سینیٹ کی سٹنٹڈ گروتھ
سینیٹ انتخابات کا شیڈول مشتہرہونے سے قبل جتنے کھیل حکومت نے رچائے ان پرآفرین کہنے کو دل کرتا ہے،مگر آخر میں اسے حاصل کیا ہوا، سوائے بدنامی اور وضاحتوں کی گردان کے، آج پرویز خٹک چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ وہ اس ویڈیو کے موجد نہیں ہیں، جس میں پی ٹی آئی کے اراکین سینیٹ انتخابات کے نام پر بھاری رقوم وصول کرتے دکھائے گئے ہیں۔ شائد انہیں اس کہے کی سزا مل رہی ہے کہ اگر وہ اپنی حمائت کھینچ لیں تو عمران خان ایک دن بھی وزیراعظم نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس بیان کے بعد بھی وہ میڈیا پر وضاحتیں دیتے پائے گئے تھے اور اس ویڈیو کے بعد بھی وہ وضاحتیں دیتے پائے جا رہے ہیں۔
جو فلم سینیٹ انتخابات کے نام پر پی ٹی آئی نے عوام کو دکھادی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ریاست میں سینیٹ انتخابات کے نام پر سیاسی جماعتوں کو اور سیاستدانوں کو پیسہ بنانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بھاری رقوم خرچ کر کے آخر ان سینیٹرز کو کیا ملتاہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سینیٹر بنے بغیر ہضم نہیں ہوتا ؟ آجا کر یہی سمجھ آتی ہے کہ روپے پیسے کی ریل پیل ایسے منچلوں کو ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتی اور وہ بھاری رقوم ادا کرکے اپنے لئے عزت خریدتے نظر آتے ہیں،حالانکہ سیانے کہتے ہیں کہ کوئی آپ سے پیسے چھیننے کے درپے ہو تو پیسے دے کر جان بچالیں اور جان دے کر عزت بچالیں، لیکن یہ باتیں ان کے لئے ہیں، جن کی جیبیں خالی ہوتی ہیں اورجنھیں ہر وقت اپنی عزت نیلا م ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، پیسے والوں کے لئے عزت کا معیار مختلف ہے۔ کم از کم سینیٹ انتخابات کے لئے لگنے والی منڈیوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔
سینیٹ کا ادارہ دراصل ان لوگوں کے لئے تھا جو ملکی تعمیر و ترقی میں اپنی شمولیت دینے کے اہل ہوتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھنے کے سبب ایک اجتماعی بہتری کی بات کر سکتے ہیں، لیکن اب تو سینیٹ کا امیدوار ہونے کی سب سے بڑی شرط پیسہ ہے اور سب سے چھوٹی شرط وفاداری ہے۔ نواز شریف نے یہی کہہ کر جمعیت اہلحدیث کے سربراہ علامہ ساجد میر کو دوبارہ سے سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا ہے کہ آپ وفادار ہیں اور اتحادی بھی ہیں۔گویا سینیٹ کے لئے وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے، نہ اس سے آگے کچھ ہے اور نہ اس سے پیچھے کچھ ہے!
پی ٹی آئی نے سینیٹ کے لئے فیصل جاوید کو منتخب کروایا تو ہمارا ماتھا اسی روز ٹھٹکا تھا کہ سینیٹ کا جنازہ نکل گیا ہے کیونکہ فیصل کی عمر تو ابھی قومی اسمبلی میں غل غپاڑہ کرنے کی ہے، انہیں سینیٹ جیسے معتبر ادارے میں کیونکر لے جایا گیا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی بڑی بے رحم ہے، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یہ کئی نسلوں کا خون اتنی آسانی سے کر دیتی ہے جتنی آسانی سے آپ پان سگریٹ کی دکان پر کھڑے ہو کر سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جو ہاہا کار مچی اس کے نتیجے میں ایک پوری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہوگئی، کوئی نشے کی لت میں پڑگیا تو کوئی کلاشنکوف کلچر کادلدادہ بن کر عاطف چودھری اور شفیق گجر کی شکل میں پولیس مقابلوں میں مارا گیا۔ باقی ہم جیسے تھے جن کے پاس کوئی پرچی تھی اور نہ کوئی چاچا ماما کرنل جنرل تھا،دھکے کھاتے کھاتے آج یہاں تک آپہنچے،لیکن ہمارے بعد آنے والے تو ہم سے بھی بدقسمت نکلے کہ اسمبلیوں میں جا بیٹھے، یہ لوٹ مار نہیں تو اور کیا ہے۔ انہی کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ معاشرے کو آگے بڑھانے کے لئے فیصلے معاشرے کے بڑے بوڑھے کرتے تھے جو سردوگرم چشیدہ ہوتے تھے اور نوجوانوں کو احکامات کی بجاآوری کے لئے رکھا جاتا تھا، لیکن بھلا ہو پی ٹی آئی کا کہ اس نے نوجوانوں، خواتین اور بچوں کے سر پر حکومت چلائی ہے اور آج لگتاہے کہ پورے ملک کو بریک لگی ہوئی ہے۔فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی میں ایسے کیا گل کھلائے تھے جو سینیٹ میں آکر کھلانے باقی رہ گئے ہیں، زیادہ سے زیادہ وہی تو تکار اور گالم گلوچ سینیٹ میں سنائی دینے لگی،جو مراد سعید کے دم سے قومی اسمبلی کا خاصا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو سننے کی بجائے سنانے پر تلے ہوئے ہیں اور عملی طور پر کچھ کرنے کے روادار نہیں ہیں۔
2021ء کے سینیٹ انتخابات سے سوائے ایک اور ادارے کے وجود میں آ جانے کے کچھ اور حاصل نہیں ہو گا،کیونکہ ہماری سیاسی جماعتیں ریاست کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی نظر آ رہی ہیں اور سینیٹ جیسے معتبر ادارے میں اپنے وفاداروں اور سپانسروں کی بھرمار کرکے وہاں بھی بھوسہ بھرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی تو پہلے ہی کشت زعفران بنی ہوئی ہے، اب سینیٹ میں بھی چاند ماری عام ہو گی اور پاکستان”اُٹھے گا اعتبار کوئے جاناں ہم نہ کہتے تھے“ کی عملی تصویر بنا نظر آئے گا۔ اس پرسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کااصرار ہے کہ نظام بدلے بغیر ملک نہیں چل سکتا جبکہ نواز شریف ایک طرف ووٹ کو عزت دو کا منترا پڑھتے پڑھتے دن سے رات کر رہے ہیں اور دوسری جانب اپنے وفاداروں کو سینیٹ میں بٹھاتے جا رہے ہیں۔ آصف علی زرداری سے خیر کوئی گلہ ہی نہیں کہ انہیں تو آتا ہی وہی کچھ ہے،جو کچھ وہ کر رہے ہیں اور عمران خان،چلئے چھوڑیئے اس بات کو آئندہ پر اٹھارکھتے ہیں۔ ان سے تو اتنی ہی عرض کی جا سکتی ہے کہ آپ بچوں میں سٹنٹڈگروتھ پر تو بہت کڑھتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ سینیٹ کی سٹنٹڈ گروتھ پر بھی توجہ دیں،کیونکہ جب آپ اداروں میں صرف اپنے وفادار بھریں گے تو وہ کیونکر قوم کے نونہالوں کو کوئی وژن دے کرآگے لے جا سکیں گے۔عمران خان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس جو یوتھ کا پوٹینشل ہے اس سے اگر ہم نے 2024ء تک فائدہ نہ اٹھایا تو ملکی ترقی کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔