کو جو اہمیت پاکستان نے ہمیشہ دی ہے، وہ کسی اور ملک نے نہیں دی۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان نے آلِ سعود کو بھی ہر چیلنج کے موقع پر مکمل تعاون فراہم کیا ہے۔ باغیوں کی سرکوبی ہو یا دہشت گردی کے واقعات،پاکستان ہمیشہ ایک برادر اسلامی ملک کی طرح مدد کو پہنچا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج پر سعودی عرب کے حکمرانوں کو کتنا بھروسہ ہے، اِس کا اندازہ خود جنرل(ر) راحیل شریف کو متحدہ اسلامی فوج کا سربراہ بنانے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کے لئے اِس دورے کی اہمیت کا تعلق ہے تو اِس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔اِس وقت پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، معیشت بُری طرح دباؤ میں ہے۔ مالی خسارے کی وجہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔
محدود آمدنی والے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی سنگین مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کی کشمکش ابھی تک جاری ہے۔ ظاہر ہے جب تک آئی ایم ایف جیسا کوئی عالمی مالیاتی ادارہ پاکستانی معیشت کو سہارا نہیں دیتا، بین الاقوامی سطح پر پاکستانی معیشت پر اعتماد پیدا نہیں ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے چند روز پہلے دبئی میں عالمی گورنمنٹ سمٹ سے جو خطاب کیا تھا، اُسے عالمی سطح پر اِس لئے سراہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کے معاشی حالات کو بیان کر دیا تھا، مگر ساتھ ہی اِس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ جلد ہی پاکستان اپنی اقتصادی پالیسیوں کی بدولت ایک مضبوط معیشت کے طور پر اُبھرے گا۔
کراؤن پرنس محمد بن سلمان کا یہ دورہ اُن کی اِس بات پر مہر تصدیق ثبت کر سکتا ہے۔ سعودی سفارت خانے کے مطابق اِس دورے سے 20ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان آئے گی، اس کے علاوہ وہ سرمایہ کاری علیحدہ ہے، جو وفد کے ساتھ آنے والے سعودی سرمایہ کار اور تاجر، بورڈ آف انویسٹمنٹ کی وساطت سے پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر کریں گے۔ آئل ریفائنری اور دو ایل این جی بجلی گھروں کے منصوبے ایک بڑا اقتصادی بریک تھرو ثابت ہو سکتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کے اِس دورے سے پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سعودی عرب بہرحال ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے،جس کے سامنے امریکہ بھی دستِ سوال دراز کر دیتا ہے۔
اگر اُس کا ولی عہد، جس کے بارے میں عالمی سطح پر ایک ترقی پسند حکمران کا تاثر موجود ہے، پاکستان کا ایک بڑی سرمایہ کاری کے لئے انتخاب کرتا ہے، تو اِس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے ایک محفوظ اور مفید ملک ہے۔ اِس دورے کی کامیابی موجودہ حکومت کے لئے ایک امرت دھارا ثابت ہو گی۔