ٹرمپ کشمیر اور متنازع شہریت بل کی صورتحال پرمودی کے سامنے سوال اٹھائیں، امریکی قانون سازوں کا مطالبہ
ٍٍ واشنگٹن(اظہر زمان، بیورو رپورٹ) صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے اعلان کے بعد متعدد امریکی قانون ساز اور دانشور ایک بار پھر ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں کشمیر اور شہریت بل کے باعث بھارت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ خط میں بھارت کے زیر اثر عام کشمیر کی صورتحال اور شہریت بل کیخلاف مظاہروں کے پیش نظر حالات کا اسر نو جائزہ لینے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے دو دو سینیٹرز کی طرف سے وزیرخارجہ ما ئیک پومپیو کو بھیجا جانیوالا خط خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس میں صدر ٹرمپ کے قریبی دوست ریپبلکن سینیٹر لنڈسے کراہم کے علاوہ ریپبلکن ٹوڈینگ، ڈیموکریٹک کرس وان ہولن اور ڈک ڈربن شامل ہیں۔ چاروں سینیٹرز نے اپنے خط میں امریکی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو دورے سے جانے سے پہلے جائزہ لے کر بریف کریں کہ کشمیر میں کتنے سیاسی نظر بند ہیں اور ان کیساتھ کیا مظالم اور بدسلو کی کی گئی ہے۔ فون اور انٹرنیٹ پر پابندیوں کی صورتحال کیا ہے۔ غیر ملکی سفارتکاروں، صحافیوں اور مبصرین کوکشمیر جانے کی کتنی آزادی ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں مذہبی آزادیوں پر پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹرز نے اس کے خاتمے پر زور دیا۔ انہوں نے محکمہ خارجہ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ جائزہ لیں کہ شہریت بل کے باعث پورے ملک میں مذہبی اقلیتوں کو ملک بدر ہونے یا اپنے اپنے علاقوں میں پابندیوں کیساتھ رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ سینیٹرز نے خط میں خبردار کیا ہے کہ بھارت میں کشمیر اور دوسرے مقامات سے اہم سیاسی رہنما ؤں سمیت سیکڑوں کشمیریوں کو جو نام نہاد حفاظتی تحویل میں رکھ کر دراصل قید کر رکھا ہے اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان چاروں سینیٹرز کے علاوہ ایک اور امریکی سینیٹرباپ کیسی نے صدر ٹرمپ کے بھارتی دورے کے اعلان کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت نے کئی عشروں سے برقرار کشمیر کی حیثیت میں زبردست تبدیلی پیدا کر کے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ بھارتی اقدام سے جموں کشمیر کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش پیدا ہوچکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت، جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کے اپنے عہد پر قائم ہیں۔ سینیٹرباب کیسی نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا کہ ابھی تک پاکستان میں امریکی سفیر کیوں مقرر نہیں ہوسکا اور امریکی محکمہ خارجہ کی افسر کشمیر کی صورتحال پر پوری تیاری کئے بغیر خطے کا دورہ کیوں کرتی ہے ایک اور کانگریس مین ایرک سوالول نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کشمیر کی تکلیف دہ صورتحال کا تعلق صرف پاکستان اور بھارت سے نہیں بلکہ اس کے عالمی سطح پر فوجی معاشی اور اخلاقی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے دورے کے موقع پر صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے مودی کی حکومت پر زور دیں۔ یاد رہے صدر ٹر مپ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کے ہمراہ 24اور 25فروری کو بھارت کا دورہ کریں گے۔
امریکی قانون ساز