یوسف رضا گیلانی کا میڈیا سے شکوہ؟
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں بہت مصروفیت رہی، پارٹی کے حوالے سے کئی میٹنگوں کے علاوہ عہدیداروں اور سینئر اراکین سے بھی بات چیت ہوئی جبکہ پیپلزپارٹی پنجاب کی مرکزی مجلس عاملہ اور جنرل کونسل کے سینئر ارکان کے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی۔ بلاول بھٹو نے اس کے علاوہ ذاتی صوابدید پر سابق گورنر مقتول سلمان تاثیر کے گھر اور بعد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر بھی ملاقات کی، بلاول بھٹو کے حوالے سے جو اطلاعات خبروں کی صورت میں سامنے آئیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے بانی اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو والے پروگرام کو آگے بڑھانے کے خواہش مند ہیں اور ان کے اندر طویل جدوجہد کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔اس سلسلے میں مختلف راہنماؤں سے ان کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات بھی شائع ہو چکے بلاول بھٹو کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اگر سابق وزرا اور پارٹی کے عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ لینے کو کوئی تیار نہیں تھا تو انہوں نے خود اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو میدان میں کیوں نہیں اُتارا، بلاول بھٹو نے یہ عذر تسیلم نہیں کیا اور کئی راہنماؤں کو شرمندگی اٹھانا پڑی جبکہ کارکردگی کے حوالے سے عذر لنگ پر مشتمل رپورٹ بھی مسترد کر دی گئی۔
بلاول بھٹو کئی پروگراموں کے التوا کے بعد چار روز تک لاہور میں رکے اور مصروف وقت گزارا، بہت سے سینئر اور پرانے جیالوں سے بھی بات چیت کی اور ان کے خیالات سنے تاہم صوبائی اور مقامی قیادت نے کارکنوں کا اجلاس نہیں بلایا کہ پرانے جیالے یہ شکوہ کرتے پائے گئے ہیں۔ یہ ان کی جماعت کا اپنا مسئلہ ہے ہمیں تو مخدوم یوسف رضا گیلانی کی ایک گفتگو نے چونکا دیا وہ کہتے ہیں کہپیپلزپارٹی اور لیڈر شپ کا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور میڈیا پارٹی مخالف ہے۔ دکھ ہوا کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے یہ کہا وہ خود وزیراعظم رہے، اور اس دوران وہ با اختیار تھے ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ اس عرصہ میں انہوں نے میڈیا کے ساتھ پارٹی امور پر کتنی بار مشاورت کی اور مقبولیت یا عدم مقبولیت کے بارے میں رائے دریافت کی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے طویل سیاسی سفر کیا وہ ضلع کونسل سے قومی اسمبلی کی سپیکرشپ اور وہاں سے وزیر اعظم کے عہدہ جلیلہ تک پہنچے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس دوران ان کی سیاسی زندگی کا وہ کون سا حصہ تھا جب ان کے میڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے تھے۔ یقیناً وہ یہی بتائیں گے کہ جب وہ ضلع کونسل اور پھر پیپلزپارٹی کی جدوجہد والے دنوں میں میدان سیاست میں تھے تو ان کو میڈیا کی طرف سے پذیرائی ملتی رہی۔
سابق وزیر اعظم کو میڈیا کا شکوہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہئے کہ جب وہ وزیر اعظم بنے تو برے وقت کے ساتھی صحافی حضرات سے ان کا سلوک کیا تھا اور کیا انہوں نے اس دور میں غور کیا کہ جو حضرات برے وقت میں پارٹی کی کوریج کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ اس کے علاوہ محترم سے ہی یہ پوچھا جائے گا کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے با اختیار تھے تو ان کے میڈیا مینجر کون تھے؟ اور کہاں سے آئے تھے۔ کیا وہ خود صحافیوں سے واقف نہیں تھے وہ اپنے میڈیا مینجر حضرات سے یہ کیوں نہیں دریافت کرتے تھے کہ وہ صحافی جو برے وقت میں کوریج کرتے اور صاف گو ہیں، کہاں گئے ؟ در اصل ان کو بھی سرکاری مشینری پر ہی اعتماد تھا اور وہ اپنی ذاتی کوریج سے خوش ہو جاتے تھے جو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہوتی ہی تھی۔ اب بھی ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انہوں نے کوئی سبق سیکھا؟ اگر ایسا ہے تو انہوں نے چیئرمن کو کیوں نہیں بتایا۔
اس سلسلے میں ہم ایک بار پھر بے نظیر بھٹو اس سے بھی پہلے ذولفقار علی بھٹو کی مثال دیتے ہیں کہ دونوں باپ بیٹی صحافیوں سے ذاتی طور پر واقف تھے اورمختلف تقاریب میں ان کو قریب بلا لیا کرتے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک واقعہ تو ہم بتا دیتے ہیں 1997ء میں انتخابی مہم جاری تھی۔ محترمہ ایک ہیلی کاپٹر میں شہر شہر جلسوں سے خطاب کرتی تھیں، منور انجم میڈیا کوآرڈی نیٹر تھے، لاہور سے جو پانچ چھ صحافی کوریج کے لئے چنے گئے ان میں ہم بھی تھے کہ پیپلز پارٹی کی بیٹ ہمارے پاس تھی۔صحافتی پیشہ ورانہ زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو سے محترمہ بے نظیر بھٹو تک پیپلز پارٹی کی تقاریب اور سرگرمیوں کے حوالے سے ہم بیٹ رپورٹر تھے تاہم یہ ہماری پرانی عادت ہے کہ ہم نے کبھی خود کو اُچھل اُچھل کر نمایاں نہیں کیا۔ اس انتخابی مہم کے دوران نگران حکومت نے پارٹی سربراہوں کو پاکستان ٹیلیویزن سے خطاب کا وقت بھی دیا تھا یہ رمضان المبارک کے دن تھے۔ بوریوالہ میں جلسے کے بعد مقامی رہنما کی رہائش پر افطار اور آرام کا انتظام تھا۔ ہمیں جس گھر میں ٹھہرایا گیا ہماری افطاری بھی وہاں ہونا تھی لیکن تھوڑی دیر قبل منورانجم پیغام لے کر آئے کہ محترمہ کے ساتھ آنے والے صحافی افطار ان کے ساتھ کریں گے کہ ا س روز مسلم لیگ (ن) کے سربراہ محمد نواز شریف کا خطاب تھا محترمہ کی خواہش تھی کہ سب مل کر سن لیں تاکہ رد عمل بھی دیا جا سکے۔ چنانچہ محترمہ کے ساتھ ایک نشست ہوگئی، وہاں گفتگو بے تکلفی سے ہونے لگی، اس دوران بھی میڈیا کی بات آئی تو ہم نے گزارش کی کہ صحافی پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ان کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے لیکن رپورٹنگ میں ڈنڈی نہیں ماری جا سکتی۔
ہمارا موقف تھا کہ یہ خود پارٹی کا کام ہے کہ وہ صحافیوں کو کوریج کی سہولت بہم پہنچائے لیکن پیپلز پارٹی ناکام ہے حتیٰ کہ پنجاب کا دفتر بھی مکمل طور پر کام نہیں کرتا، ٹیلیفون تو ایک طرف بجلی بھی کٹ جاتی ہے ،محترمہ نے جوابی سوال کردیا کہ کیا کریں ہم کوئی چندہ تو لیتے نہیں ہیں عرض کیا کہ مرکزی جماعت فنڈ مہیا کردے اس پر انہوں نے کہا مرکز کے بھی تو اخراجات ہیں، بہرحال بات پارٹی میڈیا تعلقات پر چل نکلی تو ہماری یہی گزارش تھی کہ اس کے لئے پارٹی کی بہتر میڈیا مینجمنٹ کی ضرورت ہے،پھر ہم نے سوال کرلیا اور پوچھا کہ محترمہ ہم تو بیٹ رپورٹر ہیں،آپ جانتی ہیں؟جواب ملا بالکل آپ مشکل وقت میں بھی رپورٹنگ کے لئے آتے ہیں،ہم نے کہا محترمہ آپ کو ہمارا نام معلوم ہے تو بتا دیں، محترمہ کے پاس جواب نہیں تھا، انہوں نے معذرت کی اور نام پوچھا جو ہم نے بتا دیا۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی کی توجہ کے لئے عرض ہے کہ اس انتخابی مہم کے بعد جب محترمہ دوسری مرتبہ لاہور آئیں تو ائیر پورٹ پر ہم بھی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے، محترمہ رن وے سے وی۔آئی۔پی گیٹ سے داخل ہونے لگیں تو نظر گھما کر دیکھا ہم ذرا پیچھے تھے،محترمہ نے وہاں سے ہاتھ ہلا کر آواز دی۔ چودھری خادم حسین صاحب آپ کیسے ہیں ؟ہماری گزارش یہ ہے کہ اپنی قائد کے عمل کی طرف ہی دیکھ لیں۔بلاول بھٹو نے کچھ پیش رفت کی ہے۔ منور انجم کو بلایا، ان کے ساتھ ایک گھنٹے تک میڈیا اور پارٹی تشہیر کے حوالے سے گفتگو کی۔ یہ ملاقات ون آن ون تھی۔