میرے اشرافیہ او رآمروں کی ایک تاریخ

کسی کے اقتدار کی بقا اور کسی کو عطا کی گئی خلعت کی نگہبانی ،ا ک ایسی غلامی بنی جس کے پاٹوں میں پستا پاکستان کبھی دو ٹکڑوں میں بٹا تو کبھی زخمی دل سے حکم ِ حاکم کی بجا آوری میں بدحال ایڑیاں رگڑتا رہا اور قسمت بنا یہی طوق اس کی عوام پہ قہر بن کے ٹوٹتا رہا لیکن کوئی سوال نہ اٹھا کہ کسی کے فیصلے بغیر عوامی تائید کے کیوں مانے – انجام کار یہ کہ اس کی سلطانی کو سندِ پذیرائی ملی اور عوام کو سنت ِ قربانی کہ جس کا اعادہ بار بار ہوتا ہے-کہیں بم پھٹے تو کہیں ڈرون اڑے اور ہماری تباہی کا اسلحہ ہماری سرحدوں سے ہوتا ہوا وہاں پہنچا کہ جہاں سے صرف دشنام طرازی اور موت کے پروانوں کے سوا کچھ نہیں آتا- ابھی وطنِ عزیز کی عمر ہی کیا تھی ،دو ماہ چھ دن جب ہمارے تعلقات سفارتی سطح پہ اس کے ساتھ قائم ہوئے جس نے آج تک ہمیں تختہء مشق بنا رکھا ہے –
جنگِ عظیم دوم کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا- ہم نے سیٹو اورسینٹو کی رکنیت حاصل کی اور امریکی پروں کے نیچے سایہء التفات ڈھونڈا- 1958ء کا سال آیا اور ساتھ ایک آمر کو بھی لایا کیونکہ سول حکومت اپنے دور ِاقتدار میں فقط دست و گریباں ہی رہی- جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی اور مردِ آہن جنرل ایوب خان کا تختِ شاہی بچھا – آمریت کا دور شروع ہوا – امریکی فیاضی شروع ہوئی ہماری بندر گاہوں پہ امریکی گیہوں، گھی ، مکھن اور خشک دودھ کے ڈبے اترے اور ایسے اترے کہ میٹھے زہر جن کا کوئی تریاق نہ تھا ہمارے رگ و پے کا حصہ بن گئے – ڈالروں پہ بچھی جاتی اشرافیہ اور آمر کے لئے ایک ایسی مدہوش قوم وجود میں آئی کہ جس نے لذت دہن میں ایسی آنکھیں موندیں کہ اسے بڈ بیر کے وہ اڈے بھی نظر نہ آئے- جن سے روسی جاسوسی کا کھیل کھیلا جاتا رہا اور ہم سوویت یونین کو کھٹکنے لگے- صدر ایوب نے جمہوریت کی وہ جڑیں کاٹیں کہ آزادی ءتحریر و تقریر اور عوامی بالا دستی کے اشجار مرجھا گئے –جنرل یحیی ٰ کو جنرل ایوب کی نیابت ملی -جنرل یحییٰ نے پاکستان دو لخت کرنے میں سود و زیاں کے چلتے اس ڈرامے میں اپنا آخری کردار نبھایا اور مشرقی پاکستان کی جمہوری جدو جہد کو ایک دوسرا گھناو¿نا رخ دے دیا گیا-
جمہوری وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا خاتمہ ایک اور آمر نے کیا جو آیا تو نوے دن کے لئے تھا لیکن جمہوریت کو پھانسی پہ لٹکانے کے بعد گیارہ سال وہ ایک اشرافیہ کو نوازتا رہا اور اپنے گملوں میں جمہوری لیڈر پروان چڑھاتا رہا – اوجڑی کیمپ کو جدید امریکی اسلحہ سے بھر دیا گیا – لیکن بہت جلداوجڑی کیمپ سے اڑے میزائیلوں نے کئی گھرانے اجاڑ دیے اور ساتھ جلا ایک اعتماد ، بھروسہ اور وہ حساب کتاب جو ہم نے پیش کرنا تھا سب خاکستر ہوگیا - ضیاء الحق کے دماغ میں پاکستان کے مستقبل کی جو اختراع تھی ،کیا انہوں نے اپنی عوام کے ساتھ اس کا تبادلہ خیال کیا تو جواب آئے گا کہ کیا قوم اس قابل ہے کہ وہ کچھ سمجھ سکے – ہاں اپنی پروردہ اشرافیہ کو وہ ضرور سمجھا گئے کہ ان کا مشن کیا ہے- جس نے اس مشن کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور شہید جنرل ضیاء الحق کے اسی مشن کی تکمیل میں اپنی تما م تر توانائیاں صرف کردیں- اس رستے میں جمہوریت کئی دفعہ تہہ تیغ ہوئی –
جنرل مشرف تشریف لائے اور جلا وطن دلوں کے وزیر اعظم ایک معاہدہ لکھ کے سعودی عرب کے شاہی مہمان ٹھہرے- امریکی صدر بل کلنٹن ایک جمہوریت پسند شخصیت تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو ملنے سے انکار کر دیا لیکن افغان جنگ کی پہلی ٹیلیفون کال نے جہاں ان کی فرمانبرداری کی توثیق کی وہیں ان کے عہدے کو بھی تسلیم کروا لیا- صدر مشرف نے اپنے اقتدار کے استحکام اور اس کی طوالت کے بدلے میں آقا کی خدمت میں سب پرانے ریکارڈ توڑ دیے – لوگ پکڑے گئے اور ڈالروں کے بدلے امریکہ کے حوالے کئے گئے – یوسف رمزی کے وکیل کی امریکی عدالت میں دی گئی ایک دلیل ہمارے قومی تشخص پہ ایک داغ اور ہمارے کردار پہ ایک دھبہ ہے – ڈالرز کس نے لئے ہم عوام کو کیا پتہ ہمارے حصے تو گولہ بارود ، بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس آئے – امریکہ کو کھلی فضائیں ملیں تو ہم پہ زندگی تنگ ہوگئی – آمر ، اس کے ساتھی اور ملکی اشرافیہ ایک دفعہ پھر محلوں اور قلعہ نما گھروں میں رہے اور ہمارے سر وں سے چھت ہر حملے میں بھک کر کے اڑ گئی – اسا مہ بن لادن ایبٹ آباد سے کیوں ملا – کیسے ملا – عوام کے حصے ایک ایبٹ آباد کمیشن آیا جس کی رپورٹ آج تک منظرِ عام پر نہ آئی مگر دھوکہ دہی کا الزام ضرورآیا – عام پاکستانی دیارِ غیر میں بدنام ہوا – ائر پورٹس پہ ان کی طرف انگلیاں اٹھیں اور ہزیمت کا شکار ہرے پاسپورٹ تھامے میرے اہلِ وطن ایک علیحدہ قطار میں لگے دور سے دیکھے جا سکتے تھے-
پھر یوں ہوا کہ جنرل مشرف کو لندن سعودی عرب سے واپس آئے ہمارے جمہوری حکمرانوں نے دوبئی بھیج دیا اور ایک مرتبہ پھر عنانِ حکومت سنبھالا – مال بنایا غیر ملکی اکاو¿نٹ بھرے – گھر ، محل اور جائیدادیں خریدیں – بچے ملک سے باہر اگلی مہمات کی تیاری کے لئے پروان چڑھائے اور ہمارے حصے بیروزگاری، مفلسی اور بے کسی آئی – ڈالرز کس نے کہاں چھپائے ہمیں پتہ نہیں لیکن صدر ٹرمپ کے الزامات کی زد میں ہم ضرور آئے اور اب انجام جو بھی ہو ہم عوام بھگتنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ اشرافیہ کے محلات اور مورچے تو ان کا کب سے انتظار کر رہے ہیں – ایک در سے بے فیض ہوئے تو دوسرے در کے سامنے بیٹھنے کو جب انہیں کوئی عار ہی نہیں تو کیسی عزت کیسی وقعت – عوام کے لئے بس معصوم مسکراہٹ اور فریب کا ایک جال ہونا چاہیئے جو کہ بے شک ہمارے آمروں اور اشرافیہ کے پاس رہا ہے اور رہے گا-
بس آپ کا کام ہے کہ سوچیئے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے سنواریئے -
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔