چین کا نیا راڈار سسٹم
اس صدی کے آغاز پر چین کی افواجِ ثلاثہ نے جب پَر پُرزے نکالنے شروع کئے تو ایک دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا اور چین پر یا جوج ماجوج کا لقب جو ایک افسانہ معلوم ہوتا تھا، وہ حقیقت نظر آنے لگا۔1990ء تک امریکہ اور روس (جو اس وقت تک سوویت یونین کہلاتا تھا) دونوں ورلڈ سپرپاورز تھیں۔ اور پاکستان تیسری دنیا کا ایک ابھرتا ہوا ملک تھا۔ میں ان دنوں اکثر سوچا کرتا تھا کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو دونوں سپرپاورز میں سے کسی ایک کا دامن تھام لینا چاہیے۔
قیامِ پاکستان کے بعد کی نصف صدی کی تاریخ قارئین کو حرف بحرف یاد ہے۔ ہم نے امریکہ کا دامن پکڑا اور بھارت نے روس کا۔ میں ان برسوں کی تاریخ دہرانا نہیں چاہوں گا لیکن امریکہ نے ان برسوں میں ہمیں جس حجم کا نقصان پہنچایا، روس نے اسی حجم کا فائدہ انڈیا کو پہنچایا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن بھی نہ تھی اس لئے بار بار امریکہ کو گلے لگاتے رہے اور بار بار گلا کٹواتے رہے!1990ء کے اواخر میں جب سوویت یونین کا سقوط ہوا تو انڈیا کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ آنے والے کئی برسوں تک روس کے ساتھ نتھی ہو کر نہیں چل سکتا۔ اس لئے اس نے آہستہ آہستہ پٹڑی بدلنا شروع کی۔ اس کی ابتداء من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہوئی۔
لیکن پاکستان پھر بھی یہ امید لگائے رہا کہ امریکہ ہمارا دیرینہ اتحادی ہے اس لئے وہ کچھ نہ کچھ تو ہمارا خیال کرے گا۔ لیکن وائے افسوس کہ ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہے۔۔۔ کوئی دوسرا سوراخ تو تھا ہی نہیں جس کو ٹرائی کرتے۔۔۔ ہاں چین کی آپشن ضرور موجود تھی لیکن اس نے ابھی وہ بھرپور انگڑائی نہیں لی تھی جس کے بارے میں کسی شاعر نے کہہ رکھا ہے:
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
ان دنوں کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ چین اندر ہی اندر خفیہ طور پر اپنا عسکری قد کاٹھ بڑھا رہا ہے۔یہ تو جب نو گیارہ ہوا اور امریکہ نے سارے مشرق وسطیٰ کو روند ڈالا اور جنوبی ایشیاء کی طرف دست درازی پر اترنے لگا تو روس اور چین کو خیال آیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقت کے توازن کو برابر کیا جائے۔ یہی وہ برس تھے جب چین کی معیشت 12،13فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔
صد شکر کہ چین نے عین وقت پر اپنی اس اقتصادی خوشحالی کو عسکری پیش رفت کی طرف موڑا اور ہم جیسے ممالک کو وہ سہارا ملا جس کی تمنا ایک طویل عرصے سے کی جا رہی تھی۔
قارئین شائد مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جونہی نئی ہزاری کا سورج طلوع ہوا، پاکستان کو دہشت گردی کی بین الاقوامی وباء نے آ گھیرا۔ یہ وباء اتنی تیزی سے پھیلنے لگی کہ ہمارے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ عرصہ ملک میں سیاسی انحطاط کا عرصہ بھی تھا۔
جنرل مشرف کی آمریت اور ملک کی مین سٹریم سیاسی پارٹیوں نے اسی عرصے میں دونوں ہاتھوں سے منی لانڈرنگ شروع کر دی، بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور اندرون ملک ایسی سیاسی اساس استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی جو زمینی حقائق کے برعکس تھی۔ ہم اندر سے کھوکھلے ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن آبادی کا سوادِ اعظم لیلیء جمہوریت کا قیس بنا ہوا تھا۔
اس افراتفری میں اگر افواجِ پاکستان کی آنکھیں نہ کھلتیں تو دشمنوں کے عزائم کامیاب ہو جاتے۔ جنرل کیانی کا دورِ سپہ گری (بلکہ سیاہ گری) ایک واٹرشیڈ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
وہ جونہی چھ سالہ طویل مدتِ سالاری گزار کر رخصت ہوئے، کارکنانِ قضا و قدر کو پاکستان پر رحم آ گیا۔ جنوبی وزیرستان اور سوات وغیرہ میں ملٹری آپریشن لانچ کئے گئے۔ جنرل راحیل شریف نے بعدازاں ضربِ عضب لانچ کیا۔۔۔ اور اس کے بعد کی تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں!
میں آج جس موضوع پر قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ (2001ء سے مابعد) یہ وہی ایام تھے جب چین اور روس نے مل کر دنیا کی واحد سپرپاور (امریکہ) کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک خفیہ مشترکہ (اور جامع) پروگرام بنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین کی پیپلز لبریشن آرمی، نیوی اور ائر فورس اس طرح پھلنے پھولنے لگیں جیسے کھیتوں میں کھمبیاں اُگ آتی ہیں۔۔۔ چین نہ صرف زمین، فضا اور سمندر میں امریکہ کی ہمسری کرنے لگا بلکہ خلاء میں بھی جا پہنچا۔
خود امریکی دانشور ، اس کے سالارانِ لشکر اور وائٹ ہاؤس کے مکین حیران و پریشان تھے کہ ہر آنے والا دن چین کو امریکہ کا ایسا رقیب بنا رہا ہے جو بہت جلد عسکری ترقی کی محبوبہ کو بغل میں داب کر اپنے شبستان کی راہ لے گا۔۔۔ پاکستان کے لئے چین کی یہ ترقی اور اس کا عالمی سٹیٹس گویا تحفہ ء فرستادۂ خداوندی تھا۔
چین جوں جوں عسکری ترقی کی منازل طے کرتا گیا، پاکستان اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔آج الحمدللہ! پاکستان اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ گزارے ہوئے ان 60،65برسوں کی فریب کاریوں کا کتھارسس دیکھ رہا ہے جو اس نے پنجابی محاورے کے بقول اپنے دیرینہ اتحادی کے ’’لَڑ‘‘ لگ کر برداشت کیں۔
میں آج ایک ایسی خبر الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ رہا تھا جو نہ صرف چین کے لئے باعثِ اعزاز ہے بلکہ پاکستان کے لئے بھی سببِ اطمینان ہے۔۔۔ میں اس دل خوش کن خبر کو آپ کے ساتھ شیئرکر رہا ہوں۔ یہ خبر اس لئے بھی لائقِ توجہ ہے کہ اسے ٹائمز آف انڈیا نے اپنی 9جنوری 2019ء کی اشاعت میں شہ سرخی کے ساتھ چھاپا ہے۔وہ لکھتا ہے:
’’چین نے حال ہی میں ایک ایسا جدید ترین سمندری (میری ٹائم) راڈار ایجاد کر لیا ہے جس کی رینج بیجنگ کے ساحلی علاقوں سے لے کر بحرہند اور بحیرۂ عرب تک پھیلی ہوئی ہے اور اس کی نگہداری (سروے لینس) کا علاقہ رقبے کے لحاظ سے پورے ہندوستان کو محیط ہے۔‘‘
اس خبر کی توثیق ہانگ کانگ سے نشر ہونے والے معروف میڈیا ہاؤس ’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ (SCMP) نے بھی کی ہے۔
اس چینل میں بتایا گیا ہے کہ : ’’یہ راڈار سسٹم چین نے خود اپنے ہاں ڈویلپ کیا ہے اور کسی بیرونی ملک (امریکہ، روس، جاپان وغیرہ) کی نقل نہیں کی۔ یہ سسٹم چینی بحریہ کو اس کے سمندری علاقے کی طرف بڑھنے والے ان خطرات کو بہت پہلے سے معلوم کرنے کے قابل بنائے گا جو دشمن کے بحری جہازوں (بالائے آب اور زیر آب )، طیاروں اور میزائلوں کی صورت میں حملہ کرنے کی نیت سے ایڈوانس کر رہے ہوں گے‘‘۔
ساری دنیا (بالخصوص مغربی دنیا) ایک عرصے سے واویلا مچا رہی ہے کہ چین نے ساؤتھ چائنا سی (Sea) میں کئی بے آباد جزیروں کو ملٹرائز کر دیا ہے۔ ان پر ہوائی اڈے اور بندرگاہی سہولیات بھی تعمیر کر دی گئی ہیں جن کی وجہ سے اگر کوئی امریکی بحری بیڑا چین کے ساحلوں کی طرف بڑھے گا اور اس کے انداز اگر جارحانہ ہوں گے تو چینی بحریہ اس کو روک سکے گی۔(اس وقت بحرالکاہل میں امریکہ کے 5طیارہ بردار اور بحراوقیانوس میں 6طیارہ بردار آپریٹ کر رہے ہیں اور ہر طیارہ بردار ایک ٹاسک فورس ہے جس میں 5000سے 6000تک آفیسرز اور جوان موجود ہیں) اس سے پہلے آج تک دنیا کے کسی بھی سمندر میں ان امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو روکنے ٹوکنے کی جسارت کسی نے بھی نہیں کی۔ چونکہ ایک ایک طیارہ بردار پر درجنوں ملٹری طیارے اور ہیلی کاپٹر وغیرہ (بمبار اور فائٹر) مقیم ہوتے ہیں اس لئے وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں ان طیارہ برداروں کی مدد سے حملہ کرکے اپنے ٹارگٹ کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔
حال ہی میں ایک چینی ایڈمرل نے یہ بیان دے کر امریکی بحریہ کے ناخداؤں کو گنگ کر دیا ہے کہ اگر ساؤتھ چائنا سی میں دو (2)امریکی طیارہ برداروں کو غرقاب کر دیا جائے تو امریکہ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
دو طیارہ برداروں کو غرقاب کرنے کا مطلب ہے کہ 10ہزار امریکی ٹروپس کو سمندر میں ڈبو دینا ۔۔۔ اور ان کے ساتھ سینکڑوں طیاروں کو بھی غرقاب کر دینا۔۔۔ اس بندۂ خدا کا نام ریئر ایڈمرل لُویوآن (Luo Yuan)ہے اور وہ اس وقت پیپلزلبریشن آرمی (PLA) کی اکیڈمی آف ملٹری سائنس کا ڈپٹی ڈائریکٹر ہے۔
یہ بیان چینی امیر البحر نے حال ہی میں یکم جنوری 2019ء کو ملٹری اکیڈمی میں تقریر کرتے ہوئے دیا تھا جس پر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان اعلیٰ سطح پر کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکی میڈیا، چینی بحریہ کے اس آفیسر کے بیان کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اپنے میڈیا پر لمبے چوڑے دلائل دے رہا ہے لیکن ظاہر ہے یہ بیان، کوئی بھی چینی آفیسر، اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک اس کی پشت پر ہائر سویلین اینڈ ملٹری کمانڈر کی تائید موجود نہ ہو۔
چینی بحریہ بھی آج کل طیارہ برداروں کا اپنا بحری بیڑا تشکیل دے رہی ہے اور اس کا تیسرا طیارہ بردار زیرِ تکمیل ہے۔۔۔۔ اسی جدید ترین خانہ ساز (Domestic) راڈار سسٹم کو جس چینی سائنس دان نے ڈویلپ کیا ہے اس کا نام لیویونگ ٹان (Liu Younton) ہے اور وہ بھی چین کی اکیڈمی آف سائنس اور اکیڈمی آف انجینئرنگ کا پروفیسر ہے جو ایک طویل عرصے سے چین کے راڈاری نظاموں کو اَپ گریڈ کر رہا ہے۔
اس نے پورے انڈیا کے سائز کی سروے لینس، کور (Cover) کرنے کے لئے یہ نیا راڈار سسٹم ایجاد کیا ہے جس کے صلے میں چینی صدر شی جن پنگ نے اس کو 11لاکھ ڈالر انعام بھی دیا ہے۔ یہ سائنس دان / انجینئر چین کی افواجِ ثلاثہ (بلکہ اب تو ان کو افواج اربعہ کہنا چاہیے کہ ان میں آرمی، ائر فورس ،نیوی کے علاوہ خلائی فورس کا اضافہ بھی ہو چکا ہے)۔اور اسلحہ جات کے لئے نئے آلات ڈویلپ کر رہا ہے۔
صدر شی نے ملٹری اکیڈمی میں اسی عطائے انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اس راڈار سسٹم سے پہلے ہمارے راڈار مطلوبہ سمندری علاقے / رقبے کا صرف 20فیصد کور(Cover) کر سکتے تھے لیکن اب اس راڈار کی مدد سے پورا بحرہند ہماری نظر میں ہو گا‘‘۔
اس راڈار کی ڈویلپ منٹ میں جو ٹیکنیکل تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں وہ میں اپنے قارئین کے ساتھ اس لئے شیئر نہیں کر سکتا کہ ہمارا پاپولر (اردو) پرنٹ میڈیا ابھی اس قابل نہیں ہوا کہ وہ ثقیل، مشکل اور بھاری بھر کم پیشہ ورانہ اور تکنیکی اصطلاحات قارئین کو سمجھا سکے۔
ملٹری راڈار ویسے بھی ایک ایسا آلہ ہے جس کے سارے حصے پرزوں کے نام انگریزی زبان میں ہیں اور جب تک کسی پرزے کے فنکشن کی اردو میں تشریح و توضیح نہیں کی جاتی، اردو زبان کا قاری اس کی تفہیم سے قاصر رہے گا۔
چین کی یہ ایجاد، پاکستان کے لئے بھی از بس باعثِ اطمینان اور وجہ تسلی ہے۔ آنے والے برسوں میں بحرہند اور بحیرۂ عرب میں بحری ٹریفک کی کثرت اور ہما ہمی بالکل اسی سکیل کی ہو جائے گی جو دونوں عالمی جنگوں میں بحرالکاہل اور بحراوقیانوس میں تھی۔
انڈیا اپنے ہاں اپنی بحریہ کو بلو واٹر نیوی کی طرف لے جا رہا ہے (بلکہ ایک حد تک لے جا چکا ہے) فی الوقت اس کے پاس تین طیارہ بردار ہیں اور مستقبل قریب میں آبدوزوں کا ایک بڑا بیڑا بھی اس کے تصرف میں آنے والا ہے۔
آری ہانت نیو کلیئر سب میرین پر تو میں ایک عرصے سے ان کالموں میں لکھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ دوسرے بالائے آب پلیٹ فارم مثلاً ڈسٹرائر، فریگیٹ، کروزر اور کار ویٹ وغیرہ بھی انڈین شپ یارڈز میں زیرِ تشکیل و تکمیل ہیں۔
گوادر اور اس کے قرب و جوار میں اگر مستقبل قریب میں ایگزن موبل کی آف شور کھدائی سے تیل اور گیس دریافت ہو جاتی ہے تو پاک بحریہ کے لئے بھی اپنی موجودہ پروفیشنل استعداد میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔