’چودھری صاب جان دیو‘

’چودھری صاب جان دیو‘
 ’چودھری صاب جان دیو‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چودھری سرور پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک منفرد مثال ہیں، وہ انگلستان سے براہ راست پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے عہدے پر سکائی لیب کے ذریعے اتارے گئے اور جب انہوں نے گورنری چھوڑی تو ملک کی گرم دمِ گفتگو ہی نہیں گرم دمِ جستجو جماعت کی پنجاب جیسے اہم صوبے میں قیادت سنبھال لی۔ گورنری کے عہدے پر ان کا قیام یکم اگست 2013 سے 29 جنوری 2015 تک، کم و بیش ڈیڑھ برس رہا اور تحریک انصاف میں انہیں ابھی ایک برس بھی مکمل نہیں ہوا۔ چودھری صاحب کے پارٹی سے اختلافات اور علیحدگی کی خبریں اس وقت آ رہی ہیں جب ان آٹو بائیو گرافی ’’ مائی ریمارک ایبل جرنی‘‘ کی تقاریب رونمائی ان کے پرانے وطن انگلینڈ میں منعقد ہو رہی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کتاب کو لائم لائیٹ میں لانے کے لئے ایسی خبریں دی جا رہی ہوں اور بہت جلد باقاعدہ تردید جاری ہوجائے۔ اگر ان کے حالیہ سیاسی سفر میں ٹھہراو کی مدت کا حسابی اندازہ لگایاجائے تواب کسی بھی نئی جگہ پر ان کا قیام چھ ماہ ہی ہو سکتا ہے۔فی الوقت چودھری سرور کے دوستوں کے مطابق یہ خبریں بے بنیاد ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی، یہ افواہیں شاہ محمود قریشی اور ان کا گروپ پھیلا رہا ہے کیونکہ وہ پارٹی میں پنجاب کی صدارت کے اہم ترین امیدوار ہیں۔ وہ خبروں کی تردید اس وجہ سے نہیں کر رہے کہ ان کے خیال میں یہ کام پارٹی کو کرنا چاہئے، انہیں نہیں۔ چودھری صاحب واقعی پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا نہیں؟ آپ اس کی تصدیق اور تردید دونوں ہی نہیں کرسکتے۔ جب انہوں نے گورنری چھوڑی تو ان کے تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے ساتھ معاملات پوری طرح طے ہوچکے تھے۔ ایک سینئر صحافی نے اپنے ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ چودھری سرور ابھی دو سے تین ماہ معاملات کو دیکھیں گے اور اس کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں گے مگر چودھری صاحب نے اس دعوے کے 72 گھنٹوں کے اندر ہی تحریک انصاف جوائن کر لی۔ وہ سینئیر صحافی اپنے اگلے پروگرام میں شرمندہ، شرمندہ نظر آئے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اپنی اہلیہ کی موجودگی میں چودھری صاحب سے ایک تقریب میں ملے ، یہ بات ان کے استفسار پر چودھری سرورنے ذاتی طور پربتائی تھی۔


ساری لمبی چوڑی اور ادھر ادھر کی باتوں سے پہلے ایک بات، چودھری سرور کو تحریک انصاف نہیں چھوڑی چاہئے ۔ ان کی اپنی شخصیت اتنی کرشماتی نہیں کہ وہ کوئی سیاسی جماعت بنائیں اور لوگوں کی توجہ اور اعتماد حاصل کر لیں ۔ دوسری طرف اگر وہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے پرتول رہے ہیں تو ان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے سیاسی قیادتوں کے لئے ان پر اعتماد کرنا مشکل ہوگا۔ انہیں عمران خان کے ساتھ وہی سلوک نہیں کرنا چاہئے جو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا تھا۔ نواز شریف نے اپنی پارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں گورنر جیسے عہدے پر براہ راست لا بٹھایا تھا اور عمران خان نے بھی انہیں اعجاز چودھری اور شاہ محمود قریشی جیسے سینکڑوں ساتھیوں پر اہمیت دی ۔ انہیں اس تلخ زمینی حقیقت کا خیال رکھنا چاہئے کہ بڑی پارٹیوں میں مکمل اختیار صرف پارٹی سربراہ کو ہی حاصل ہوتا ہے، باقی رہنماوں اور عہدے داروں کو پاور شئیرنگ کرنا پڑتی ہے۔مجھے چودھری سرور کی قریباً ایک برس پہلے ا نتیس جنوری کوہونے والی پریس کانفرنس یاد آ رہی ہے۔ وہ سیاسی کارکنوں اور غریبوں کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔ میں نے تیس جنوری کے ’شہریاراں‘ میں لکھا اور لاہور کے ایک ہوٹل میں ان کے ساتھ استعفے کے بعد ہونے والی ملاقات میں بھی کہا کہ اگر آپ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرپائے تو اپوزیشن کی بہت ساری جماعتوں میں سے ایک کے صوبائی رہنما بن کے کیا تیر چلا لیں گے۔ اگر آپ گورنری کے اختیارات اور کاموں سے مطمئن نہیں تو ضروری ہے کہ آپ کے پاس وزارت عظمیٰ یا کم از کم صوبے کی وزارت اعلیٰ تو ضرور ہو۔میں نے لکھا تھا، ’آئین کہتا ہے گورنر کا دفتر محض ایک ڈاک خانہ اور گورنر کی ذات ایک ربڑ سٹمپ ہوتی ہے اور جیسے ہی گورنر کے عہدے پر موجود شخص سننے، دیکھنے اور بولنے لگتا ہے، اس کے کردار کو غیر آئینی کہنے والے متحرک ہونے لگتے ہیں۔ا گر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو انہیں ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ یہ ان کی ذمہ داری او ران کامینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ اب قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ تحریک انصاف جوائن کرنے والے ہیں، مجھے علم نہیں کہ وہ حکومت کی بجائے اپوزیشن کی جماعت جوائن کر کے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے کیا طریق کار اختیار کریں گے‘۔ چودھری سرور نے اس تقریب میں ہنستے ہوئے شرکاء سے پوچھا تھا، ’ کیہ میرے کولوں غلطی ہو گئی اے‘؟


میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ چودھری صاحب کوئی انقلابی آدمی نہیں ہیں۔ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کسی بھی اچھے آدمی کی طرح ٹور شور اور ٹیکے شیکے کے زیادہ شوقین ہیں۔ جب وہ پاکستان تشریف لائے تھے تو میں نے ان سے پوچھاتھا کہ وہ لاہور کی سب سے اہم سڑک پر ایکڑوں پر مشتمل گورنر ہاوس کو چھوڑتے ہوئے اسی طرح چھوٹا سا دفتر بنائیں گے جیسے تمام مہذب ، جمہوری ممالک میں منتخب عہدے داروں کے ہوتے ہیں تو چودھری صاحب ایسی کسی یقین دہانی سے کنی کترا گئے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سارے دوسرے سیاستدانوں کی طرح چودھری صاحب بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں ، مجھے اس بارے یقین اس وقت بھی ہوا جب مختلف مواقع پر ملاقات کے دوران انہوں نے میرے آس پاس لوگوں سے ہاتھ بھی ملایا ،حال چال بھی پوچھا اور میری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کیا، یہی رویہ میرے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ میاں نواز شریف بھی اختیار کر چکے ہیں،مجھے ایسی صورت حال لطف دیتی ہے جب میں اچانک ہی دوسروں سے بہت مختلف ہوجاتا ہوں مگر میں کوشش کے باوجود بھی محض ان مہربانوں کی مہربانی حاصل کرنے کے لئے ان کے منہ پر میٹھی میٹھی باتیں نہیں کرسکتا۔ چودھری سرور کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پاکستان میں سیاست کا کھیل کوئی آسان نہیں۔ہر کوئی نواز شریف، عمران خان اور آصف علی زرداری جیسا خوش قسمت نہیں ہوتا۔ وہ واقعی خوش قسمت ہیں کہ جن عہدوں پر وہ براہ راست براجمان ہوئے، ان تک پہنچنے کے لئے ہمارے مقامی سیاستدانوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ انہیں ادراک ہو گیا ہوگا کہ ایک برس پہلے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستانی سیاق و سباق میں درست بات نہیں کہی تھی کہ’اگر آپ پارٹی کے اندر پارٹی کی کمزوریاں بتائیں گے تو آپ اس پارٹی کی خدمت کریں گے‘ ہمارے ہاں تو پارٹیوں کی قیادتیں مالش کو ہی اصل خدمت سمجھتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ چودھری صاحب کے تحفظات اور شکایات بالکل درست ہوں مگر یہاں روایتی ،مشہور ترین محاورہ یاد آ رہا ہے ، ’ نانی نے خصم کیتا بھیڑا کیتا، کر کے چھڈ دتا ہوربھیڑا کیتا‘۔ اس کے باوجود اگر چودھری سرور تحریک انصاف کو بوجوہ چھوڑنا ہی چاہتے ہیں ، وہ ایک مرتبہ پھر اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پارٹی چئیرمین کی طر ف سے خصوصی اہمیت اور عہدہ ملنے کے باوجود شاہ محمود قریشی اور ان جیسے بہت سارے دیگر طاقت وروں اور پیشہ وروں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو پھرانہیں اپنی اس ناکامی کوبھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جب انہوں نے پنجاب میں پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی تو ا س وقت تحریک انصاف اپنی مقبولیت، جوش اور جذبے میں آج سے کہیں آگے تھی۔ مسلم لیگ نون کو گردن سے پکڑتے ہوئے لاہور میں بھرپور مقابلہ کرنے اور لودھراں میں نیچے گرانے کے کریڈٹ بالترتیب عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کوجاتے ہیں، آپ کو نہیں۔آپ کے ڈس کریڈٹ پر لاہوراور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج ہیں۔


عین ممکن ہے کہ یہ تمام خبریں بے بنیاد ہوں اور آپ اپنے دوستوں کے سامنے ہنستے ہوئے انشاء کا شعر پڑھ رہے ہوں،
’ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں،


تم انشاء جی کا نام نہ لو کیا انشاء جی سودائی ہیں‘


لیکن اگرتادم تحریر یہ اختلافات اور راستے جدا کرنے بارے افواہیں درست ہیں جیسا کہ اکثر تردید ہونے والی خبریں درست ہی ثابت ہوجاتی ہیں توآپ کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ چودھری صاب جان دیو!

مزید :

کالم -