میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں باعثِ تخلیقِ کائنات سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت اس قدر باعث فرحت و سُرور ہے کہ اس کے لئے الفاظ کا سہارا لینا ناممکن نظر آتا ہے۔ جشنِ میلاد یا محفل میلاد سے مراد حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور صاحبِ قرآن کی ولادت باسعادت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عظیم انعام و احسان کا ذکر ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں دینی تعلیمات سے آگاہ کرنا، محافِل ذکر، درود و سلام، نعت خوانی کا انعقاد کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، شیرینی تقسیم کرنا، کھانے کا اہتمام کرنا اور اظہار مسرّت کے لئے اپنے مکانوں، گِردوپیش اور مساجد کو آراستہ کرنا وغیرہ ہے۔ ہر وہ مسلمان جس کے دل میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی شمع فروزاں ہے، حضور کی ولادت کو اللہ تعالیٰ کی نعمتِ غیر مترقبہ اور اس کا عظیم فضل و رحمت تسلیم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔لہٰذامسلمانان عالم جلسوں اور سیرت کانفرنسوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
 حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا عدم سے وجود میں جلوہ گر ہونا خلقتِ محمدی ہے، اس دنیا میں تشریف آوری ولادت محمدی ہے اور چالیس برس کی عمرِ مبارک میں وحیئِ نبوت سے مشرف ہو کر دعوتِ دینِ حق پر مامور ہونا بعثتِ محمدی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی باعثِ تخلیقِ کائنات ہے، جسے تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت حاصل ہے ۔قرآنِ حکیم پارہ سوم کی ابتدائی آیات ملاحظہ کیجیے، جن کا ترجمہ ہے:”یہ سب رسول ہیں جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطاءکی، بعض ان میں وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے رُتبے بلند کئے“.... چنانچہ جن کے رتبے بلند کئے۔ جن کے درجات بلند فرمائے، وہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم ہیں جو مظہرِ فضل و رحمتِ پروردگارِ عالم ہیں۔ارشادِ ربانی ملاحظہ کیجئے....
(ترجمہ ”اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔ اس آیت مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم ہر زمانے کے لئے رحمت ہیں چاہے وہ زمانہ گزشتہ ہو حال ہو یا مستقبل۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی ماثبت بالسنة میں رقمطراز ہیں ، جس کا مفہوم اس طرح سے ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے لیلة القدر کو نزولِ ملائکہ کا شرف بخشا جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر احسان ہے، جبکہ شبِ میلاد النبی لیلة القدر سے بھی افضل ہے ،اس لئے کہ اس رات کو اُس عظیم المرتبت ذاتِ مقدسہ سے شرف ملا ہے جو رحمتہ اللعٰلمین ہیں، لہٰذا لیلة المیلاد میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اُمتِ محمدیہ، بلکہ تمام موجوداتِ عالمین پر اپنا فضل اور احسان فرمایا کہ رحمتہ اللعٰلمین کی ولادتِ مقدسہ سے مشرف فرمایا“۔
سورةِ القدر ملاحظہ کیجئے ،جس کی رُو سے جس رات قرآن اُترا ،وہ رات ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائی اور جس دِن وہ قرآنِ ناطق تشریف لائے، اس کی عظمتوں کا عالم کیا ہوگا۔ شبِ قدر ہر سال منائی جاتی ہے تو وہ رات کیوں نہ منائی جائے جس رات رحمتہ اللعٰلمین تشریف لائے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ وَاذ±کُرُو±ا نِع±مَةَ اللّٰہِ عَلَی±کُم (سورة المائدہ جزو آیت نمبر7) ”اور اللہ نے تمہیں جو نعمتیں عطاءفرمائی ہیں ،ان کا ذکر کرو“ (لہٰذا اللہ نے اپنے حبیب کو مبعوث فرما کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے، اسے یاد رکھنے کا حکم ہے) پھر فرمایا وَاَمَّا بِنِع±مَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث± (سورة الضحیٰ آیت نمبر ۱۱) یعنی اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔
جب اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا چرچا کرنے کا بار بار حکم دے رہا ہے تو اُس عظیم المرتبت ہستی کی ولادتِ باسعادت کا ذکر کیوں نہ کیا جائے ،جن کا وجودِ پاک اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت کاملہ ہے جو باعث نزول نعمت بھی ہیں یعنی قاسمِ انعامات الٰہی ہیں اور باعثِ تکمیلِ نعمت بھی ہیں، اللہ نے فرمایا:۔ وَاَت±مَم±تُ عَلَی±کُم± نِع±مَتِی ”اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی“(المائدہ آیت3)اس ہستی کا ذکر کیوں نہ کیا جائے، جن کا ذکر خالق کائنات فرماتا ہے ،اُن پر درود بھیجتا ہے ،اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اور اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ آپ پر درود و سلام بھیجیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ اے حبیب تیری جان (عمر) کی قسم (پارہ 14، سورة الحجر آیت72) اور پھر جس چیز کو حبیب خدا سے نسبت ہو جائے اس کی قسمیں خالق کائنات اٹھاتا ہے۔ ارشاد ہوا:۔ لَا اُق±سِمُ بِھٰذَا ال±بَلَدِ (۱) وَاَن±تَ حِلّ µ بِھَذَا ال±بَلَد± (۲) (سورہ البلد) ”(اے حبیب) میں قسم نہیں کھاتا ،مگر اس لئے کہ آپ اس شہر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یعنی اللہ کا حبیب جس شہر کو اپنی سکونت سے سرفراز فرمائے، اگر وہ مکہ ہو تو مکہ کی قسم اگر مدینہ ہو تو مدینہ کی قسم اور پھر جس مہینے اور جس دن کو اللہ کے اُس پیارے کی ولادت کا شرف حاصل ہو جائے ،اس کی عظمت و رفعت کا عالم کیا ہوگا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا ورفعنا لک ذکرک.... ”اے حبیب ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا“۔ وہ ہستی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ بلند فرمائے، ان کا ذکر پست کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ قرآن کی رُو سے حضور کا ذکرِ ولادت قبل از ولادت ثابت ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ سے دعاءکی۔
(1) اے ہمارے رب اِن میں سے انہی میں سے ایک رسول بھیج کہ اِن پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور خوب پاک کرے بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے (سورئہ البقرہ آیت نمبر129)
حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا:۔
(2) ”میں ان رسول کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ،ان کا نام احمد ہے (سورة الصَّفِّ آیت 6)
(3) اور اس سے پہلے وہ (یہود و نصاریٰ) اُس (نبی) کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب وہ تشریف لایا اُن کے پاس تو اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر (ترجمہ سورئہ بقرہ آیت 89) اللہ کے رسولوں کا ذکر باعث تقویت قلوب ہوتا ہے۔ پھر ہمیں ذکر ولادت حبیبِ خدا کرنے میں کونسی چیز مانع ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(4) اے حبیب اور یہ سب کچھ جو ہم تمہیں رسولوں کے حالات بیان کرتے ہیں، یہ اس لئے ہیں کہ تمہارا دِل مضبوط کریں (ترجمہ سورہ ہود!، آیت 120) قرآن حکیم پارہ7 سورہ مائدہ آیت نمبر114 میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے اللہ سے دعا کی:۔
(5)”اے ہمارے رب ہمارے لئے آسمان سے خوانِ نعمت اُتار کہ جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے ،تُو بہترین رازق ہے“۔
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جب خوانِ نعمت اُترے تو وہ دن عید قرار پائے اور جب جانِ نعمت تشریف لائیں تو وہ دِن کسی عید سے کم کیوں ہو، بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ آقائے دو جہاں کا ظہورِ قدسی ایسی خوشی ہے کہ لفظ عید اس کے لئے بہت ہی کم ہے ،کیونکہ عید ایسی خوشی کو کہتے ہیں کہ جو لوٹ کر آتی ہے، لیکن آقائے دو جہاں کی ولادت ایسی خوشی ہے جو کبھی گئی ہی نہیں اوراللہ کے فضل و کرم ،ہدایت و نصیحت اور بے پایاں رحمتوں کی صورت میں ہر دم ہمارے شامل حال ہے۔
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے یوم ولادت پر خوشیاں منانے کے بارے میں حکمِ الٰہی ملاحظہ کیجئے:۔
قُل± بِفَض±لِ اللّٰہِ وَ بِرَح±مَتِہ فَبِذٰلِکَ فَل±یَف±رَحُو±ا ھُوَ خَی±رµ مِّمَّا یَج±مَعُو±نَ (سورہ یونس، آیت نمبر 58)
ترجمہ:۔ ”اللہ کے فضل و رحمت پر ہی خوشی منایا کرو، کیونکہ یہ ہر اُس شے سے بہتر ہے جو تُم جمع کرتے ہو“۔
اُس منبعِ رشد و ہدایت حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی ذات گرامی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے جواحسانِ عظیم فرمایا ہے اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے۔ اس نے ان جلیل القدر پیغمبر کو جو اوصافِ حمیدہ اور معجزات عطاءفرما کر اپنی قدرت کاملہ کی جو ضوفشانی فرمائی ہے، وہ تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے کہ اسے یاد کرکے اللہ کا شُکر ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو مبعوث فرما کر احسان جتایا اور احسان اسی لئے جتایا جاتا ہے کہ اسے یاد رکھا جائے ،اس لئے آپ کے یومِ ولادت پر جتنی بھی خوشی منائی جائے کم ہے۔ ایک ایسی بزرگ و برتر اور اعلیٰ و ارفع ہستی کی ولادت پرجن کے طفیل کائنات معرضِ وجود میں آئی، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں کو نُورِ ایمانی سے منور فرمایا، جن کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، جن کو خُلقِ عظیم عطا فرمایا، جنہوں نے اُمّت کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کیں، جنہوں نے پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں، جنہوں نے غاروں میں رو رو کر اور نوکیلے پتھروں پر اپنی پیشانی مبارک رگڑ رگڑ کر اللہ سے اپنی امت کی بخشش کے لئے دعائیں کیں اور جن کی بدولت ہم آج مسلمان ہیں ،کیا اُن کا ہم پر اِتنا بھی حق نہیں ہے کہ ہم ا ن کی ولادتِ باسعادت پر خوشی کا اظہار کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ورحمت پر خوشی کا اظہار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اظہارِ تشکر کے لئے ذکرِ الٰہی اور درود و سلام کی محافل منعقد کریں، اپنے گھروں، بازاروں اور مساجد کو آراستہ کریں۔ ہم تو بفضِلہ تعالیٰ مسلمان ہیں، جبکہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے پر تو کافر کو بھی فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ ابو لہب اگرچہ کافر تھا ،لیکن اُس نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا (جنہوں نے حضور کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا)....(جاری ہے)

مزید :

کالم -