کھاد کا بحران سمگلنگ کو ناممکن بنایا جائے
پی ٹی آئی حکومت خود کو کسان دوست قرار دیتی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کسان کارڈ اور زرعی شعبے میں بھرپور سپورٹ سے کسانوں کی زندگی میں خوشحالی لے آئی ہے،لیکن زراعت کے شعبے سے ملنے والی بعض اطلاعات ایسی ہیں جنہیں کسی صورت خوش کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق اس وقت ملک میں یوریا کھاد کا بحران عروج پر ہے۔کسانوں کو اپنے کھیت کھلیان چھوڑ کر گھنٹوں قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے، تب کہیں جا کر انہیں ایک دو بوریاں کھاد دستیاب ہوتی ہے۔اگر کسانوں کو جیسے تیسے کر کے کھاد مل بھی جائے تو اس کی قیمت ان کی قوتِ خرید کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔اطلاعات کے مطابق کاشتکاروں کو یوریا کھاد تین ہزار روپے اور ڈی اے پی کی بوری نو سے دس ہزار کے درمیان مل رہی ہے۔ دوسری جانب انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت سے ”مڈل مین“ کو سینکڑوں کی تعداد میں بوریاں فراہم کی جا رہی ہیں جو کسانوں کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ذخیرہ اندوز بھی کسانوں کی مجبوریوں کی بھاری قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے امسال ”بمپر کراپس“ کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکے گا،بلکہ بعض دانشور تو یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ کسان بھائی اپنے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکیں گے،جس کا مطلب ایک بار پھر آٹے کا بحران ہو گا۔محکمہ زراعت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس نے انتظامیہ کی مدد سے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں آپریشن کر کے گودام میں ذخیرہ کی گئی کھاد کی 90ہزار بوریاں برآمد کی ہیں،لیکن یہ تعداد تو غائب کی گئی کھاد کا معمولی حصہ بھی نہیں بنتی۔اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ کھاد کو مافیا نے افغانستان اور ایران سمگل کر دیا ہے۔
اس ساری صورت حال پر کسان سراپا احتجاج نظر آتے ہیں، کاشتکار نمائندوں کے مطابق وہ کھادوں کی ذخیرہ اندوزی اور خود ساختہ مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ ایک طرف کھاد کا بحران، دوسری طرف اگر کسان اپنا کھیت چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے تو اس کے اثرات بھی برے مرتب ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے خلاف مافیا کی سازشوں کا برملا اظہار کرتے ہیں،لیکن جناب وزیراعظم عوام آخر کب تک مہنگائی کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھیں گے؟ مافیاز کو کس نے نکیل ڈالنی ہے۔کس نے ان سے عوام کی جان چھڑانی ہے؟ اگر آج کسان کھاد کے لیے مارا مارا پھرے گا تو کل وہ پوری قوم کی غذائی ضروریات کو کیسے پورا کرے گا۔ ابھی وقت ہے حکومت اور اس کے ذمہ داران ہوش کے ناخن لیں،بیانات کی ٹامک ٹوئیاں اور الزامات کی کیچڑ اچھالنے سے گڈ گورننس ممکن نہیں۔گفتار کے بجائے کردار کا غازی بننا ہو گا۔
یہ درست ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں کھاد کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے،اس لیے سمگلروں کی چاندی ہو چکی ہے۔ پاکستان سے سستا یوریا حاصل کر کے وہ افغانستان کے راستے دنیا بھر کو سپلائی کر رہے ہیں پیداوار بڑھانے کے لیے تو اقدامات ہوتے ہوں گے، سرحدوں کو سیل کرنا تو ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور ہمارے دفاعی اداروں کو بہرصورت یہ سمگلنگ روکنی چاہیے، اور فی الفور روکنی چاہیے، صرف اس ایک اقدام ہی سے حالات کو بڑی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے،بصورت دیگر تو دما دم مست قلندر کی صدائیں گونجیں گی۔