سی سی پی اوکا ایکشن، قانون شکن عناصر کو شہر چھوڑنے یا معزز شہری بننے کا پیغام
لاہور(تجزیہ، یونس باٹھ) سی سی پی او لاہور نے ایک ہی رات میں لاہور کے 97مافیا گروہ کے افراد کو گرفتار کرکے قانون شکن عناصر کو معزز شہری بننے ورنہ شہر چھوڑنے کا پیغام دیدیا ہے جس کے بعد شہر میں تھر تھلی مچ گئی ہے، واضح رہے وزیر اعظم کل لاہور آرہے ہیں لیکن اس دفعہ پولیس کی رپورٹ تمام اداروں سے بہتر ہوگی کیونکہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے لاہور کے تمام بدعنوان عناصرکو نکیل ڈال دی ہے،کچھ عرصہ قبل بھی وزیراعظم عمران خاں نے سینئر پولیس آفیسرغلام محمود ڈوگر کو لاہور میں سی سی پی او لگانا چاہا تاکہ شہر کی تکلیف دہ اور خطر ناک صورتحال کو ٹھیک کیا جائے، مگر ان کے مشیر نہ مانے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ غلام محمود ڈوگرکے ہوتے ہوئے پولیس کے معاملات میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت یا دباؤ بردا شت نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او لگانے میں کیا چیز مانع تھی؟ بظاہر دو قسم کی رکاوٹیں تھیں جن میں چند سیاستدانوں اور ڈی ایم جی کے کچھ افسران کی مخالفت تھی۔ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ غلام محمود ڈوگر کے سی سی پی او بننے سے ان کے ”کام“ نہیں ہوسکیں گے اور ڈی ایم جی کے افسران دوسرے پیشہ ورانہ گروپ کے مخالف ہیں اور وہ پولیس کا کو ئی تگڑا افسر برداشت نہیں کرتے۔اس گئے گزرے دور میں بھی کچھ ادارے ایسے ہیں جہاں ان کے سربراہوں کی وجہ سے ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ ان میں سے ایک پنجا ب پولیس ہے جہاں آئی جی انعام غنی کچھ عرصہ سے تعینات ہیں۔ اگرچہ پنجاب پولیس کا محکمہ کچھ عرصہ سے تنقید کا شکار ہے، اس کی کارکردگی اور معیار پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ اس کا آئی جی بننے کے بعد انعام غنی نے گھر کی صفائی کیلئے آپریشن کلین اپ کیا اور ادارے کی بد نامی کا باعث بننے والے سابق سی سی پی او عمر شیخ سمیت کئی دوسرے افسران کو فارغ کر دیا۔ جس سے فورس کا معیار اب نہ صرف بحال ہوا بلکہ پہلے سے بھی بلند ہوا۔آئی جی پولیس کی ہدایت پر غلام محمود ڈوگر کو لاہور میں عمر شیخ کی جگہ سی سی پی او تعینات کیا گیا ہے جنہوں نے آتے ہی پہلے ہفتہ میں عمران خان کے ویژن کے مطابق لاہور کے غنڈہ عناصر پر ہاتھ ڈالا ہے۔وزیر اعظم پاکستان ایک عرصے سے لاہور میں بد معاشوں کو قانون کا پابند بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے اس کیلئے انھوں نے محکمے کے دو کمانڈر اور دو سی سی پی او کو بھی لگاکر ان کی گرفتاری کا ٹا سک دیا گیا مگر وہ عمران خان کے خواب کی تکمیل نہ کر سکے اب یہ کام مو جو د ہ آئی جی پولیس اور سی سی پی او لا ہور غلام محمود ڈوگر اور ان کی ٹیم نے مل کر سر انجام دیا ہے اور ایک ہی رات میں لاہور کے 97نام ورافراد کو گرفتار کرکے ان سے بھاری بھر اسلحہ بھی قبضے میں لیا گیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ اداروں میں تبدیلی کیسے لائی جاتی ہے صرف اس وقت ہی جب آپ کی نیت صاف ہو، آپ کا ارادہ مصمم ہو اور آپ مخلص ہوں۔ 2010ء میں گوجرانوالہ میں امن وامان کے حالات بہت بدتر ہوچکے تھے،انتہائی خطرناک مجرموں کے گروہ راج کررہے تھے اور اغواء برائے تاوان کا جرم ایک صنعت بن چکا تھا۔ ڈاکے کیساتھ قتل کی وارداتیں روزانہ کا معمول تھا۔ لوگ خوف اور دہشت کا شکار تھے۔ صنعتکار اپنا سرمایہ باہر منتقل کررہے تھے۔ ان حالات میں غلام محمود ڈوگر کو گوجرانوالہ میں تعینات کیا گیا۔ انہوں نے دہشت کی علامت بننے والے خطرناک ڈاکو اور اغوا کار کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ کچھ ڈاکو مارے گئے اور بہت سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جنرل الیکشن میں فیصل آباد میں میں انہوں نے پولیس کو غیر جانبدار رکھا اور کئی سالوں سے بر سر اقتدار حکومتی پارٹی (نون لیگ)کے مخالف امیدوار جیت گئے۔ ان کی تعیناتی کے دو مہینوں میں ہی وہا ں حا لات ٹھیک ہوگئے۔ خطر ناک مجرموں کے گروہوں کو کچل دیا گیا۔ وہ سڑکیں جہاں لوگ دن کو سفر کرتے ہوئے ڈرتے تھے وہاں آدھی رات کو بلاخوف سفر کرنے لگے۔ علاقے میں اسلحہ لے کر چلنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور اس پر سو فیصد عمل کیا گیا۔ شادیوں کی تقریبات جن میں سیکڑوں کلاشنکوف نظر آتی تھیں وہاں ایک بھی پستول نظر آنا بند ہوگیا۔اب وہ لا ہور کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک عزم لے کر آئے ہیں اوراس کیلئے انہوں نے آتے ہی کام تیزی سے شروع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ٹیم کے سبھی افسران اچھے ہیں تاہم سی سی پی او لاہور کو سی آئی اے، انوسٹی گیشن ونگ میں کرپشن کا خاتمہ کر نے اور جعلی ایماندارجاوید صدیق جیسے افسروں کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
تجزیہ یونس باٹھ