سوشل میڈیا پر قدغن؟
وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون کی منظوری دے دی جو وزارت اطلاعات نے تیار کیا، اس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک اور ایسی دیگر ویب اور بلاگز کے لئے پیشگی منظوری لینا اور رجسٹریشن کے لئے فیس ادا کرنا ہوگی، اس سلسلے میں جو قواعد مرتب کئے گئے ان کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ایک مقامی ٹی وی کی اطلاع کے مطابق اس قانون کے تحت قابل اعتراض مواد کو نہ صرف ہٹایا جا سکے گا بلکہ متعلقہ پلیٹ فارم کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی میڈیا کی آزادی چھین لی گئی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی، تاہم حکمران اس سے شاکی ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کو حکومت مخالف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جو قانون اور قواعد مرتب کئے گئے ہیں ان کی تشہیر بھی کی جائے گی۔ حکومتی قواعد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس قانون اور قواعد کے نفاذ کے بعد انفرمیشن ٹیکنالوجی کا کوئی بلاگ بھی نہ بن سکے گا، اس سلسلے میں لوگوں نے رائے ظاہر کی کہ موجودہ حکومت خود ایسے ہی نظام کی وجہ سے اقتدار میں آئی اور اب یہی حکومت سوشل میڈیا کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اپنا غبار بھی نہ نکالنے دیا جائے، حکومت کے اس اقدام کو ناپسند کیا گیا اور کہا گیا ہے حکومت اپنے خلاف اٹھنے والے تمام اعتراضات کو دبا دینا چاہتی ہے حالانکہ جمہوری ادوار میں یہ پابندی مناسب نہیں، جہاں تک قابل اعتراض مواد کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے پہلے ہی اختیارات موجود ہیں اور ایف آئی اے میں بھی ایک سائبر کرائمز کا شعبہ قائم ہے جو شکائت ملنے پر کارروائی کرتا ہے۔ حکومت کو سوچ سمجھ کر اقدام کرنا چاہیے کہ اس سے بے چینی پیدا ہوتی ہے۔