کورونا کے بعد تعلیمی اداروں کا ماحول کیسا ہوگا؟
دنیا بھر میں طلباء و طالبات کو غیر معمولی رکاوٹوں کا سامنا کر پڑ رہا ہے
میاں رضاالرحمن
(صدر سرونگ سکولز پاکستان)
نئی دہائی میں صرف 3 ماہ بعد، 2020 کو پہلے ہی اس صدی کا ’بدترین‘ سال قرا دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس نے اچانک ایک ایسی وبا کو جنم دیا جس کو اب دنیا بھر میں بیشتر اداراتی ترتیب کے عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے وقت میں زندگی گزارنے کے باوجود جہاں انسان انتہائی ترقی پسند سائنسی اور تکنیکی سہولیات کا مالک ہے، بمشکل دکھائی دینے والا وائرس معیشتوں، صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر نظام تعلیم کو بے حدمتاّثر کرچکا ہے۔ جو لوگ انتہائی کمزور معا شی حالات کا شکار ہیں ان کو اعلی طبی نگہداشت اور معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جب ہم آگے بڑھتے ہیں توہم یہ دیکھتے ہیں کہ معیاری صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی ترقی جو سستی ہونے کے ساتھ ساتھ سب کے لئے قابل رساء بھی ہو، تمام حکومتوں کا بنیادی مقصد بن چکی ہے۔ اس طرح کا مقصد صحت اور تعلیم کے اخراجات میں سرکاری سطح پر اضافہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے جب کہ دفاعی سامان پر بیک وقت اخراجات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتوں کو یہ احساس ہو جاے کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بڑھی ہوئی سرمایہ کاری یقینی طور پر طویل عرصیکے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوگی اور اس میں ریاست کی بنیادی سطح پر تعمیر کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
کوویڈ۔19 کے وبائی مرض کی وجہ سے دنیا بھر کے اسکولوں کے ساتھ ساتھ طا لب علموں کو بھی غیر معمولی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نہ صرف مروجہ نظام کی بازیابی پر بلکہ اس کو بہتر سے بہتر بنانے کا موقع تلاش کرنے پر بھی اہم توجہ دی جارہی ہے۔پاکستانی سیاق و سباق میں بھی چیزیں کچھ خاص اطمینان بخش نہیں ہیں۔ حکومت اپنے شہریوں کی صحت اور حفاظت کے بارے میں پوری طرح سے فکرمند ہے۔ ابھی تک، تعلیم کے شعبے میں بہتری آنے سے طلباء کی حفاظت کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ اگرچہ اسکولوں نے مارچ، 2020 میں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے آغاز پرہی آن لائن تدریسی طریقہ کار اپنایا تھا، لیکن معاملات ابھی بھی قابو میں نہیں ہیں۔آن لائن نظام تعلیم متعارف کرانے کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ اگر ایک طرف یہ طرزتعلیم تعلیمی اداروں کی بندش کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو عمل تدریس کے دوران کورونا وائرس کے لعنت سے بچانے میں مدد فراہم کرتا ہے تو، دوسری طرف، اس سے طلبا میں کاہلی اور ایک طرح کا روایتی طرزتعلیم سے اکتاہٹ کا عنصر ابھرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، والدین اور بچے دونوں بھی تعلیم کے طریقہ کار میں ڈھل گئے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک نے اپنی زندگی میں ایک حصے کے طور پر نئے وائرس کو قبول کرلیا ہے۔کرونا وائرس کی ملک میں دوسری لہر دوڑنے کے بعد، لوگوں کو اب یقین ہے کہ جب تک وہ اس سیارے پر موجود ہیں اس وائرس کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ اس وبا نے ایک نئی روش کو جنم دیا ہے جو خود اپنے حفاظتی اقدامات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے جو ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں کا ایک جزو اور جز بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، لوگوں نے وائرس کی پہلی اوردوسری لہر کے دوران اپنے اپنے وجود کو برقرار رکھنا سیکھا ہے ایک ایسی موذی وبا کے خلاف کہ جس نے پہلے ہی بیشتر ممالک میں تباہی مچا دی ہے۔ تاہم، اسکولوں کی بندش پر پابندی پہلے ہی قابل فہم ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، طلباء اور اساتذہ دونوں مطالعے کے بارے میں انتہائی سست روی کا شکار ہوے۔ اس میں کوئی شک نہیں، نقل و حمل میں تعطل (لاک ڈاؤن) کی مدت اپنے ابتدائی مرحلے میں تکلیف دہ تھی اور سب کو اس کا دھچکا محسوس ہوا تھا۔ جہاں مہلک وائرس سے متاثر ہونے کے مسلسل خوف سے افراد میں اضطراب اور افسردگی کا احساس پیدا ہوا۔ وہیں اس نے تھکن اور تنہائی کو بھی جنم دیا یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو خطرے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، طلبا کی نظر میں روزمرہ مطالعے کی حیثیت ثانوی ہو گئی۔ان کے جسم اور دماغ دونوں چھٹیوں کے مسلسل اورطویل لمحے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی بیزاری کی وجہ سے بیکار ہونے کے عادی ہو گئے تھے۔ بازاروں، پارکوں اور کھیل کے مقامات کے بند ہونے کے بعد، بچوں کے پاس سیر و تفریح کا کوئی بھی بہانہ نہیں بچا تھا، جس کے نتیجے میں بچے کاہلی اور عدم فعالیت کا شکارہوئے۔ مستقل نگرانی میں نہ رہنے کی وجہ سے اساتذہ نے بھی یہی رویہ اپنایا۔ ان کی استعداد عدم استحکام کی وجہ سے زنگ آلود ہونا شروع ہوگئی۔ CoVID-19 کی مہلک وبا نے بچوں کے باہمی میل جول کو بھی متاثر کیا۔ ہم آہنگی اور سیکھنے کی اہلیت جو گروپ اسٹڈی سے ہوئی ہے جو اسکولوں میں اساتذہ کی قیادت میں یقینی بنائی گئی تھی، آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے۔ اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کے بعد بھی طلباء ہفتے میں دو بار کلاسوں میں جاتے رہے جو کبھی بھی پانچ یا چھ دن والی روش کی طرح نتیجہ خیز نہیں ہوسکتے۔اب، یہ سب کے سب جانتے ہیں کہ اسکول بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کو متعدد غیرنصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رکھیں۔ یہ سرگرمیاں نوجوان ذہنوں کے لئے مراعات کا کام کرتی ہیں۔ اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کے بعد کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کی عدم موجودگی دورہ نہیں کی جاسکی۔ بچے اسکولوں میں مواصلات اور نظم و نسق کی مہارتیں سیکھتے ہیں جب وہ وقفے کے دوران بات چیت کرتے ہیں یا اس وقت بھی جب وہ اسکول کینٹین جاتے ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ خود ہی پیسہ خرچ کرنا نوجوان سیکھنے والوں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ اپنے مالی معاملات کا انتظام کیسے کریں۔ لوگ اسکول بند ہونے پر بھاری معاشرتی اور معاشی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا اثر بنیادی طور پر کمزور اور پسماندہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لئے زیادہ ہے۔ اس کے بعد آنے والی رکاوٹیں نہ صرف نظام تعلیم کے اندر موجود عدم مساوات کو بلکہ زندگی کے دیگر پہلوؤں میں بھی خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ وبائی امراض کے درمیان اسکول بند ہونے کے منفی اثرات عمل تدریس و تعلیم میں خلل ڈالتے ہیں۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسکول میں تعلیم ضروری جسمانی تربیت فراہم کرتی ہے۔ اگر اسکول بند کیئے جاتے ہیں تو، بچوں کو جسمانی نشوونما اور علمی نشوونما کے مواقع سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اسکول کی بندش غیر مراعت یافتہ طلبا کے لئے مزید نقصانات کا پیش خیمہ ہے جو اسکول سے باہران غیرنصابی تعلیمی مواقع سے قطعی محروم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جب اسکولوں کی بندش غیر متوقع طور پر ہوتی ہے اور غیر متوقع مدت کے لئے بھی، اساتذہ اکثر اپنے فرائض کے بارے میں بے یقینی کے شکار رہتے ہیں۔
سیکھنے کے ساتھ ساتھ طلبا سیروابط برقرار رکھنا، سیکھنے کے عمل کے دوران طلبا کی حوصلہ افزایی کرنا وغیرہ بھی ایک پریشانی بن جاتا ہے۔عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ براہ راست اسکول میں قائم کلاس رومز سے فاصلاتی تعلیم کی تعلیمی نشستوں (سیشنز) میں منتقلی افراتفری اور پریشان کن ہوتی ہے یہاں تک کہ جب اسکول اپنے اساتذہ کو بہترین مجازی (ورچوئل) وسایل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیشتر سیاق و سباق میں، اسکولوں کی بندش اساتذہ کے مابین رابطے کی عدم موجودگی یا بیگانگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال واضح طور پر انسٹرکٹر اور سیکھنے والوں دونوں کے لئے سخت پریشان کن ہے۔اس کے علاوہ، والدین گھریلو تعلیم یا فاصلاتی تعلیم کے لئے بغیر تیاری کے پھنس جاتے ہیں۔ جب اسکول اچانک بند ہوجاتے ہیں، تو والدین کو گھر میں اور ہماری ترتیبات میں اپنے بچوں کی تعلیم میں آسانی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سے والدین ٹیک سیکھنے والے نہیں ہیں۔ انہیں زوم یا گوگل میٹ کی آن لائن نشستوں میں بچوں کو شامل ہونے میں مدد دینے کے کام کو انجام دینے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ محدود تعلیم اور مالی وسائل کے حامل افراد سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔فاصلاتی تعلیم کے مستقر(پلیٹ فارم) کی تشکیل اور بحالی میں اسکولوں کا اپنا خاص کردار ہے۔ اسکولوں کے بند ہونے اور آن لائن تعلیمی خطوط (پورٹلز)کی دسترس کے ساتھ ساتھ فاصلاتی طرزتعلیم کے پلیٹ فارمز کی درخواست میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات، یہ مطالبہ دور دراز کی تعلیم کے لئے استعمال ہونے والے موجودہ آن لائن پورٹلز کو غیرفعال کر دیتا ہے۔ اس طرح، اسکولوں کو بڑے پیمانے پر گھروں سے سیکھنے کو منتقل کرنے کی کوشش میں اسکولوں کو انسانی اور تکنیکی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید برآں، وبائی امراض کے دوران اسکول بند ہونے سے طلباء کی سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بہت سارے لوگ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ایسی صورتحال میں ان کے لئے یہ چیلنج بن گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول میں واپس آنے کے بعد اس بات کا حل تلاش کریں کہ اسکولوں کی طویل بندش ان خاندانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی جو معاشی دھچکوں کا سامنا کررہے ہیں۔
سب سے بڑھ کرامتحانات کی جانچ اور توثیق کرنے والے عملے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب اسکول بند ہوجاتے ہیں تو شیڈول کی تشکیل بگڑجاتی ہے۔ کچھ اسکول امتحانات ملتوی یا منسوخ کرنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ تاہم، دوسروں کی ریموٹ لرننگ تعلیمی آزما?ش، تشخیص و نتایج کے نظام کی حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش منصفانہ اور تشخیص کی صداقت و شفافیت کے بارے میں سنجیدہ سوال پیدا ہوسکتا ہے خاص طور پر جب طلباء میں سیکھنے تک رسائی متغیر ہوتی ہے۔ تشخیص میں خلل واقع ہونے سے طلباء اور ان کے اہل خانہ پہلے سیموجود دباؤ بڑھتا ہے اور اس کا نتیجہ تعلیمی انحطاط وتنزلی ہوا کرتا ہے۔
یہ طرزتعلیم ایک نقطہ نظر رہا ہے جس کو ہرعمر اورہرقسم کی تعلیم کے لئے سے موزوں گردانا جاسکتا ہے اور یہ تقریبا سو سال سے رایج ہے۔ تاہم، اس وقت تعلیم میں کچھ غیر معمولی تبدیلی آرہی ہے اور اس تبدیلی کی سب سے حالیہ وجہ CoVID-19 وبا ہے۔ چونکہ اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں، اس بات پر دوبارہ غور کیا جائے کہ آئندہ طرز تعلیم کیا ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ تعلیم کے مستقبل کے بارے میں غور سے سوچیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد کے دور میں اسکولوں میں ٹکنالوجی کے استعمال میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ اب اسکول شروع کرنے والے بچے محنت کشوں کے ہوں یا رہنماؤں کے ہوں ایسی دنیا میں بڑے ہوں گے جوبہت ذیادہ "ڈیجیٹل" دنیا ہوگی۔ اس وجہ سے نئی مہارت سیکھنے اور سوچنے کے نئے طریقوں کو اپنانے کا مطالبات میں اضافہ ہو گا۔عملی زندگی میں بھی ہمارے بچوں کی کامیابی جدید تعلیم کا بھرپور تجربہ حاصل کرنے کے لئے زیادہ جذباتی، معاشرتی اور علمی مدد کے معیارپرمنحصر ہوگی۔ طلبہ ان تجربات میں بلا شک و شبہ اپنے والدین سے مختلف ہوں گے۔ انٹرنیٹ کے خول میں، تین سال کی عمر کی تعلیم، یعنی پڑھنا، لکھنا، اور ریاضی اب ایک چوتھا پہلو شامل ہو گا جو کہ ہے‘دوبارہ غور کریں۔ حالیہ تعلیمی نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران طلبا کی کارکردگی میں کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب والدین اپنے کم عمر بچوں کی کم سے کم کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ اسکولوں کی مسلسل بندش کے نتیجے میں طلبہ کے مجموعی درجات میں تقریبا25÷ کمی واقع ہوئی ہے۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے والدین کو اپنے بچوں کے مطالعے میں گہری دلچسپی لانے کے لئے حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے سامنے موجود چیلنجوں کا تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وبائی مرض نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہماری خود شناسی کا مقصد عالمی شہریت کا حصول ہونا چاہئے جس میں قومیت، ذات، جنس، نسل، یا دیگر اقسام محض تغیرات ہیں جو کبھی شناخت نہیں بننے چاہئیں۔ انفرادی شناخت کے ایسے غلط تاثرات جو ان طلبا کی مثبت سوچ کو محدود کرتے ہیں۔موجودہ منظن کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مستقبل میں کورونا وائرس وبائی صورتحال سینبٹنے کے لیے اسکولوں کے طریقہ کارکو یکسر بدلنا ہو گا۔ وبائی مرض کے بعد کے دور میں ہمارا مقصد ان شہریوں کی تعمیر کرنا ہے جو اپنے کاموں اور معاشرے پر ان کے اثرات کے لئے جوابدہی کا احساس رکھتے ہوں۔ انہیں معاشرے اور کام کی جگہ میں ذمہ داری کے ساتھ مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس سے ہمیں ایک منظم، ہمہ جہت ماحول اور ہرلحاظ سے پائیدار سیارے کی ترقی کی طرف اجتماعی طور پر آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔