توہین مذہب کے الزام میں کوٹ رادھا کشن میں بھٹے میں زندہ جلائے جانے والے جوڑے کے بچے اب کہاں اور کس حال میں ہیں ؟ حیران کن خبر آ گئی
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)کوٹ رادھا کشن کے گاؤں چک 59میں توہین مذہب کے مبینہ الزام پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بھٹہ خشت میں زندہ جلائے جانے والے میاں بیوی شہزاد مسیح اور شمع توآپ کو یاد ہوں گے؟ ان کے قتل کی لرزہ خیز واردات نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا اور میڈیا کئی روز تک اس کی کوریج کرتا رہا۔ تاہم اس کوریج میں شہزاد اور شمع کے تین معصوم بچوں کا ذکر شاذ ہی سننے کو ملا اور اس کے بعد بھی کس نے بتایا اور کس نے سنا کہ وہ معصوم کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں ۔ اس کوریج میں شہزاد اور شمع کی تصویر بھی مسلسل غلط دکھائی جاتی رہی جس کی نشاندہی گزشتہ دنوں خود اس بدقسمت جوڑے کے معصوم بچوں نے کی ہے۔ ڈیلی ڈان کے مطابق شہزاد اور شمع کے تینوں بچے 10سالہ سلیمان، 8سالہ سونیا اور 6سالہ پونم واقعے کے بعد سے اپنے نانا مختار مسیح کی زیرکفالت ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا سلیمان ان کا واحد بچہ تھا جس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ ہونے والے اس غیرانسانی سلوک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کی عمر اس وقت 6سال تھی۔ مختار مسیح بتاتے ہیں کہ سلیمان اس واقعے کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت اور خوف میں مبتلا رہا اور اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل پایا۔ واقعے کے بعد دو سال تک وہ خواب میں اس بھیانک واقعے کو دیکھتا اور سوتے ہوئے اچانک اٹھ کر رونے اور مما، پاپا پکارنے لگتا تھا۔پونم اس وقت دو سال کی تھی۔ واقعے کے وقت بچوں کی ایک خالہ نے فوری طور پر بچوں کو لیا اور اس علاقے سے نکل گئی تاکہ انہیں مشتعل ہجوم سے بچا سکے۔
ڈیلی ڈان نے اس انٹرویو میں جب بچوں سے سوال کیا کہ ’’کیا تمہیں اپنے مما اور پاپا یاد ہیں؟ تو تینوں بچوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ سلیمان فوراً اٹھا اور ایک چارپائی پر چڑھ کر الماری کے اوپر والے خانے میں رکھی تصویر اٹھا کر لے آیا۔ یہ وہی تصویر تھی جو میڈیا کوریج میں دکھاتا رہا،اس میں ایک لڑکی شہزاد مسیح کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ میڈیا کے مطابق یہ لڑکی شمع تھی لیکن سلیمان تصویر اٹھا کر لایا توسونیا تصویر میں موجود لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ’’ایہہ مما نئیں اے‘‘ (یہ مما نہیں ہے)۔ اس ننھی بچی کو ادراک تھا کہ میڈیا اس کے والدین کی غلط تصویر دکھاتا رہا ہے۔ درحقیقت تصویر میں موجود یہ لڑکی شہزاد کی بھانجی ہے جو زندہ اور بخیروعافیت ہے۔ خاندان کے پاس شمع کی کوئی تصویر موجود ہی نہیں جبکہ شہزاد کی یہ واحد تصویر ہے جو ان کے پاس ہے۔رپورٹ کے مطابق واقعے کے بعد سے مختار مسیح ان بچوں کے ساتھ لاہور منتقل ہو چکے ہیں اور یوحنا آباد میں مقیم ہیں۔ بچے سکول جاتے ہیں اور ان کی سکول میں کارکردگی بھی بہت اچھی ہے۔ واقعے کے بعد کئی تنظیمیں ان کی مدد کے لیے آگے آئیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب غائب ہو گئیں۔ صرف ایک تنظیم ’سیسل چوہدری اینڈ آئرس فاؤنڈیشن‘ اب تک ان کی مدد کر رہی ہے۔ یہ تنظیم پاک ایئرفورس کے ہیرو سیسل چوہدری اور ان کی اہلیہ کے نام پر بنائی گئی ہے اور ان کی بیٹی مشعیل چوہدری اسے چلا رہی ہیں۔مشعیل چوہدری نے بتایا کہ ’’سب سے پہلے ہم نے بچوں کی کونسلنگ کا انتظام کیا کیونکہ تینوں بچے انتہائی خوفزدہ تھے اور کوئی بھی ان کے قریب آتا تو وہ خوف کے مارے رونے لگتے تھے، وہ کبھی گھر سے نکلتے تھے نہ کسی اجنبی کو قریب آنے دیتے تھے۔ اس کے بعد ہم نے انہیں یوحنا آباد کے ایک سکول میں داخلہ دلوایا۔سلیمان اس واقعے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا کیونکہ اس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاہم اب وہ تیزی سے اس صدمے سے نکل رہا ہے ورنہ ایک وقت ایسا تھا کہ کسی بھی اجنبی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ زاروقطار رونے لگتا اور خوف سے اس کی حالت غیر ہو جاتی تھی۔‘‘