اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان (1)

اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان (1)
 اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان (1)

  

آج ہمارے ملک پاکستان کی صورت حال بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں انصاف، انسانی حقوق، باہمی عزت اور انسانی رشتوں کے احترام کا فقدان ہے۔ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ یا اس سے بھی بدتر جنگل کا قانون نافذ ہے۔ غریب کی کٹیا میں بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہو پا رہیں، جبکہ ملک کا اشر افیہ اور حکمران طبقہ دن بدن امیر سے امیر ہوتا جارہا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا نظام قائم ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات سائیکل/موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں، منتخب ہوتے ہیں تو جلد ہی ان کے پاس کروڑ روپے کی گاڑی، گن مین، بے تحاشادولت اور اثاثہ جات آجاتے ہیں۔ یہ سب کہاں سے آجاتے ہیں ،جبکہ عوام کو دینے کے لئے اس ملک کے حکمرانوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ مزدور کی تنخواہ سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ ہے، جبکہ گھر کے اخراجات بچوں کی فیسوں، علاج معالجے اور ناگہانی ضروریات کے ساتھ اوسط اخراجات فی گھر تیس ہزار سے کم نہیں۔ تو یہ فرق۔۔۔ ہمارے ایم این اے حضرات اور پارلیمنٹ کے معزز ارکان شاید محسوس نہ کریں، عوام کو معلوم ہے اور وہ تو اس تکلیف دہ صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔

شامتِ اعمال: ہمارے ملک کے عوام میں گزشتہ 70برس کے ظلم اور نا انصافی کے علاوہ لوٹ کھسوٹ، دھونس، دھاندلی سے انگریزوں کے دور سے چلے آنے والے مراعات یافتہ طبقے اور سینکڑوں نو دولتئے ملک پر قابض خاندان نیز اس ملک کے تنخواہ دار مقتدر حضرات کے بے رحمانہ رویے کی وجہ سے اس نظام کے خلاف بغاوت کے آثار ہیں اور اس نظام نے انہیں 70سال میں کچھ نہیں دیا ،ان حالات میں آئندہ بھی ان کے لئے اُمید کی کوئی کرن نہیں، لہٰذا۔۔۔ نادیدہ طاقتیں اس جذبے کا استحصال (EXPLOIT)کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ یہ ملک ایک نظریئے اور اسلامی نظام یا شریعت کے نفاذ، فکر اقبال کے مطابق اسلامی انقلاب کے لئے حاصل کیا گیا تھا جس سے کفالت عامہ کے اسلامی تصورات کے مطابق عوام کو بے پناہ فوائد حاصل ہونے تھے جس کے لئے 1947ء میں بے شمار قربانیاں دی گئی تھیں، مگر اس ملک پر اشرافیہ نے اپنے خونیں پنجے سختی سے گاڑ رکھے ہیں اور عالمی استعمار ان کی سرپرستی کررہا ہے۔ہمارے ملک میں جاگیر داری ، سود، کرپشن، بے روزگاری، بے حیائی اور دین سے دوری ہی چند وجوہات ہیں جس سے ملک کے عوام اپنے حکمرانوں سے بیزار ہو کر سڑکوں پر آتے ہیں۔

ہمیں اصلاح احوال کے لئے بہت سارے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ہر آنے والا دن۔۔۔ بقول شخصے خونیں انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ جھجک دور ہو گئی کہ لمبی سی قیمتی گاڑی میں سوار آدمی کو گھیر لو، اس کو قتل کردو اور گاڑی چھین لو۔۔۔ تو ملک کا کوئی کونہ اس چھینا جھپٹی اور عوامی لوٹ کھسوٹ میں پیچھے نہیں رہے گا، گلی گلی یہی صورت حال نظر آئے گی۔ دین اور نظریئے کو چھوڑ کر حقیقتاً ہم پاکستان کو سیکولرازم کا لبادہ اوڑھا رہے ہیں،یوں پاکستان کو دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ کھڑا کردیا ہے ایسے ممالک میں بھی بالآخر انقلاب آتے ہیں، چاہے فرانس ہو، روس ہو، چین ہو۔۔۔ایسے حکمران اور اشرافیہ سڑکوں پر لاکر قتل کر دیئے جاتے ہیں اور ملک میں افراتفری اور خانہ جنگی کی کیفیت پھیل جاتی ہے۔ تاہم اشرافیہ کے کان بالعموم ان آوازوں کو سن نہیں سکتے۔ چاہے یہ توشتہء دیوار ہی کیوں نہ ہو۔آج ضرورت ہے ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ ہم ایک صدی قبل کہاں تھے۔ 1947ء میں کہاں اور کیسے تھے اور اب 2017ء میں کہاں کھڑے ہیں ہمار رخ کدھر کا ہے اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟آئیے سنجیدگی سے اس معاملے پر تھوڑی دیر غور کرتے ہیں۔

سیکولر ریاستیں اور نظریاتی ریاستیں:آج کی دنیا میں 200سے زیادہ ممالک ہیں، جن ممالک میں کوئی باقاعدہ نظم و نسق ہے۔ وہ’’ریاست‘‘ کہلاتے ہیں۔ ریاست کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ دنیا گزشتہ چند صدیوں سے عصر حاضر تک عملاً ’’لادینیت ‘‘ یعنی یونان کے ارسطو کے ملحدانہ اور حیوانی نظریات کا دور دورہ ہے اور اکثر ممالک آج لادینیت یعنی سیکولر ازم کے داعی ہیں۔ دوسری طرف ریاست کی ایک اور صورت یا قسم نظریاتی (IDEALOGICAL)ریاست کی ہے۔بعض ریاستیں اس لحاظ سے واضح اعلان نہیں کرتیں، تاہم مغرب کی سیکولر تہذیب کی بالادستی اور میڈیا کے ذریعے پھیلاؤ کی وجہ سے عملاً (FOR ALL PRACTICAL PURPOSES)وہ بھی لادین ریاست کی تعریف میں ہی آتی ہیں۔بعض ریاستیں لادینیت (SECULARISM)کے دعوے کے ساتھ کٹر مذہبی ہیں، جیسے بھارت اور بعض ریاستیں عیسائیت کا نام لے کر بھی سیکولر ہیں ۔

دو نظریاتی ریاستیں:گزشتہ صدی کے عین وسط میں، جبکہ مغربی تہذیب جوبن پر تھی دنیا میں دو ریاستیں ایسی وجود میں آئیں کہ وہ اس وقت سے لے کر آج تک نظریاتی ریاستیں کہلاتی ہیں۔ ہماری مراد 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی ریاست ’’ملک خداداد‘‘ پاکستان ہے جس کا آئینی نام’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے اور دوسری نظریاتی ریاست 9مئی 1948ء کے دن فلسطین میں علاقے کے عوام کی مرضی کے خلاف بالا دست عالمی صہیونی مغربی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے انسانیت پر ٹھونسی جانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ ہے جو ایک یہودی ریاست ہے۔(جاری ہے)

حکومت اور ریاست :آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایک چیز جو انسان نے صدیوں کے تجربے کے بعد حاصل کر کے اپنا اثاثہ شمار کیا ہے وہ ریاست اور حکومت کے دو علیحدہ تصورات ہیں۔ آج سے چند صدیاں پہلے تک دنیا میں بادشاہت کا دور تھا ،ملک اور علاقے فتح ہوتے تھے، حکومت بنتی تھی، بادشاہت کا نظام تھا، بعض اوقات جبر وقہر کے ذریعے یہ نظام صدیوں پر محیط ہو جاتا تھا، جیسے یونانی اور رومی ریاستیں۔ وہاں حکومت یا بادشاہت وقت کے خلاف بولنا۔۔۔ ریاست پر تنقید اور بغاوت شمار ہوتا تھا یعنی حکومت کی مخالفت کرنا ’’غداری‘‘شمار ہوتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان ذہنی اور علمی پختگی کی طرف آیا ہے تو سیاست۔۔۔ POLITICAL SCIENCE۔۔۔کے شعبے میں یا جدید سوشل سائنسز کے لحاظ سے آج ریاست اور حکومت کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے۔ ریاست ایک (نسبتاً)پائیدار شئے ہے اور حکومت عارضی اور وقتی ہے بادشاہ یا حکمران فوت ہو جاتا ہے کوئی اور ’’بادشاہ‘‘ یا منتخب حکمران اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ حکومت بدل گئی مگر ریاست ، اس کے مقاصد، اہداف اور نظریہ برقراررہا۔ نئی حکومت کے لئے انہی باتوں کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانا اس نئے حکمران کا فرض منصبی شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں آج سرکاری عہدوں پر بالخصوص صدر یا وزیر اعظم سے حلف لیا جانا اسی ریاستی نظریہ کی حفاظت و نگہبانی کے ساتھ پھیلاؤ و اشاعت یا کم از کم استحکام کی مساعی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کے خلاف جلوس، مظاہرے، دھرنے دیئے جاسکتے ہیں۔ حکومت بدلی جاسکتی ہے، حکمرانوں پر ان کی کارکردگی کی وجہ سے سچے جھوٹے الزامات لگائے جاسکتے ہیں، ان کو بدنام کیا جاسکتا ہے، مگر ریاست اور اس کے نظریئے کے خلاف وہی کام ’’بغاوت‘‘ شمار ہوتا ہے۔آج سے چند صدیوں قبل یہ تصور دنیا میں رائج نہیں تھا۔ حکومت کے خلاف اُٹھنا یا حکمرانوں کے خلاف اقدام’’ ریاست‘‘ کے خلاف اقدام ،یعنی بغاوت تصور ہوتا تھا۔

ریاستی ادارے(ستون):’’ریاست‘‘ کے اس جدید تصور کو انسانیت کی مشترکہ قابل قدر متاع سمجھا گیا ہے ،یوں عصر حاضر میں اس ریاست کے استحکام ، اور دوام کے ساتھ پھیلاؤ کے پہلو سے بڑا علمی و عملی کام سامنے آیا ہے اور ریاستی امور پر غور و فکر کرنا علم کا پورا ایک شعبہ (DEPARTMENT)بن گیا ہے۔ اس شعبے علم کو STATECRAFTکا نام دیا گیا ہے۔ اس شعبے میں بہت ساکام ہوا ہے اور ابھی مزید بہت سارا کام باقی ہے۔ آج کی لادین ریاستوں۔۔۔ SECULAR STATES۔۔۔نے اپنے عوام کو ’’آزادی‘‘ کا کھوکھلا نعرہ دے کر بہلا رکھا ہے، مگر اس نعرے کے پردے میں بعض غیر مرئی مقتدر قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم رہتی ہیں۔اس ریاستی نظم و نسق اور ریاست کی کامیابی اور پائیداری کے لئے درج ذیل ریاستی اداروں کا ہونا ضروری ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے یہ ادارے ریاست کے ستون۔۔۔ PILLARS OF THE STATE۔۔۔کہلاتے ہیں۔

مزید :

کالم -