کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت
کنٹرول لائن پر جاری بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاک فوج کے حوالدار محی الدین بھی شہید ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت نے پاکستان کے مطالبے کے باوجود اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مطابق بھارتی قومی سلامتی کے مشیر شیوشنکر مینن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت نہ تو اِس معاملے کی تحقیقات اقوام متحدہ یا کسی تیسری قوت سے کرائے گا اور نہ ہی پاکستان کو روایتی فوجی ڈھنگ سے جواب دیا جائے گا، البتہ پاکستان کو 8 جنوری کو مرے لانس نائیک ہیم راج اور سدھاسنگھ کی اموات کا جواب خاطر خواہ ڈھنگ سے دیا جائے گا۔ بھارت کی داخلی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم کی رائے میں گزشتہ ایک دو روز میں کوئٹہ، کراچی، سوات اور ملک کے دوسرے حصوں میں، جو بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہو رہی ہے، یہ بھارت کا مبینہ طور پر خاطر خواہ جواب ہی ہے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ 10 جنوری کو بھارتی حکام کا مذکورہ بیان ”کیبنٹ کمیٹی آن سیکیورٹی“ کے خصوصی اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ مذکورہ کمیٹی اندرونی اور بیرونی سلامتی کے حوالے سے ہندوستان کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے، جس کے ارکان داخلہ، خارجہ، خزانہ امور کے مرکزی وزیر اور سربراہ انڈین پرائمر منسٹر ہیں۔ تینوں افواج اور سبھی انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ بھی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے غالباً اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے اندر ہونے والے ہر حادثے کی ذمہ داری براہ راست پاک حکومت پر عائد کی جائے اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ذکر ہی نہ کیا جائے، جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی کے ذمہ دار کرنل پروہت وغیرہ کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، جس پر پوری قوم، خصوصاً متعلقہ مقتدر حلقوں کو فوری توجہ دینا ہو گی۔اِس معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے 10جنوری کو پریس بریفنگ کے دوران اِس امر پر حیرانی ظاہر کی کہ بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے پاک فوج اور حکومت پر انتہائی بے سروپا الزامات عائد کئے گئے ہیں، جن کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔
اِس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ 6 جنوری 2013ءکو لائن آف کنٹرول پر انڈین آرمی نے جنگ بندی کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح لانس نائیک محمد اسلم کو شہید کیا اور اُن کے ایک ساتھی کو شدید زخمی کیا، اِس حوالے سے چاہیے تو یہ تھا کہ بھارتی حکومت اِس پر معذرت کا اظہار کرتی اور آئندہ سے محتاط رہنے کا عزم ظاہر کرتی، مگر دہلی کے حکمرانوں اور میڈیا نے ....”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“.... کے محاورے کو عملی شکل دیتے ہوئے پاکستان پر شدید الزام تراشی شروع کر دی کہ ”منڈھیر سیکٹر“ میں ایل او سی پر پاک فوج نے ہندوستانی فوج کے دو سپاہیوں کو مار دیا ہے اور اُن مرنے والے فوجیوں کے سر بھی قلم کر دیئے گئے ہیں۔ اِن مبینہ الزامات کی شدت اور تسلسل کا یہ عالم تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی جانب سے بھی انتہائی جارحانہ لب و لہجے میں پاکستان کو مخاطب کیا گیا، جو تمام سفارتی اور بین الاقوامی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی تھی، حالانکہ 8 جنوری کے مبینہ واقعہ کے حوالے سے خود بھارتی فوج اور میڈیا کے بیانات میں تضادات بہت نمایاں تھے، مگر بھارت کے بالادست طبقات نے پاکستان کی بابت الزامات کی وہ دھماچوکڑی مچائی جیسے قیامت آگئی ہو۔
بھارت کے اکثر ٹیلی ویژن چینل پاکستان کی بابت بدکلامی کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ”آج تک“ اور کئی دوسرے چینلوں پر نام نہاد بھارتی تجزیہ نگار اپنی حکومت کو یہ مشورہ دیتے نظر آئے کہ پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہو کر 2 بھارتیوں کے بدلے میں کم از کم 40 پاکستانیوں کے سر قلم کئے جائیں۔ ”شیو سینا“ کے ترجمان سنجے راوت، بال ٹھاکرے کے فرزند ارجمند اور شیوسینا کے سربراہ اودت ٹھاکرے، مہاراشٹر نوئرمان سینا، یعنی ایم این ایس کے کرتا دھرتا راج ٹھاکرے، مشہور تجزیہ نگار بھرت ورما اور کانگریس اور بی جے پی کے اکثر رہنما اور کارکن اپنی حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے پاک فوج، حکومت اور عوام کو مطعون کر رہے تھے۔ دوسری جانب پاکستانی میڈیا نے 6 جنوری کو شہید ہونے والے محمد اسلم اور دیگر زخمیوں کی بابت ضرورت سے زیادہ ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنایا اور خاطر خواہ ڈھنگ سے بھارت کے جارحانہ رویے کی مذمت بھی نہ کی۔ پاک بھارت میڈیا کی اکثریت کا طرزِ عمل غالباً کسی خاص سوچ کی عکاسی کرتا نظر آیا، گویا:
ہماری بزم اور اُن کی بزم میں ہے فرق اتنا
وہاں چراغ ، یہاں دل جلائے جاتے ہیں
....”شعر میں معمولی رِدّو بدل کے لئے شاعر سے معذرت“.... والا معاملہ ہے۔ ہمارے میڈیا اور سول سوسائٹی کا ایک حلقہ جانے کون سی ”امن کی آشا“ جلائے حقائق سے آنکھیں موندے بیٹھا ہے۔ اِس واقعہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر، دریائی پانی کی تقسیم، سیاچن اور سرکریک جیسے حقیقی مسائل کا حل منصفانہ ڈھنگ سے تلاش نہیں کیا جاتا،اُس وقت تک امن کی آشا محض آشا ہی رہے گی اور یہ کسی چھوٹی سی بات پر بھی مکمل نراشا (ناامیدی) میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ بھارت کی نسبتاً روشن خیال اور اعتدال پسند سمجھی جانے والی شخصیات نے بھی گزشتہ چند روز میں تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے، اِس کی مثال خاتون بھارتی صحافی برکھادت کے حالیہ مبینہ سانحے پر ریمارکس ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ بھارتی فوجیوں کے ساتھ تشدد کی یہ پہلی واردات نہیں ہوئی، بلکہ مقبوضہ کشمیر، شمال مشرقی بھارت اور نکسل تحریک کے متاثرہ علاقوں میں ایسے واقعات وقفوں وقفوں کے ساتھ ان گنت مرتبہ پیش آ چکے ہیں، خود پاکستان کے اندر بھی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی بے رحمانہ وارداتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ ایسے میں بھارت میں ہونے والی ہر ناخوشگوار واردات کی جڑیں اپنے یہاں تلاش کرنے کے بجائے اُس کی ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر ڈال دینے کی بھارتی روش قابل مذمت ہونے کے ساتھ ساتھ تشویش کا باعث بھی ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کے کچھ حلقوں نے بھی اِس بھارتی روش کی پیروی میں ملک کے اندر یا باہر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کے لئے وطن عزیز کی فوج اور آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا عمل شروع کرکے گویا بھارتی کٹھ پتلیوں کے طور پر کام شروع کردیا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اِس منفی روش کو ترک کرکے تعمیری سوچ اپنائی جائے گی۔ ٭