کپتان کی وزراء کو وارننگ
یوں لگتا ہے وزیراعظم نے اب وہی کرکٹ والا کپتان بننے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو کسی کھلاڑی کو کوئی رعایت نہیں دیتا تھا، گراؤنڈ سے لے کر ڈریسنگ روم تک اور وہاں سے نیٹ پریکٹس کے دوران جتنے بھی مراحل آتے کپتان کی اپنے کھلاڑیوں پر گہری نظر ہوتی تھی۔ یہ نظر اقتدار میں آ کر کہیں کھو سی گئی اور ہم نے دیکھا کہ اُن کی کابینہ میں شامل کھلاڑی من مانی پر تلے ہوئے ہیں،حتیٰ کہ بعض تو ایسے ہیں کہ اپنی آزادی اور خود مختاری دکھانے کے خبط میں حکومت پر بھی تنقید کر جاتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک وزیر نے دوسرے وزیر پر طعنہ زنی کی اور ایسے اعتراضات کئے جو حکومت کی خامی شمار ہوئے، ایسا تو پہلے کبھی دیکھا نہ سنا گیا۔ جب ٹی وی ٹاک شوز میں وزیروں کے درمیان اس قسم کے الزامات پر کوئی اینکر سوال پوچھتا تو پی ٹی آئی والے یہی کہتے کہ کپتان نے کابینہ کے اندر بھی جمہوریت کو برقرار رکھا ہے اور اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ اب لگتا ہے وزیراعظم عمران خان نے اس کے خلاف آپریشن کلین اپ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج اِس لئے بنا رکھی ہے کہ اُنہیں قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت حاصل ہے اور وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے،مگر مَیں سمجھتا ہوں کپتان کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ وہ ایسی کوئی کمزوری نہیں دکھاتے جو اُن کی فطرت کے خلاف ہو۔کابینہ کا بڑا حجم شاید اس وجہ سے ہے کہ عمران خان نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو ایڈجسٹ کرنا تھا،کچھ اُن کی سیاسی جدوجہد کے ساتھی ہیں اور کچھ نے اُن کا اُس وقت ساتھ دیا جب اُنہیں الیکشن جیتنے کے لئے اکثریت درکار تھی۔ گزشتہ دو ڈھائی سال کے عرصے میں تنقید کا سارا بوجھ وزیراعظم عمران خان نے اکیلے برداشت کیا ہے،حالانکہ ایک بڑی کابینہ اُن کے ساتھ ہے۔
اب شاید وہ مزید یہ بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ وزراء اپنا بوجھ آپ اٹھائیں، نہیں اٹھا سکتے تو اُن سے معذرت کر لی جائے۔ اب تک حکومت کے بارے میں جب بھی تاثر خراب ہوا ہے،اُس میں کسی نہ کسی وزارت یا وزیر کی نااہلی یا مجرمانہ غفلت کا ہاتھ تھا۔حال ہی میں بجلی کا جو ملک گیر بریک ڈاؤن ہوا، وہ وزیراعظم کی تو کوتاہی نہیں تھی، مگر اپوزیشن کی طرف سے ساری تنقید اُن پر کی گئی، حالانکہ پاور ڈویژن میں ایک وزیر اور کئی مشیر موجود ہیں۔ سنا ہے وزیراعظم نے عمر ایوب پر برہمی کا اظہار کیا ہے،جو اس اہم محکمے کے وفاقی وزیر ہیں،جن کی لاعلمی کا یہ حال ہے کہ جب اگلے دن پریس کانفرنس کرنے آئے تو یہ تک نہ بتا سکے اس بریک ڈاؤن کی اصل وجہ کیا ہے۔ جب وجہ معلوم ہی نہیں تھی تو عجلت میں پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
اِس سے پہلے ملک میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، ہر وزارت نے وزیراعظم عمران خان کے لئے مسائل ہی کھڑے کئے۔ چینی کا بحران ہو یا آٹے کا، وزیر خوراک و زراعت اور وزیر صنعتی پیداوار سارے معاملے سے بے خبر رہے، نزلہ صرف وزیراعظم پر گرا اور اپوزیشن مزید شدت سے یہ کہنے لگی کہ ملک کی کمان ایک ایسے اناڑی کے ہاتھوں میں ہے، جو بنیادی حقائق سے بھی بے خبر ہے۔ اُس وقت بھی وزیراعظم پر شدید تنقیدہوئی جب انہوں نے پٹرول کی قیمتیں کم تو کیں، مگر اس کی فراہمی یقینی نہ بنا سکے۔
یہ سرا سر وزارتِ پٹرولیم کی ناکامی تھی، مگر ساری ذمہ داری وزیراعظم پر آ گئی،ادویات کی قیمتیں بڑھیں تو ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔وزارتِ صحت اس کا کوئی جواب نہ دے سکی،لیکن وزیراعظم عمران خان کے سینے پر عوام سے زیادتی کا ایک اور تمغہ سج گیا۔اب ان ساری باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ وزیراعظم اپنے وزیروں کی نااہلی سے صرفِ نظر کرتے رہے ہیں۔کسی ایک وزیر کو بھی کابینہ سے نہیں نکالا، حتیٰ کہ وزیر ہوا بازی سے بھی کوئی باز پُرس نہیں کی، جن کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے پی آئی اے کی یورپ کے لئے پروازوں پر پابندی لگی اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔اس صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ حکومت کی عدم فعالیت کے بارے میں تاثر ہو گیا۔ اپوزیشن یہ کہنے لگی کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ بات درست بھی تھی، کیونکہ عوام کے ساتھ زیادتی پر زیادتی ہو رہی تھی اور حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔
اب یہ خبر آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں اپنے وزیروں کو وارننگ دے دی ہے۔انہیں اپنی وزارتوں پر گرفت مضبوط بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب غلطی کی گنجائش موجود نہیں،ساتھ ہی اُن وزیروں کو بھی خبردار کر دیا ہے،جو حکومت میں رہ کر حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ یہ وارننگ خاص طور پر فواد چودھری کے لئے جاری کی گئی ہے، جو ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بعض وزیروں اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی نہیں بخشتے،بلکہ وہ تو شروع دن سے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے پر تنقید کرتے آئے ہیں۔اصل میں خرابی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وزیراعظم اپنے وزراء کو اپوزیشن کی تنقید کا منہ توڑ جواب دینے پر بھی لگا دیتے ہیں۔یہ ایسی بات ہے کہ جس کا وزراء اور مشیر بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنا کام چھوڑ کر سارا وقت اسی جنون میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی طرح ٹی وی چینل پر آ کر کپتان کو خوش کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔
غور کیا جائے تو پی ٹی آئی حکومت کا ہر وزیر، اطلاعات کا وزیر بنا ہوا ہے، جو کام اُس کا ہے ہی نہیں، وہ کرتا نظر آتا ہے۔ اس میں شیخ رشید احمد سب سے آگے ہیں،جب وہ ریلوے کے وزیر تھے تو اُن کی توجہ اپنی وزارت کی طرف کم اور سیلف پروجیکشن کی طرف زیادہ تھی۔ اُن کے دور میں ریلوے کے ریکارڈ حادثات ہوئے، مگر انہوں نے اپنی روش نہیں بدلی اور ہر شام کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اپوزیشن پر تنقید کرنے کا فریضہ ہی سرانجام دیتے رہے۔اب وزیر داخلہ بن کر بھی اُن کی وہی عادت جاری ہے، شاید وزیراعظم کی وارننگ کے بعد وہ بھی کچھ بدل جائیں۔