جنرل جاوید اقبال: قید،رہائی اوراٹک سازش  

جنرل جاوید اقبال: قید،رہائی اوراٹک سازش  
جنرل جاوید اقبال: قید،رہائی اوراٹک سازش  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال ملک کو جاسوسی کے الزام میں فوجی عدالت کی طرف سے 14سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اُن کو 6 دسمبر 2018ء کو گرفتار کیا گیا اور 3مئی 2019ء کو سزا سنائی گئی جو  اپیل پر سات سال کر دی گئی۔ اب جنرل جاوید کو اُن کی بقیہ رہ جانے والی سزا ختم کر کے رہا کر دیا گیا ہے۔ اُن کی رہائی کا حکم 29 نومبر کو پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے دیا۔یہ اُن کا فرمانِ امروز یعنی پہلے روز کے احکامات میں سے ایک تھا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہی اُن کی سزا کی توثیق کی بلکہ اُن کے حکم پر ہی کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اُنہوں نے ہی سزا میں سات سال تخفیف کی اور اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل23نومبر کو مزیدتخفیف کرتے ہوئے باقی سزا چھ ماہ کر دی تھی۔ اُن پر الزامات لگائے گئے تھے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعدامریکہ کے لیے کام کرتے رہے۔ کچھ آرٹیکلز لکھ کر دیئے۔ اپنی سی وی شیئر کی۔ SPDکے بارے میں بتایا کہ یہ شعبہ ایٹمی پروگرام کے تحفظ پر کام کرتا ہے۔

آرمی چیف کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟ یہ اور ایسے دیگر الزامات میں جن کو کچھ لوگ جرم کے زمرے میں نہیں لاتے، یہ سب جنرل جاوید اقبال سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے اُسے تسلیم کر لیا۔ اُن کے نزدیک یہ جرم نہیں تھا۔ اُسے اعترافِ جرم کہہ دیا گیا۔فوجی عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد وہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ لے گئے۔ اُن کے کیس کو وہاں بریکیں لگتی رہیں مگر بہت سے شواہد اور حقائق کھلنے لگے۔ اُن کے وکیل عمر آدم ہیں۔ اُنہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جنرل جاوید نے جنرل باجوہ کی توسیع پر تنقید کی تھی۔ کیا یہ سب کچھ اُس کے ردِ عمل میں ہوا؟ جنرل عاصم منیر ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی بھی رہے۔ اُن سے زیادہ کس کو علم ہو سکتا ہے کہ ِاس معاملے کی تہہ میں کیا تھا؟ لہٰذا اُن کی رہائی کا حکم دے دیا۔جنرل جاوید اقبال کا کیس ابھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہے۔ وہ کورٹ سے خود کو مکمل کلیئر کرانا چاہتے ہیں جس کا اب امکان بھی نظر آ رہا ہے۔ اُن کے وکیل عمر آدم ہیں جو میجر آدم فاروق کے بیٹے ہیں۔ جن کا بھی کورٹ مارشل ہواتھا۔ اُن پر اور کئی دیگر افسروں پر بغاوت کے  الزام میں کیس چلا جسے اٹک  سازش کیس کے نام سے شہرت ملی۔ آئیے ذرا اُن  جونیئر فوجی افسروں کی کچی بغاوت اورکیس پر نظر ڈالتے ہیں۔


مارچ 1973ء میں کینٹ ایریاز اور ایئربیسز سے چند افسروں کو گرفتار کیا گیا۔اُن پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کا الزام تھا۔ الزام کی زد میں آنے والے افسروں کو سول وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی جبکہ عدالت فوجی تھی۔ میجر جنرل ضیاء الحق اِس فوجی عدالت کے سربراہ تھے۔فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی اِس عدالت کے دیگر ممبران میں بریگیڈیئر جہانداد خان اور بریگیڈیئر رحمت شاہ بخاری بھی شامل تھے۔ ملزمان کے وکلاء میں شیخ منظور قادر، ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعجاز بٹالوی اور اعتزاز احسن پیش ہوتے رہے۔ نوجوان افسروں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار نظر آتا تھا۔وہ اُن کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتے تھے۔اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے بعض سینئر افسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ نوجوان افسروں میں کچھ وہ افسر بھی  تھے جو1971ء کی جنگ میں بھارت میں جنگی قیدی رہے۔  اہم ملزم میجر سعید اختر ملک اور پرویز مشرف دور میں احتساب کے چیف پراسیکیوٹر سابق میجر فاروق آدم خان تھے۔ اٹک سازش کیس 1973ء کے دیگر ملزمان کی فہرست کچھ اِس طرح سے تھی: میجر رینک کے آصف شفیع، اشتیاق آصف، فارق نواز جنجوعہ، راجہ نادر پرویز، نصراللہ خان،  ایاز سپرا،کیپٹن سطح کے سرور محمود اظہر، نوید رسول مرزا اور کرنل سطح کے افسران میں علیم آفریدی (جو ایئر مارشل اصغر خان کے برادر نسبتی تھے)، مظفر ہمدانی، افتخار احمد، افضل مرزا اور تنویر تھے۔سازش میں بریگیڈئر واجد علی شاہ اور بریگیڈئر عتیق احمد کا نام بھی تھا۔ پاک فضائیہ سے سکواڈرن لیڈر غوث،  ونگ کمانڈر ہاشمی  اور گروپ کیپٹن سکندر مسعود شامل تھے۔ سابق بریگیڈئر ایف بی علی یا فرخ بی علی جو جنرل گل حسن اور ایئر مارشل اے رحیم کو پیغام بھیجنے کے حوالے سے مشہور تھے، وہ بھی اٹک سازش کیس میں اِس طرح ملوث کر دیے گئے تھے کہ باغی نوجوان افسران میں سے کسی نے اُن سے ملاقات کی اور اُنہیں منصوبے کا بتایا جس پر بریگیڈیئر ایف بی  علی نے ان سے کہا تھا کہ یہ اُن کا یہ منصوبہ ناممکن ہے لیکن اب اُنہوں نے ملاقات کر کے اُن کو ملوث کر ہی لیا ہے۔ بریگیڈیئر ایف بی علی نے مقدمے کے دوران فوجی ٹربیونل کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔


چند نوجوان فوجی افسران نے پکڑے جانے سے قبل ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان سے بھی یہ کہہ کر ملاقات کی تھی کہ اُن کے ایسے منصوبے میں اُن کے برادر نسبتی کرنل علیم آفریدی بھی شامل ہیں۔ اِس پر اصغر خان نے  منصوبے کو خام خیالی قرار دیا  اور کہا کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں چھاؤنی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جیپ بھی جائے تو اُس کی حرکت  سینئر افسر کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی آپ لوگ ایک بٹالین کی نقل و حرکت کرانا چاہتے ہیں۔ 
آرمی چیف جنرل ٹِکا خان تک اِس بغاوت کی پلاننگ کی ابتداء ہی میں اطلاع پہنچ چکی تھی۔ اُنہوں نے آئی ایس آئی کو نگرانی پر لگا دیا۔ ملٹری انٹیلی جنس کے لوگ بھی باغیوں میں شامل کرادیئے۔ لیفٹیننٹ کرنل طارق رفیع نے حکام کو مخبری کر دی تھی۔ جنرل ٹِکا خان نے اُنہیں بدستور گروپ میں کام جاری رکھنے کی تھپکی دی۔ 30مارچ 1973ء کو جب یہ لوگ گرفتار کئے گئے تو بھٹو سرکار نے سرکاری میڈیا کے ذریعے یہ کہانی پھیلائی کہ باغی افسرسول اور فوجی قیادت کوہٹانے کے بعد ایئر مارشل اصغر خان کی سربراہی میں حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اصغر خان اُس وقت اپوزیشن پارٹی تحریک استقلال کے سربراہ تھے۔


 میجر جنرل ضیاء الحق نے ملزموں کو سوائے راجہ نادرپرویز کے طویل سزائیں سنائیں،نادر پرویز کو بری کر دیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ سزا فاروق آدم کو سنائی گئی جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پراسیکیوٹر جنرل بنے۔ اُن کا بیٹا عمر آدم آج پاکستان کے بہترین وکلاء میں شامل ہے۔ جی ہاں! یہ وہی میجر جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے باغی افسروں کو سزائیں دے کر ذوالفقار علی بھٹو کا دل جیت لیا تھا۔ 

مزید :

رائے -کالم -