پولی گرافک ٹیسٹ کو 2003 میں جان آگسٹس لارسن نے ایجاد کیا

پولی گرافک ٹیسٹ کو 2003 میں جان آگسٹس لارسن نے ایجاد کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لا ہور (ر پو رٹ ،شعیب بھٹی ) پولی گرافک ٹیسٹ کو 2003 میں جان آگسٹس لارسن نے ایجاد کیا جو برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ایک میڈیکل کے طالب علم تھا جبکہ ٹیسٹ کا بینادی ڈھانچہ کیلی فورنیا میں برکلے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پولیس افسر کی طرف سے 1921 میں پیش کیا گیا تھا 2002 میں، سائنس کے قومی اکیڈمیز کی طرف سے اس ڈھانچہ کا جائزہ لیا گیا اور اس پر تحقیقات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔بعد ازاں اس کو استعمال کرنے کے لیے مشین کی ایجاد 2003میں کی گئی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پولی گرافک ٹیسٹ حساس عوامی یا نجی شعبے میں روزگار کے لئے مجرمانہ مشتبہ افراد یا امیدواروں کے ساتھ ایک تفتیش آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. امریکی قانون نافذ کرنے والے اور اس طرح لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ اس کا استعمال امتحانات میں بھی کر رہے ہیں دوسری جانب امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے خفیہ ادارے جیسے ایف بی آئی اور سی آئی اے اور پولیس کے دیگر محکمے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ اور نئے ملازمین کی معلومات کو جانچنے کے لیے اسے استعمال کر رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد یہ تصور ابھرا کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگرسائنسی طریقے جیسے پولی گرافک ٹیسٹ اور نفسیاتی طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں جو خاصی حد تک کامیاب ہیں پاکستان میں جہاں پوراریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہے پولیس کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور پنجاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تفتیش کیلئے سائنسی بنیادوں پر تربیت دینے کی بجائے روایتی طریقوں سے تشدد اور بد تمیزی کا سبق دیا جاتاہے یہاں پولی گرافک ٹیسٹ کا استعمال صرف چیدہ چیدہ مقدمات کی تفتیش میں کیا جا رہا ہے ۔صو با ئی دا ر الحکومت میں گزشتہ سال عبیر ہ قتل کیس میں بھی ملزما ن کے پو لی گرا فک ٹیسٹ کرائے گئے جبکہ گر ین ٹاؤن کے علاقہ حجا م نے 6سا لہ بچے کو بد اخلا قی کے بعد قتل کیا تھا مذ کو ر ہ ملزم شعیب کا بھی پو لی گرا فک ٹیسٹ کروا یا گیا تھا جس میں اسنے اعترا ف جرا م کیا ۔ گزشتہ ہفتے سڑک کنارے ملنے والے سانگلہ ہل کے رہائشی علی عادل کے لوہے کی تار سے ہونٹ سی دیے گئے تھے معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی، اور انکوائری شروع کر دی گئی۔تاہم میڈیکل بورڈ نے انکشاف کیا کہ ملزم نے خود اپنے ہونٹ سیے ہیں جس کے بعد پولیس نے میو ہسپتال میں زیر علاج ملزم کی نگرانی شروع کر دی پولیس نے چند روز پہلے فرانزک لیب سے اسے پولی گرافک ٹیسٹ کرائے اور اسے گھر جانے کی اجازت دے دی پولی گرافک رپوٹ کے مطابق علی عادل کے ہونٹ خود ساختہ سیئے گئے ہیں ۔
پولی گرافک

مزید :

صفحہ آخر -