عروج میں زوال
مجھے کسی طرح ملک کے عظیم،باکردار سیاست دان کے ہاں ملازمت ملی تو اس وقت موجودہ حالات کے مطابق عام لوگوں کے پاس یا ملک کے سیاست دانوں کے پاس دولت کی ریل پیل نہیں تھی۔ بڑے بڑے سیاست دان بھی ایک شہر سے دوسرے شہر ریل گاڑیوں پر سفر کرتے تھے یا بسوں کو سفر کا ذریعہ بناتے تھے، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میرا تعلق جن سے قائم ہوا، وہ ملک کے اس وقت کے بہت امیر، کھاتے پیتے خوش حال خاندان کے فرد تھے، انہیں سیاست میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ مجھے اس وقت کے کافی مشہور سیاست دانوں سے واسطہ رہتا تھا۔ ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں، ان میں مذہبی لوگ بھی شامل تھے۔ زیادہ تر سیاست دانوں کی سیاست ملک و قوم کے متعلق ہوتی تھی۔جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کیا، مجلس شوریٰ بنائی، مجلس شوریٰ کے افراد کو اپنے اپنے علاقوں کے لئے ترقیاتی فنڈز کا اجرا کیا اور عوام کے دِلوں میں جگہ بنانے کے لئے قومی خزانے کے دروازے کھول دیتے۔ میرے خیال میں کرپشن اس وقت سے شروع ہوئی۔ محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی اور منظورِ نظر لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا،اس کے بعد کرپشن، اقرباء پروری کا دور شروع ہوا اور بے شمار لوگوں کا عروج اور کچھ کا زوال شروع ہو گیا۔ عروج و زوال ایک ایسی حقیقت ہے،جس سے انکار ممکن نہیں۔ اس عالم رنگ و بُو میں جو چیز پیدا ہوتی ہے، وہ عروج اور پھر زوال کے مرحلوں سے ضرور گزرتی ہے،جو چیز پیدا ہوتی ہے وہ فنا بھی ہوتی ہے، جو چیز اوپر چڑھتی ہے، وہ اترتی یا گرتی ہے۔ پودا لگتا ہے، بڑھتا ہے، ایک مقام تک بڑھتا رہتا ہے۔ پھر وہ پرانا ہوکر فنا ہو جاتا ہے، زمین سے کٹ جاتا ہے،ہریالی ختم ہو جاتی ہے۔ انسان بچہ پیدا ہوتا ہے، پلتا ہے، بڑھتا بڑھتا جوان ہو جاتا ہے، پھر الٹا سفر کرتے ہوئے ادھیڑ عمر، پھر بوڑھا اور پھر زمین کی کوکھ (قبر) میں سما جاتا ہے۔
عروج و زوال اس کائنات اور اس زمان و مکان کا ایک جانا پہچانا مستقبل اور غیر متبدل اصول ہے۔ انسان جب پہلی سانس لیتا ہے تو یہ اس کی آخری سانس تک کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ مسافر جب پہلا قدم اٹھاتا ہے تو آخری قدم کی طرف اس کا فاصلہ کم ہو جاتا ہے۔ ایک قوم پیدا ہوتی ہے، دنیا پر چھا جاتی ہے۔ ایک خاندان کسی طرح اچھے وسائل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور قومی وسائل سرکاری خزانے کی لوٹ مار کرنے کے مواقع میسر آ جاتے ہیں، پھر اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا انسان آجاتا ہے اور پہلے شخص کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ عروج کو یاد کرتے کرتے،آخری منزل (قبر) تک چلے جاتے ہیں۔ زوال پذیر ہونے والے لوگوں کو دوسرے لوگ جانتے نہیں ہیں کہ کس طرح دھیرے دھیرے زوال کی طرف آئے اور کس طرح یہ لوگ عروج کی طرف گئے۔ کیا یہ اصول انسان کو سمجھ نہیں آتا جو ہمیشہ سے لاگو ہے۔ بے شمار لوگ عروج پر پہنچنے کے بعد زوال کے مرحلے میں ہیں اور نتیجہ یا آثار سامنے ہیں کہ آج انسان کا جسم جنت میں ہے اور روح دوزخ میں جل رہی ہے اور یہ اس نکتے یا مقام سے بالکل برعکس ہے،جب انسان کا جسم دوزخ میں اور روح جنت میں تھی، اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خالی ہاتھ خالی پیٹ اور خالی جسم تھا، تن پر کپڑا نہیں تھا، رہنے کو گھر نہیں تھا، لیکن خوش تھا اور آج جب اس کے پاس سب کچھ ہے، تو بے قرار ہے بے سکون ہے، اندر سے جل رہا ہے تب جو ہاتھ لگتا کھا لیتا تھا جہاں جی چاہتا پڑا رہتا تھا نہ کوئی غم نہ فکر نہ پریشانی، بڑے آرام سے سو لیتا تھا اور آج اس کے پاس کیا نہیں ہے، دنیا کی تمام نعمتیں کھانے کو میسر ہیں پہننے کو کیا کیا نہیں ہے، رہنے کے لئے پُرآسائش محلات، مکانات، کوٹھیاں، نرم و گذار بستر سب کچھ ہے، لیکن اس کو نیند نہیں آتی،اندر سے خالی ہوتا جاتا ہے،جسم جنت میں اور روح دوزخ میں ہیں۔
ایک اور بہت بڑی مثال یہ ہے کہ پہلے فرد تھا پھر خاندان ہوا پھر قبیلہ۔پھر معاشرہ، نظام اور آج اجتماعی معاشرہ ایک دوسرے سے جڑتے اور وصل کے برعکس پھر اکیلا اور تنہا ہو کر جی رہا ہے، معاشرے ختم، قبیلہ ختم، خاندان ختم اور پھر ہر فرد اکیلا جسم قریب قریب اور اندر سے دور دور تنہا تنہا۔کوئی میل جول نہیں کوئی محبت، کوئی دوستی کوئی لحاظ نہیں۔ نفسا نفسی زندگی کا اصول بن گیا ہے، جہاں سے چلا تھا، وہیں پہنچ گیا ہے۔ ابتدا میں ایک دوسرے کو کھاتا تھا، پھر جانور کو کھانے لگا، پھر گھاس، جڑیں کھانے لگا۔ پھر پھول پتے اور پھر غلہ دانے کھانے لگا، اور آج پھر ایک دوسرے کو کھا رہا ہے،پہلے اس کے ہاتھ میں پتھر کا ہتھیار تھا، اس کے بعد طرح طرح کے ہتھیاروں سے کھیلتا ہوا آج اس مقام پر پہنچا ہے کہ ہاتھ بھی نہیں، صرف ایک انگلی کی ایک معمولی سی جنبش پر پتھر کے زمانے میں پہنچ سکتا ہے، گویا عروج اپنی انتہا کو پہنچ کر اپنے زوال کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے،لیکن عروج و زوال کا ایک جانا پہچانا اصول یہ بھی ہے کہ ایک مقام پر پہنچ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ عروج ہے یا زوال؟ جیسے ہم کسی پتھر کو اوپر اٹھا لیتے ہیں تو ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ اس کو فوراً نیچے پھینکنا پڑتا ہے، یہ لمحہ بہت چھوٹا اور غیر محسوس ہوتا ہے۔ارسطو نے کہا کہ ارتقا کا سفر یوں چلتا ہے کہ ایک مرحلے کی انتہا دوسرے مرحلے کی ابتداء ہوتی ہے،لیکن اس کا پتہ نہیں چلتا کہ ایک کا آخر کون سا ہے اور دوسرے کا اول دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مسلمانوں کے عروج میں زوال کی نشانیاں بالکل نہیں، جسے ہم بغداد یا مسلمانوں کا عروج سمجھتے ہیں، وہی زوال کی ابتدا تھی کہ مالِ غنیمت کی ریل پیل سے ایک سنہری دور شروع ہوا تھا وہی سنہری دور ہی زوال کا بیج اپنے اندر تیار کر رہا تھا۔
ہندوستان میں شاہ جہاں اور اورنگزیب کا دور انتہائی عروج کا دور تھا،لیکن اسی دور میں زوال تیار ہو رہا تھا، آج بھی انسانیت انتہائی عروج پر ہے کیا نہیں،جو انسان کے پاس نہیں،لیکن کسی کو بھی احساس نہیں کہ انسان سے خود انسان دور ہو رہا ہے اس نے سب کچھ تو پا لیا ہے،لیکن خود کو کھو دیا ہے۔ سیدھی بات ہے انسان جب چلا تھا تب بھی ایک جسم تھا یا جانور سے انسان کے مرحلے میں پہنچا تو کافی عرصے تک حیوان ہی تھا، صرف پیٹ تک محدود اور جسمانی ضروریات کے لئے کوشاں، پھر اس کے اندر ایک اور چیز پیدا ہوئی جو اسے جانور سے ممتاز کرتی تھی اور اسی چیز کی بنیاد پر یہ اشرف المخلوقات ٹھہرا آج اتنے لمبے سفر اور راستوں سے گزرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی مقام پر آ چکا ہے۔ جسم اور جسمانی ضروریات تک محدود، ایسا تو سب حیوان کرتے ہیں اور ان کی ضروریات تک حیوان بھی محدود ہوتا ہے، پھر اس میں اور انسان میں کیا فرق ہوا۔؟ وہ بھی پیٹ یہ بھی پیٹ۔ وہ بھی جسم یہ بھی جسم، انسان کے تمام کمالات۔ ایجادات، علم اور دانائی کی منزل جسم اور جسمانی آسائشیں تو ہیں، وہ شرف،وہ امتیاز، وہ خصوصیت کہاں گئی،جو انسان کو حیوان سے برترو اعلیٰ اشرف بناتی ہے۔ یہ زوال نہیں تو کیا ہے کہ انسان پھر اس مقام پر کھڑا ہے،جہاں سے چلا تھا، یعنی صرف مادی ضروریات۔کیا آج کا انسان کوئی ایسی چیز دکھا سکتا ہے،جو حیوانوں سے الگ ہو۔ زیادہ سے زیادہ اپنی زبان دکھا سکتا ہے، باقی اس کے پاس کیا ہے،جو حیوان کے پاس نہیں،اب سب اپنی ضروریات کے لئے دوڑ رہے ہیں وہ بھی اپنے لئے جیتا ہے۔یہ بھی اپنے لئے، ہر کوئی روٹی کے لئے دوڑ رہا ہے وہ بھی نفسانفسی۔یہ بھی نفسانفسی۔ سب رشتہ داریاں،دوستیاں مطلب کے لئے صرف وہ دوست جس سے کوئی مطلب ہو، جس سے مفاد ہو، آج کا انسان شاید اشرف المخلوقات کی منزل بھول رہا ہے، زوال کی طرف گامزن ہے۔