ہند کے مسلمان حکمران، عوام اور انگریزی راج

ہند کے مسلمان حکمران، عوام اور انگریزی راج
ہند کے مسلمان حکمران، عوام اور انگریزی راج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دراصل میری بینک کی ملازمت نے مجھے تمام دنیا کی سیر کروائی۔ 27 سال میَں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میَں نے دیکھ ڈالے۔ سیر کے دوران میرا محبوب مشغلہ اِن ممالک کے عجائب گھر اور آثارِ قدیمہ دیکھنا بھی ہوتا تھا۔

شام کے وقت اپنے رہائشی ہوٹل میں آکراُس ملک کی مختصر سی تاریخ کا مطالعہ بھی کرتا تھا۔ اس مشغلے سے مجھے مختلف اِنسانی معاشروں کو تھوڑا بہت سمجھنے کا موقع مِلا۔ تاریخ بینی ہمیشہ سے میرا Passion رہا ہے۔ میرے ہر مضمون میں آپ کو تاریخی حوالے ضرور ملیں گے۔


اپنی سیر بینی کے دوران دنیا کی تاریخ کے دو اہم واقعات میرے مشاہدے میں آئے۔ اِن دُور رس واقعات نے دنیا کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔ پہلا واقع تو ہے یورپ کی سامراجی یلغار جس نے تمام ایشیا اور افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یورپ کے 4 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ایشیا ئی ممالک کو فتح کیا۔ پہل کرنے والا ملک ہالینڈ اور اُس کے بعد ترتیب وار پرتگال، فرانس اور برطانیہ تھے۔ خوش قسمتی سے مجھے اِن چاروں ملکوں کی ایشیائی اور افریقی کالونیوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

انڈو چائنا(آج کا ویٹ نام ، کمبوڈیا اور لاؤس)فرانس کے زیرِ قبضہ رہے۔ انڈونیشیا ہالینڈ کا 150سا ل تک محکوم رہا۔ گوا اور گوام پرتگال کے مقبوضہ علاقے تھے جہاں اُنہوں نے 450 سال حکومت کی۔ برطانوی سامراج کے زیرِ اثر توآدھی دنیا تھی بشمول برِصغیر کے۔

اِن تمام سامراجی ممالک میں صرف برطانیہ نہائت ہی زیادہ Benevolent حکمران تھا۔ جس ملک میں بھی انگریز گیا وہاں اُس نے بہترین مواصلاتی نظام بنایا۔ جدید مدرسے اورہسپتال تعمیر کروائے۔ یونیورسٹیاں بنائیں۔

بہتر مالیاتی نظام دیا۔ زراعت اور صنعت کو ترقی دی۔ جدید فوجی سسٹم دیا۔ عوام کی تفریح کے لئے باغات ، عجائب گھر اور چڑیا گھر دیئے۔ غرض کہ صنعتی اِنقلاب کی تمام برکات سے اپنے محکوم عوام کو روشناس کروایا۔

انگریز کے آنے سے قبل، ہندوستان پر مسلمان Dynasties کی حکمرانی رہی۔ محمود غزنوی سے شروع ہو کر مغلوں کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک کا عرصہ850 برسوں پر محیط ہے۔ اس تمام عرصے میں مسلمان حکمران عوام کی بہبود کے لئے بڑے منصوبے نہ بنا سکے۔ صرف شیر شاہ سوری(فرید خان) کا5 سالہ دور تھاجس میں کثیر تعداد میں عوامی ترقی کے منصوبے تکمیل تک پہنچے۔

ہندوستان کی جرنیلی سڑک جسے ہم عرف عام میں G.T.Road کہتے ہیں پشاور سے کلکتہ تک شیر شاہ سوری نے بنوائی۔ یہ سڑک اُن پگڈنڈیوں پر بنائی گئی جو سینکڑوں سال سے اِنسانی قدموں سے ظہور پذیر ہوئی تھیں۔ شیر شاہ نے اِن پگڈنڈیوں کو چوڑا کیا راستے کو سیدھا کیااور اِن پر دریائی پتھر (Pebbles) بچھا کر پختہ کیا۔ ڈاک کا نظام گھوڑ سواروں کے ذریعے ترتیب دیا۔

مسافروں کے لئے محفوظ سرائے (Rest House) بنوائیں ،اَمن و اَمان کے لئے مرکزی پولیس بنائی۔ شیر شاہ سوری سے پہلے اور بعد کے حکمرانوں نے سمندری راستے بنانے کی کوشش ہی نہ کی۔ اس لئے مسلمانوں کے دورِ حکمرانی میں ہندوستان کے ساحلی علاقوں کا نہ ہی سروے کیا گیا اور نہ ہی نئے سمندری راستے تلاش کئے گئے۔

ہندوستان کے 3000 میل سے زیادہ لمبے ساحل کی حفاظت کے لئے کسی قسم کی نیوی کا اِنتظام نہ کیا گیا۔ حالانکہ عرب تاجروں نے یمن کے ساحلوں سے چین کے ساحلوں تک تجارتی راستے تلاش کر لئے تھے۔


مضبوط نیوی کے نہ ہونے سے یورپی ممالک نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ پہلے تو تجارتی مقاصد کے لئے قائم کیا اور پھر اُن کے اِرادے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لئے بن گئے۔

بالآخر برطانوی ایسٹ اِنڈیا کمپنی نے اپنے یورپی مخالفوں کو ہندوستان کے میر جعفروں اور میر صادقوں کی مددسے بھگا دیا اور نتیجتاً باقاعدہ برطانوی راج کی بنیاد 1858 ئمیں پڑ گئی۔

مسلمان حکمرانی کے 850 برسوں میں عوامی بہبود کے کام نہ ہو سکے۔ تمام یورپ اور امریکہ میں چھاپے خانے ، برقی قوت اور بھاپ کی طاقت کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔

لیکن ہمارے مغل بادشاہ ڈولیوں اور ٹفنوں میں بیٹھ کر نقل و حرکت کرتے تھے۔ انگریز نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے سب سے پہلے ترقی یافتہ مواصلاتی نظام کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں قائم کیا۔

پہلی مسافر ریل گاڑی 1853ء میں بمبئی سے تھانہ تک چلائی گئی اور صرف80 سالوں میں پورے ہندوستان کو کراچی، پشاور،کلکتہ،مدراس، بمبئی، پٹنہ، دہلی اور یو پی تک ریل گاڑی سے ملا دیا گیا۔

عوام کی تعلیم کے لئے جدید علوم سے لیس مدرسے، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ صحت کے لئے ڈاکٹری تعلیم کے لئے میڈیکل کالج قائم کئے۔ ہندوستان میں پہلا میڈیکل کالج 1835ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔

لاہور کا کنگ ایڈورڈ کالج برطانوی حکومت کے11 سال بعد 1868ء میں بطور میڈیکل سکول قائم ہوا، اسی طرح اِنجینئر نگ کے شعبے میں اِبتدائی طورپر ڈپلومہ کالج بنائے گئے کیونکہ ابھی ہندوستانی طلباء کا علمی معیار میڈیکل اور انجینئر نگ کی مکمل تعلیم کے لئے تیار نہ تھا۔

صرف 50 سالوں میں مدرسوں اور دھرم شالاؤں میں پڑھنے والے ہندوستانیوں کو جدید تعلیم اور ہنر سکھانے کے لئے انگریز نے بتدریج پالیسی اِختیار کی۔ اوّلاً میڈیکل سکول ہندوستانیوں کے لئے بنائے گئے جہاں سے وہ LSMF کا 3 سالہ ڈپلومہ لے کر ڈاکٹری کی پریکٹس کر سکتے تھے۔

اِس طرح رُڑکی، رسول پور اور بنگلور۔ کلکتہ میں سول اور مکینکل انجینئرنگ کے سکول ڈپلومہ ہولڈرز کے لئے بنائے گئے۔ انگریز نے اپنے برطانوی کارخانوں کو چلانے کے لئے صوبہ پنجاب کی زراعت کو ترقی دی۔

ہندوستانی کپاس، جوٹ، گنے اور کائی کی کاشت سے برطانوی کارخانوں میں کپاس سے فائن کپڑا بنتا تھا، گنے سے ولائتی چینی بنتی تھی، جوٹ سے جہازرانی کے لئے موٹے رسے اور بوریاں بنتی تھیں، کائی سے کاغذ اور گتہّ بنتا تھا۔

انگریز نے گو تمام ترقیاتی کام اپنے کارخانوں کو چالو رکھنے کے لئے اور اپنی معاشی ترقی کے لئے بنائے لیکن اُس کا بے انتہا فائدہ ہندوستانیوں ہی کو ہوا۔ ہند وستان کا پہلا سٹیل ملِ کلکتہ میں ٹاٹا اور برلاخاندان نے انگریز سے لی ہوئی ٹیکنالوجی سے بنایا۔

غرض کہ جب انگریزی راج برِصغیر سے ختم ہوا تو اس اہم خطے کو صرف 100 سال میں بلا لحاظ مذہب، ملت، ڈاکٹر، انجینئر سائنسدان، ماہرِ تعلیم ، جد ید ماہرِ تعمیرات، پرنٹنگ، مواصلات، منظم فوج اور ڈاک کا نظام، قانون اور ضابطہ کے شعبے میّسرہو چکے تھے یہ دوسری بات ہے کہ برِصغیر کے مسلمان انگریزی راج کے فیوض سے زیادہ مستفید نہ ہو سکے۔

اس میں قصور ہم مسلمانوں کا ہی تھا۔ ہم انگریز سے اور اور اُس کی زبان سے (جو جدید علوم کا ذریعہ بن چکی تھی) 50 سال تک رُوٹھے رہے جب کہ غیر مسلم باشندوں نے انگریز کی زبان اور تعلیم کو فوراً اپنا لیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی تعلیم سے بے بہرہ ہے۔


ہم پاکستانی دو اِنتہاؤں کے درمیان رہتے ہیں۔بہت زیادہ امیر، بہت زیادہ ذرائع پیداوار کے مالک، معاشرتی معاشی اور سماجی مراعات حاصل کرنے میں سب سے زیادہ آگے، اس لئے حکومت کرنے کے بھی حقدار یہ ہی لوگ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اِبتدائی تعلیم سے بھی محروم عوام جو 70 فیصد سے زیادہ ہیں صرف محکوم ہی رہ سکتے ہیں۔

جمہوریت کے لالی پاپ سے بہلا کر اِن 70فیصد پسِے ہوئے عوام کی جان و مال پر ہمارے ملک کی مراعات یافتہ اقلیت قابض ہے۔ انگریز نے برِصغیر میں تمام فلاح و بہوداور ترقیاتی کام اپنی غرض کے لئے کئے تھے لیکن اُس کے جانے کے بعد پاکستان کے قدرتی، مالی اور سیاسی وسائل پر مراعات یافتہ اقلیتی طبقہ ہی قابض رہا ۔عوام صرف زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور لگاتے ہی رہیں گے۔ پاکستان تہذیبی طور سے ایک چُوں چُوں کا مرّبہ بن گیا ہے۔

معاشرے میں Ascendancy حاصل کرنے کے لئے مادی طاقت اہم ہو چکی ہے۔ اِخلاقیات، باہمی رواداری اور عزت کے معیار ختم ہوتے جارہے ہیں۔ انگریز کا دیا ہوا قانونی نظام ہمارے 90فیصد عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ مذہبی شدّت جو برطانوی راج میں بہت خال خال تھی ، آج وہ عفریت بن کر پاکستانی ترقی میں حائل ہے۔

مزید :

رائے -کالم -