سزا کالعدم، خصوصی عدالت غیر قانونی
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائی کورٹ کے مسٹرجسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی،مسٹر جسٹس محمدامیر بھٹی اور مسٹرجسٹس مسعود جہانگیر پر مشتمل فل بنچ نے سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل،اس کی کارروائی اورجنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کاحکم غیر آئینی قراردے کرکالعدم کردیا،فاضل بنچ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا استغاثہ دائرکرنے کاطریقہ کاربھی غیر قانونی قراردے دیا۔ فاضل بنچ نے یہ حکم جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے جاری کیا،فاضل بنچ نے خصوصی عدالت سے متعلق کریمینل لاء ترمیمی ایکٹ مجریہ1976 ء کے سیکشن 9 کوبھی آئین سے متصادم قراردیتے ہوئے کالعدم کردیا،اس سیکشن کے تحت خصوصی عدالت کو ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کا اختیار دیاگیاتھا،فاضل بنچ نے قراردیاہے کہ ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل شفاف عدالتی کارروائی کی آئینی ضمانت کے منافی ہے،فاضل بنچ نے قراردیا کہ آئین کے آرٹیکل6میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جاسکتا،18ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین معطل کرنے کے اقدام کو بھی آرٹیکل6کا حصہ بنایا گیا،یہ ترمیم 2010ء میں آئی جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ ان کے 2007ء کے اقدام کی بنا پر قائم کیا گیا،عدالت نے درخواست گزار کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل اورجنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف استغاثہ کی کابینہ سے منظور ی نہیں لی گئی،عدالت نے قراردیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے وقت آئینی و قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے،اس کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکلاء خواجہ طارق رحیم اور اظہر صدیق کے علاوہ عدالتی معاون بیرسٹر علی ظفر اور وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے ایک ہی موقف اختیار کیا،گزشتہ روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کے حوالہ سے یہ تک کہہ دیا کہ کوئی خواہش تھی اور اس پر عمل درآمد کردیاگیاجس پرجسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دیئے کہ پھر ہم سمجھیں کہ جو پرویز مشرف کا موقف ہے وہی حکومت کا موقف ہے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سر میں تو ریکارڈ کے مطابق بتارہاہوں،پرویز مشرف کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل سمیت تمام اقدامات وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر کئے گئے ہے،آئین کی معطلی اور ایمرجنسی کا نفاذ صدر مملکت کا صوابدیدی اختیار ہے، پرویز مشرف نے قانونی طور پر اپنے اس حق کو استعمال کیا، اگر آئین کی معطلی کو جرم مان بھی لیا جائے تو اسے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپریل 2010 ء میں سامنے لایا گیا،ایمرجنسی 2007ء میں نافذ کی گئی، آرٹیکل 12 کے تحت ماضی میں کیے گئے جرم کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا، ان تمام اقدامات کو کالعدم کیا جائے،پرویز مشرف کی طرف سے ملزم کی غیر حاضری میں اس کا ٹرائل جاری رکھنے کے خصوصی عدالت کے اختیار کو کالعدم کرنے کی استدعا بھی کی گئی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پرویز مشرف کی درخواست میں اٹھائے گئے قانونی نکات کی حمایت کی اور موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ میں ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا،یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی، 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ نیا نوٹیفیکیشن جاری کرتی یا پھر پرانے نوٹیفیکیشن کی توثیق کرتی،کیوں کہ18 ویں ترمیم کے ذریعے ہی آرٹیکل 6 میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کئے گئے، ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کئے جا سکتے ہیں، جس کا اختیار آئین دیتاہے،دوران سماعت مختلف مواقع پر فاضل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ آئین توڑنا تو اسے کہتے ہیں جب ضیاء الحق نے کہا تھا کہ آئین کیا ہے؟ 12 صفحوں کی کتاب ہے، اس کتاب کو کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینک دوں،فاضل بنچ نے قراردیا کہ ایمرجنسی لائف سیونگ ڈرگ کی حیثیت رکھتی ہے، ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے، آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے،اگر ایسی صورتحال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا؟ایمرجنسی لگائی جائے گی تو پھر عدالت اس کا تعین کرے گی کہ کیا ایمرجنسی آئین کے مطابق لگی یا نہیں، یہ سلسلہ چل گیاتو جس کو جو چیز مناسب لگے گی وہ وہی کرے گا، خصوصی عدالت کے جج ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے کام نہیں کررہے تھے،وہ ٹرائل جج کے طور پر کام کررہے تھے،اس لئے ہائی کورٹ کو خصوصی عدالت کی کارروائی کا جائزہ لینے کااختیارحاصل ہے،جمہوری نظام میں کبھی اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیارکو ختم نہیں کیاگیا،آپ نیب مقدمات میں ضمانت کو لے لیں،نیب مقدمات ناقابل ضمانت ہیں لیکن اعلیٰ عدالتوں نے اس قانون کی تشریح کرکے ضمانت کا تصور دیا، یہ نکتہ آصف علی زرداری کے والد کے کیس میں طے کیا گیا، کسی ایک صوبے میں ایمرجنسی نافذ ہو جائے تو کیا کیا جائے گا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا وہ صوبہ وفاق کو لکھ کر بھیج سکتا ہے کہ ایمرجنسی غلط لگائی گئی، جس پرجسٹس سیدمظاہر علی اکبر نقوی نے کہا یہ تو آپ نے وہی بات کی جب کسی ایس یچ او کیخلاف شکایت آئے تو ایس پی درخواست کو اسی ایس ایچ او کے پاس انکوائری کیلئے بھیج دیتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی عدالت کے جج کئی مرتبہ ریٹائرمنٹ یاترقی کی بنا پر تبدیل ہوئے،خصوصی عدالت کے ججوں کی تعیناتیوں کے حوالے سے2018ء میں جاکر کابینہ سے منظوری لی گئی،ججوں کی تعیناتیاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کی گئیں،جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ریکارڈ میں توجسٹس نذر اکبرکی نامزدگی چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے کی گئی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس شاہد کریم کی تعیناتی کے حوالے سے بھی ایسی کوئی سمری نہیں ہے،فاضل بنچ نے کہا کیاآئین یا قانون کے تحت چیف جسٹس کو خصوصی عدالت کے ججوں کی نامزدگی کاکوئی اختیارہے؟ ایسا کوئی قانون موجود نہیں اور اس سے پہلے یہ روائت بھی نہیں تھی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ ٹربیونلز یا خصوصی عدالتوں کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے ہوگی،جس پر فاضل بنچ نے کہابتایا جائے پنجاب کے کتنے ٹربیولز اورخصوصی عدالتوں کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے کی گئی؟سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے براہ راست نام منگوانے سے ہائیکورٹ کی آزادی بکھر گئی،اوریجنل آئین میں بھی ججوں کی تعیناتی کے لئے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ جسٹس شاہد کریم کو خصوصی عدالت کا رکن بنانے کے لئے وزارت قانون و انصاف نے نام تجویز کیا؟اس سے قبل کبھی وزارت قانون و انصاف نے نام تجویزنہیں کیا،عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف انکوائری کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم میں 20سے 25افراد شامل تھے،انکوائری ٹیم کے سامنے جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم، جسٹس ریٹائرڈ میاں اجمل،محسن حفیظ،سید کمال شاہ،سردار حامدخان سمیت 45افراد پیش ہوئے،عدالت نے پوچھا کہ ان میں سے کتنے لوگ ٹرائل میں پیش ہوئے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صرف سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ پیش ہوئے تھے،عدالت نے کہا ایف آئی اے انکوائری میں پیش ہونے والوں میں سے توایک فرد بھی ٹرائل میں پیش نہیں ہوا،اس صورتحال میں ایف آئی اے انکوائری کی کیاقانونی حیثیت ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فاضل بنچ نے واضح کیا تھا کہ خصوصی عدالت کی کاروائی کا ذکر نہیں ہوگا، جس پر فاضل بنچ نے کہا کہ انصاف کے تحفظ کے لئے گواہوں کاجائزہ لینا ضروری ہے،خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق مختلف نکات کے جواب میں فاضل بنچ نے قراردیا کہ آئین میں لکھا ہے کہ وزیراعظم صدر مملکت کے نام پر کوئی بھی سمری تیار کرے گا، وزیرا عظم چاہے تو وزارت خود رکھ کر سمری بھجوا دے یا کابینہ سمری وزیراعظم کے ذریعے صدر کو بھجوائے گی، عدالت نے استفسار کیا اگر کابینہ کا کوئی ممبر نہ ہو تو پھر رولز آف بزنس چل ہی نہیں سکتے، عدالت نے کہا کہ آئین میں 3 لفظ شامل کر کے پورے آئین کی شکل کو بدل دیاگیالیکن ساتھ ہی ایمرجنسی کو آئین میں شامل رکھا ہوا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں اندرونی ایمرجنسی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کے ذریعے عدالت کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے؟ایڈیشل اٹارنی جنرل نے کہاپارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، عدالت نے کہاتو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا؟ ایمرجنسی لائف سیونگ ڈرگ کی حیثیت رکھتی ہے، جسٹس مسعود جہانگیر نے حکومت کے وکیل سے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل اور استغاثہ دائرکرنے سے متعلق کابینہ کے فیصلے کاکوئی ریکارڈ موجود نہیں،بس وزیراعظم کا ایک خط ہے،خصوصی عدالت کی تشکیل کاصرف ایک ہی نوٹیفیکیشن تھا جوگزٹ میں شائع ہوا،یعنی سب کچھ 2 دن میں ہوا،جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو لگتا ہے سب کچھ واٹس ایپ پر ہوا، جس پر عدالت میں قہقہہ بلند ہوا،پرویز مشرف کے وکلاء اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرح جمعہ کے روزبیرسٹر علی ظفر نے بھی عدالتی معاون کے طور پر دلائل دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ کیس قانون کے مطابق نہیں بنا اور نہ ہی عدالت کی تشکیل قانون کے مطابق تھی، آرٹیکل 6 کا جرم کوئی اکیلا نہیں کر سکتا، اگر سب کی بجائے مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی ہو تویہ آئین کے منافی ہوگا جبکہ خصوصی عدالت کو دیگر ملزموں کو طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا، آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کابینہ کی منظوری کے بغیر کیس نہیں بن سکتا، یہ اختیار اب وزیراعظم کے پاس نہیں تھا، یہ پوری کابینہ کااختیارہے،عدالتی معاون کے مطابق اگر بنیاد غلط ہے تو پوری عمارت ہی گرے گی، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت کسی ملزم کا اس کی عدم موجودگی میں ٹرائل مکمل نہیں ہو سکتا،خصوصی عدالت نے دفعہ 9 کے تحت پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل کرنے کا اختیار استعمال کیاجو غیر آئینی ہے۔ علی ظفر نے یہ بھی کہا تھاکہ اگر 1976ء کے قانون کی دفعہ 9 ہی غیر آئینی ہے تو پھر پورا کیس ہی غیر قانونی ہے۔فاضل بنچ نے 12بج کر 40منٹ پر کیس کی سماعت مکمل ہونے پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا جو 3بج کر15منٹ پر سنا دیاگیا۔
مشرف فیصلہ