سوشل میڈیا کے لئے نئے ضابطے اور ویلنٹائن ڈے کی خرافات

سوشل میڈیا کے لئے نئے ضابطے اور ویلنٹائن ڈے کی خرافات
 سوشل میڈیا کے لئے نئے ضابطے اور ویلنٹائن ڈے کی خرافات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوشل میڈیا کے ذریعے دین میں بگاڑ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا جاری ہے وہ بیان سے باہر ہے،کوئی بھی لیپ ٹاپ یا موبائل لے کر کچھ بھی لکھ کر یا ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پرنٹ ورک پر ڈال دیتا ہے، مذاق میں یا سنجیدگی میں کی گئی شرارت یا سازش چند لمحوں میں پوری دُنیا میں گھوم جاتی ہے۔ ایک نے لکھ دیا ڈاکٹر ذاکر نائیک دہشت گرد ہے، لکھنے والے کی کیا منصوبہ بندی تھی، کیا اہداف تھے، کس کو راضی کر رہا تھا، اسے بغیر تصدیق کے منٹوں میں آگے پھیلانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا بھر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک دہشت گرد بن گیا،زندگی بھر میں لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمان کرنے،کروڑوں تک دین کی فکر پہنچانے کے خوبصورت اقدامات یکسر پس ِ پشت چلے گئے، دہشت گردوں کے زمرے میں شامل کرنے کی مہم کے نتیجے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی بھر کی جدوجہد نہ صرف خاک میں مل گئی،بلکہ طاغوتی قوتوں نے ان کا نام فوری طور پر دہشت گردی کی لسٹ میں ڈال کر اکاؤنٹ منجمد، جائیدادیں ضبط جیسے اقدامات شروع کر دیئے، کوئی اسلام کا دشمن گھر بیٹھے لکھ دیتا ہے، قرآن پاک دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے، قرآن پاک کی تعلیمات کو فراموش کر کے جہاد کی آیات کو دلیل کے طور پر سوشل میڈیا پر چڑھا دیتا ہے، پھر بحث برائے بحث کا ایسا لامتنازعی سلسلہ شروع ہوتا ہے،دین سے ناآشنا دین کی محبت میں نئی نئی بدعات ڈالتے جاتے ہیں،پھر اچھے بھلے سمجھ دار بھی دین سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں، داڑھی والے مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی، مولوی کے نام پر بحث، الغرض قرآن و سنت کے نام پر جھوٹی باتیں گھڑ گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرنا اور پھر ثواب سمجھ کر پھیلانا،اسے صدقہ جاریہ قرار دینا، 10دفعہ پھیلانے پر اجر کا اعلان،100 دفعہ کرنے پر جنت واجب قرار دینا، یہ تو معمول بن چکا ہے۔ کشف و کرامات، جھوٹے قصے کہانیوں کو فروغ دینا دھڑلے سے جاری ہے، دین کا بگاڑ، فرقہ واریت کا فروغ، ایک دوسرے کو کافر قرار دینا، اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا تو پہلے ہی بہت تھا، ہی اب سوشل میڈیا کو سیاسی کردار کشی کے طور پر استعمال کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے،وہ انتہائی بیہودہ ہے۔سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے درجنوں نوجوان بھرتی کر رکھے ہیں،جو سیاست دانوں، علمائے کرام، مذہبی جماعتوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور ذمہ داران کے ساتھ ایسی کہانیاں جوڑتے ہیں کہ وہ نہ صرف سیاسی طور ساکھ کھو بیٹھتے ہیں،بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ان کے کردار کو مجروح کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ جوڑنا، کچھ لڑکوں کے ساتھ جوڑنا تو معمول بن رہا ہے۔


گزشتہ چند ماہ سے وزیراعظم پاکستان کو ٹارگٹ کر کے جومخصوص لابی شرمناک وڈیو آڈیو سوشل میڈیا پر جاری کر رہی ہے، انتہائی منظم انداز میں کر رہی ہے، جھوٹ کے بڑے بڑے پلندوں کو سچ ماننے پر مجبور ہیں،بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو بین الاقوامی کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے کردار پر بات کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے غیر محتاط رویئے پر تشویش کا اظہار کرنا پڑا۔ معاشرہ انسانی رویوں سے ترتیب پاتا ہے، جب رویے ہی انسانی نہ رہیں تو معاشرہ کیا بنے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی قدروں کی پامالی پر جہاں حکومت پریشان تھی وہیں اپوزیشن جماعتیں اور مذہبی گروپ بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے آزاد سوشل میڈیا کا فائدہ ملک دشمن قوتوں نے بھی اٹھایا ہے،ہماری سرحدوں کی محافظ پاک فوج بالعموم اور آئی ایس آئی کو بالخصوص ٹارگٹ کیا گیا ہے۔افسوناک پہلو یہ ہے بعض سینئر صحافی حضرات بھی اس عمل میں استعمال ہوئے ہیں۔

پاک فوج کے اخراجات کو جواز بنا کر پاک فوج کو ملکی معیشت پر بوجھ قرار دینے کی سازش کی گئی،حالانکہ ہر پاکستانی اس بات پر پوری طرح یکسو ہے کہ پاک فوج کے جوان اپنا آج قربان کر کے ہماری نسلوں کا کل بچا رہے ہیں۔ ہمارے دشمن اس حد تک کمینے ہیں ایک دن فوج سرحدوں پر نہ ہو تو ہمیں دوسرا دن دیکھنے کو نصیب نہ ہو، قوم بڑی خوش ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو18 ماہ بعد پتہ چل گیا کہ مجھے ووٹ دینے والے بڑی تکلیف میں ہیں،مہنگائی نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، اسی طرح ہماری ایجنسیاں مسلسل اپنی کوشش سے حکومت کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی آزادی صرف پاک فوج اور حکومت کی ساکھ ہی خراب نہیں کر رہی،بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے بگاڑ کا باعث بن رہی ہے،اخلاقی قدروں کی پامالی کا ذمہ دار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا بھی ہے، اس لئے تمام سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں کو تین ماہ میں رجسٹریشن کروانے اور اسلام آباد میں دفاتر قائم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ یو ٹیوب، فیس بُک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک اور دیگر کمپنیاں تین ماہ میں جاری کئے گئے ضابطے پر عمل درآمد کی پابند ہوں گی، پابندی نہ کرنے والی کمپنیوں کو50کروڑ تک جرمانہ ہو گا۔


سوشل میڈیا کمپنیوں کو ایک سال کے اندر پاکستان میں اپنے سرور بنانا ہوں گے،قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے ادروں کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی،بیرون ممالک سے ان اداروں کو آن لائن نشانہ بنانے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی،اس سلسلے میں بااختیار اتھارٹی بنے گی، جسے نیشنل کوآرڈنیشن اتھارٹی کا نام دیا جائے گا، قانون نافذ کرنے والے ان رولز کو فالو نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکیں گے۔ خوش آئند بات ہے، کابینہ نے نئے ضابطوں کی منظوری دے دی ہے۔ایوان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فوری قانون سازی کرے اور قومی اور سلامتی کے اداروں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ نیٹ نے جو آگ لگائی ہے ہر گھر پوری طرح اس کی لپیٹ میں ہے، مل جل کر آگ پر قابو پانا ہو گا، نئی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی ترغیب دینا ہو گی، ”دیر آئد درست آئد“…… حکومت کو مزید تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔

یو ٹیوب گوگل اور دیگر کمپنیوں کو قواعد کا پابند بنانے کے لئے فوری قانون بنانا ہو گا۔دوسرا آج کے دن کا اہم ایشو،جو آج کی تاریخ14فروری کے ساتھ ہی منسوب ہے، وہ ہے ویلنٹائن ڈے کے نام پر ہونے والی خرافات۔ آج کے دن اربوں ڈالر بیہودگی میں آڑے جاتے ہیں۔ایک بلین کارڈز کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ 35ملین دِل کی شکل(Heart Shahed) کے چارکلیٹ باکس(ڈبے) دیئے جاتے ہیں۔200 ملین گلاب کے پھول استعمال کئے جاتے ہیں، آج6سے8 ملین ڈالر کی شراب پی جائے گی، لباس، زیورات، میک اپ، آرائش، ہوٹلنگ، میڈیا پر ہونے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔کیا بھوکے کو کھانا کھلانا ضروری نہیں، کیا ننگے پاؤں پھرنے والے کو جوتے لا کر دینا ضروری نہیں، کیا اب غریب کی بیٹی کا سر ڈھانپنا ضروری نہیں رہا۔ کیا پانچ کروڑ معصوم اور غریب خاندانوں کو چھت کی فراہمی ضروری نہیں، حج اور عمرہ کرنے والوں کو طعنہ دینے والے اب کیوں نہیں سوچتے کہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر خرافات کی بجائے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ویلنٹائن سے اب سب واقف ہیں کہ وہ یہودی تھا، لڑکے لڑکی کے درمیان ناجائز تعلق کو جائز قرار دیتا تھا،اس کو 14سال کی سزا بھی دی گئی،افسوس نئی نسل کو اس ناجائز حرام خور کی یاد منانے اور حرام کو زبردستی حلال کرنے کی مہم جوئی کا ہماری نئی نسل کو حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ہوشیار جو کرنا ہے آج کر لیں، آنے والی نسلوں کے لئے تہذیب ِ انسانی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں، آئیں مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لئے نکلیں۔

مزید :

رائے -کالم -