استنبول دھماکہ، داعش ترکی کو پالیسی بدلنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے
تجزیہ: آفتاب احمد خان
داعش کی طرف سے استنبول میں دھماکے کا مقصد ترکی کو اس تنظیم سے متعلق پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرنا تھا مگر حکومت نے اس کے برعکس ردعمل دیا ہے اور تنظیم کے نیٹ ورک کا پتہ چلانے کیلئے ملک بھر میں چھاپے مارے گئے ہیں۔ دھماکے کے سلسلے میں ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے مگر اصل منصوبہ سازوں تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ حکام نے اس اٹھائیس سالہ شخص کا تعلق شام سے بتایا ہے۔
شہر استنبول کے تاریخی مقامات والے سیاحتی علاقے میں ہونے والے خود کش دھماکے میں دس جانیں ضائع ہوئیں، اس واقعہ کے بارے میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں کیونکہ حکومت سیاحت کی اہم صنعت کو نقصان پہنچنے سے بچانا بہت ضروری سمجھتی ہے۔ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے بیشتر جرمن سیاح تھے۔ بدھ کے روز انتالیہ میں گرفتار کئے گئے تین روسی باشندوں پر الزام ہے کہ وہ داعش کو لاجسٹک سے متعلق سہولتیں مہیا کرتے تھے۔ صوبہ ازمیر سے بھی چھ مشتبہ عسکریت پسند گرفتار کئے گئے ہیں اور اس طرح کی کارروائیاں اگلے چند روز جاری رہنے کی توقع ہے جبکہ حکومت استنبول دھماکے کے بعد سے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرنا چاہے گی۔
داعش نے اپنی سرگرمیاں ابتدائی طور پر عراق اور شام میں شروع کی تھیں اور وہاں بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا مگر اب وہاں اسے شکست ہو رہی ہے اور متعدد اہم علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ بیرون ملک اپنی کارروائیاں بڑھائے گی اور ترکی کے کسی اور مقام کو دہشت گردی سے بچانے کیلئے حکومت پوری طرح چوکس ہے۔ ترکی کے پیش نظر اس وقت دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے اپنے تاریخی اور تفریحی مقامات کو محفوظ بنانا بھی ہے۔ ہر سال ترکی کو سیاحت سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ اس کی مجموعی قومی پیداوار کا 12 فیصد ہے اس لیے حکومت کے نزدیک اس شعبے کی بہت اہمیت ہے اور وہ اسے نقصان پہنچانے سے متعلق داعش کے عزائم ناکام بنانا چاہتی ہے۔
ستنبول دھماکہ