کتنی اور شہادتوں کا خراج لے گی یہ دہشت گردی ؟
پاکستان کی شان ، پولیس کی پہچان ، عوام کا مان اور دہشت گردوں کے لئے وبال جان ، چودھری محمد اسلم ، ایس ایس پی ، سی آئی ڈی ،سندھ ، کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصرکی کمر توڑتے اور کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے بالآخرشہادت کے اعلیٰ وارفع منصب پر فائز ہوگئے ۔اگرچہ چودھری محمد اسلم کراچی میں بھرتی ہوئے اور کراچی میں ہی تمام زندگی نوکری کی، لیکن اُن کی بہادری، بے خوفی اور اُن کے کارنامے کچھ اس قدر عیاں اور نمایاں تھے کہ پاکستان کا ہر بچہ ، جوان اور بوڑھا اور ہر خاص وعام اُنہیں ناصرف جانتا اور پہچانتا تھا، بلکہ اُن سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتا تھا ۔اُن کی صورت اور اُن کا وجود عوام کے لئے حوصلے اور تحفظ کی علامت بن چکا تھا۔ کراچی کے تھوڑے سے لوگوں کے سوا پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ چودھری محمد اسلم کون اور کہاں کے رہنے والے ہیں، لیکن پاکستان کا ہر باشعور اور باخبر شخص جانتا تھا اور مانتا تھاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف تیغ ِ بے نیام ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی شہید ایساہوگا ،جس کی شہادت نے بلاتمیز رنگ و نسل ،علاقہ و زبان، ملت و مذہب ہر پاکستانی کے دل کواس طرح چھو اہو اور شاید ہی کوئی شہید ایسا ہوگا جس کو اس قدر خراج عقیدت پیش کیا گیا ہو گا،جتنا چودھری محمد اسلم کو پیش کیا گیا۔
سابقہ اور موجودہ سربراہان مملکت ، وزرائے اعظم ، چیف آف آرمی سٹاف ، تمام صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ،تما م سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے سربراہوں اور اہم رہنماﺅں اور عوام کے ہر مکتب ِفکر اور ہرمکتب ِ معاش کے ہر خاص و عام نے چودھری محمد اسلم کو انتہائی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اُن کے قاتلین کی مذمت کی ۔اور تواور تحریک طالبان پاکستان، جس نے اُنہیں شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کی، اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے بھی اُن کی بہادری اور ایک سخت جان پولیس افسر کے طور پر تعریف کی ۔ اورپھر چودھری محمد اسلم کی شہادت کے ساتھ ہی ہنگو میں ایک پندرہ سالہ نوجوان اعتزاز حسن نے جس طرح اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے سکول کے سینکڑوں بچوں کو ایک خودکش حملے سے بچایا وہ بہادری، حب الوطنی اور قوم دوستی کی ایک ایسی نادر مثال ہے جو تاریخ میں بہت کم کم ملتی ہے۔ اﷲاﷲ ۔ کیسے کیسے گوہر نایاب اور کیسے کیسے بے مثال اور لازوال کردار پاکستان کی اس دھرتی نے پیدا کئے ہیں ۔پاکستان کی اس مقدس دھرتی نے صرف یہی دو نہیں، بلکہ آئی جی صفوت غیور ، جنرل ثناءاﷲ نیازی ، ڈی آئی جی ملک سعد ، ڈی آئی جی فیاض سنبل ، ایس ایس پی محمد اشرف مارتھ، ایس پی محمد بلال، جیسے درجنوں نہیں سینکڑوں شہید پید اکئے جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار انتہائی دلیر ی اور بے خوفی سے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے عین میدان جنگ میں شہید ہوئے ۔پولیس ، فوج اور دیگر اداروں کے یہ شہداءپاکستانی قوم کے ماتھے کا جھومر اور آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا مینار ہیں ۔
چودھری محمد اسلم اور اعتزازحسن کی ان دوآخری شہادتوں پر جس طرح عوام و خواص کا رد عمل سامنے آیا ہے یہ قو م کی یکجہتی ، ذہنی یکسوئی اور اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان رکھنے کا گراں بہا ثبوت ہے ۔قوم نے بحیثیت مجموعی اپنے جذبا ت اور رائے کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے فلسفے، نظریے اور سر گرمیوں کو کسی طور پسند نہیں کرتے اور یہ کہ وہ پاکستان سے ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔حکومت کو اب عوام کی اس واضح رائے کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے اور اُس گومگو کی کیفیت میں سے نکل آنا چاہیے، جس میں وہ اب تک مبتلا ہے ۔ حکومت نے طالبا ن سے گفت و شنید کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے اور ملک میں امن لانے کی جو حکمت عملی ابتدا ءمیں وضع کی تھی اورجس کی پارلیمنٹ اور آل پارٹیز کانفرنس بشمول مسلح افواج نے بھر پورتائید کی تھی اپنے وقت کے لحاظ سے درست حکمت عملی تھی ، لیکن بد قسمتی سے کچھ بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور خود تحریک طالبا ن کی نئی قیادت کے بات چیت سے انکار کے بعد حکومت کی یہ حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے ۔اس کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں رہا کہ وہ دوسرے آپشنز پر غور کرے۔
راقم الحروف نے متعد د مرتبہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں طالبا ن سے مذاکرات کی اس مفروضے پر تائید و حمایت کی کہ یہ بہر حال اپنے ہی لوگ ہیں، اپنے ہی لوگوں کے زیر ِ اثر ہیں ، پاکستان سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں ، لہٰذااُن سے اُن کے ان مثبت پہلوﺅں کی بنیاد پر بات چیت کا دروازہ کھولا جائے،لیکن اب راقم الحروف اور اُس جیسی سوچ رکھنے والے دیگر لوگ بھی یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے ۔ حکومت کی رٹ بھی کوئی چیز ہے ۔اگر وہ نہ رہے تو حکومت کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو جاتا ہے ۔یوں بھی جسم کا کوئی حصہ کینسر کا شکار ہوجائے تو اُس کا ہر ممکن علاج معالجہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ اُس کی بیماری اور تکلیف سارے جسم کی بیماری اورتکلیف بن جاتی ہے، لیکن جب ہر طرح کی دیکھ بھال ، احتیاط اور علاج معالجے کے بعد بھی جسم کا وہ حصہ ٹھیک نہ ہو، بلکہ کینسر جسم کے باقی حصوں کی طرف بھی پھیلنا شروع کر دے، تو پھر مریض کی جسم و جان کو بچانے کے لئے اُس متاثر ہ حصے کو نہ چاہتے ہوئے بھی انتہائی غم اور الم کی حالت میں کاٹ ہی ڈالنا پڑتا ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت فوری طور 'ماہرین 'کا بورڈ بٹھائے جو یہ فیصلہ کرے کہ پاکستان کے وجودمیں پھیلتے ہوئے دہشت گردی کے اس ناسور کو مصالحت اور بات چیت کے علاج معالجے سے شفاءیابی کا کوئی امکان باقی رہا ہے یا نہیں ؟ اگر ہے توفی الفور انتہائی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ یہ کر گزرا جائے ،لیکن اگر اس طریقہ علاج سے شفاءیابی کی اب کوئی اُمید باقی نہیںرہی توپاکستان کے وجود اور اُس میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی جان ومال اورا س ملک کی معیشت کو بچانے کے لئے اب مزید انتظا ر نہ کیا جائے اور اس ناسور کو کاٹ پھینکنے کا عمل جراحی ماہرہاتھوں کے ذریعے فوری طور پر شروع کردیا جائے ۔جب پوری قوم پشت پر کھڑی ہو ،طاقت کے مراکز بھی ساتھ ہوں ،تو پھر صرف حوصلے اور فیصلے کی ضرورت ہی باقی رہ جاتی ہے ،جس کا وقت اب آن پہنچا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ امن ہمیشہ صرف بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے سے ہی نہیں آتا ۔ اکثر و بیشتر امن طاقت اور جنگ کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔آخر کب تک طاقت رکھنے کے باوجود ہم شہیدوں کے جناز ے اُٹھاتے رہیں گے ؟کب تک ہم پرخچے اُڑی لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کر کر کے ان کے جنازے پڑھتے اوراُنہیں بے نامی قبروں میں دفن کرتے رہیں گے اوردہشت گردی کی ہر نئی کارروائی پر دہشت گردوں کے خلاف مذمتی بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتے رہیں گے؟ظلم کرنے کی بھی اور ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ کیا ابھی پاکستانی قوم ان حدوں تک نہیں پہنچی ؟کیا ابھی اس قوم کی سخت جانی کا مزید امتحان لیا جانا باقی ہے؟کیا ابھی دہشت گردوں کو شہیدوں کے خون کا مزید خراج ادا کرنا باقی ہے؟کیا ابھی مزید کئی اور چودھری محمد اسلم اور اعتزازحسن قربا ن ہونے باقی ہیں ؟