خدارا! قوم کی نفسیات سے نہ کھیلیں!
ہمارے آبائی محلے اکبری منڈی کے تاجر حضرات اپنے نفع نقصان کا حساب یوں بھی کرتے تھے کہ چینی ایک روپیہ یا اس سے کم سستی ہوتی تو وہ اسے بھاری نقصان جانتے۔یہ دلچسپ بات بھی ہے کہ ایک بڑے تاجر کے گودام میں مال پڑا تھا، سستے داموں لیا گیا۔ وہ منتظر تھے کہ کب مزید دام بڑھیں تو وہ مال بازار میں لائیں، اتفاق سے اگلے روز نرخوں میں دس پیسے کی کمی ہو گئی، ان کو خیال ہوا، رجحان مندے کا ہے، تو مال نکال لیا تاہم اس وقت وہ سارا دن یہی کہتے رہے کہ نقصان ہو گیا، نقصان ہو گیا۔ ایک واقف کار حیران تھے انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ حاجی صاحب! آپ کو نقصان کیسے ہوا، آپ نے تو سستے وقت میں گودام بھر لیا تھا، حاجی صاحب نے کہا! بھائی یہ دس پیسے کمی ہوئی ہے تو یہ میرا نقصان نہیں۔مَیں نے تو منافع کے لئے بھاری رقم خرچ کی تھی اور یہاں دس پیسے کا مندا ہو گیا۔ یوں وہ نقصان کہتے کہ ان کے منافع میں دس پیسے کم ہو گئے تھے، ایسا کچھ حال ہمارے آج کے دور کا ہے کہ کمی ہو تو فائدے میں سے نقصان ہوتا۔یوں بھی اللہ سلامت رکھے ہمارے مہربانوں کو جو پوری قوم کی نفسیات سے کھیل رہے ہیں، ابھی پندرہ روز نہیں ہوئے کہ بجلی کے نرخوں میں قریباً دو روپے اضافہ کیا گیا اور یونٹ 14روپے کچھ پیسے کا ہو گیا تھا، اب پھر سے یہی عمل کیا گیا کہ مزید دو روپے بڑھا دیئے۔ یہ نفسیاتی عمل نہیں تو کیا ہے۔ اگر پہلے چار روپے یونٹ بڑھا دیتے تو زیادہ صدمہ ہوتا اور چیخیں بلند ہوتیں اب پہلے دو روپے ہضم کرا کے اب مزید دو روپے بڑھائے تو بات ان دو روپوں کی ہو گی۔ یوں نفسیاتی طور پر پہلا جھٹکا برداشت کرا کے دوسرا جھٹکا لگایا گیا ہے کہ برداشت ہو۔
وزیراعظم تو کہتے ہیں، گھبرانا نہیں۔ صبر کرو اور آئی ایم ایف سے تحفے میں ملے ان کے وزیر خزانہ ٹیکسوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے ان عوام پر بوجھ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں،جن کی کمر پہلے ہی جھکی ہوئی اور ایسے مزید بوجھ سے وہ گر ہی پڑیں گے۔ یہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اب سود و زیاں کا حساب ہمیں بتانے لگے ہیں کہ اتنا قرض پہلے تھا اور اتنا ہی ہم نے مزید لینا ہے اس لئے صبر تو کرنا پڑے گا ان کے بقول دو ارب ڈالر کا قرض بھی واپس کرنا ہے۔ شاید یہ اس قرض کی قسط ہو،جو ایک سال کے لئے موخر کی گئی تھی، بہرحال محترم وزیر خزانہ کا کام اب ڈرا کر ٹیکس بڑھانا ہے، اور کم ریکوری کو پٹرولیم، گیس اور اب بجلی کے نرخ بڑھا کر پورا کرنے کی کوشش ہے اور یہ بھی ناکام ہی ہو گی کہ لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہو چکی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ اچھی نفسیاتی مشق ستم ہے جو قوم کے ساتھ ہو رہی ہے۔گرمیاں آنے والی ہیں اور اب یہ مشورے ہو رہے ہیں کہ بجلی کا استعمال کم کیا جائے،جن کے پاس رقم ہے،اللہ نے دیا ہوا ہے وہ ابھی تو متبادل کے طور پر سولر استعمال کر رہے تھے، اب وہ لوگ جن کی استطاعت نہیں ہے، قرض لے کر بھی سولر انرجی لگا رہے ہیں، ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ کو شاید یہ بھی پسند نہ آئے وہ بجلی کم خرچ پر ناراض تو ہوں گے اور اگر ناراض ہوئے تو پھر وہی دما دم مست قلندر اور یقینا وہ سولر پر بھی ٹیکس لگا دیں گے۔ ابھی تو مہنگا ہونے کی وجہ سے کم لوگ لگوا رہے ہیں، ان کی تعداد مزید بڑھے گی۔ بات کہاں سے شروع کی اور کدھر چلی گئی۔ یہ غیر حاضر دماغ کی وجہ سے ہے، ہم توقع کرتے ہیں کہ منافع میں کمی کو نقصان نہ بنایا جائے اور عوام کو خود کشیوں پر مجبور نہ کیا جائے،کہ اب غربت کی لکیر سے نیچے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے،ہم نے دِل کی بات کر دی، آپ قبول کریں یا نہ کریں۔
اب ذرا سینیٹ کے انتخابات کی بھی بات کر لیں۔ وزیراعظم نے کہا انتخاب کے بعد سینیٹ میں بھی ان کی اکثریت ہو گی۔ یہ بات ان کی ”بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے“ والے مقولے کی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں جس جماعت کے جتنے رکن ہیں، ان کے عین مطابق نتائج ہوں تو ان کی جماعت سینیٹ میں واحد اکثریتی جماعت بن جائے گی کہ پنجاب اور کے پی میں ان کے اراکین زیادہ ہیں،لیکن یہ بھی سیاست کا کھیل ہے۔ کیا پتہ کہ پولنگ کے طریق کار میں تبدیلی نہ ہو سکے اور ووٹنگ خفیہ اور متناسب نمائندگی والی ہو تو پھر کچھ علم نہیں کہ ڈبے میں کیا برآمد ہو، اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ عوام بھی دُعا کر رہے ہیں، کہ ان کی اکثریت نہ ہو اور ان کی جماعت میں سے بھی پیٹریاٹ برآمد ہو جائیں،اگر امیدواروں کی نامزدگی دیکھی جائے تو اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مستقبل کی سوچ کیا ہے، فی الحال جو لوگ سامنے آئے ان کی وجہ سے بہت حضرات مایوس ہوئے ہیں اور کئی مہارت والے لوگ ابھی تک باہر ہیں، پیپلزپارٹی نے عبدالرحمن ملک کو تاحال نہیں پوچھا تو بابر اعوان کی آس بھی ٹوٹی ہے، تاہم وہ شجر سے پیوستہ ہیں اور ان کو امید ِ بہار ہے، لیکن عبدالرحمن ملک ضرور اُداس ہیں،کہ وہ تو محترم آصف علی زرداری کے قریب تر ہیں، پھر کیوں نظر انداز ہوئے۔بقول ان کے ان کی پرفارمنس بھی ٹھیک رہی تاہم ہمارا خیال ہے کہ شاید اب بھی گنجائش ہو کہ یہ سب امیدوار صرف آصف علی زرداری کے نامزد کردہ نہیں ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی اپنی رائے اور آصفہ بھٹو زرداری کی سفارش بھی شامل ہے۔ویسے عبدالرحمن ملک کے حوالے سے کئی کہانیاں پیپلزپارٹی کے اندر بھی چلتی چلی آ رہی ہیں،ان کو بھی امید ِ بہار رکھنا چاہئے کہ شاید آصف علی زرداری پھر سے اکاموڈیٹ کریں، ورنہ راز داں تو راز داں ہی ہوتا ہے۔