محمد مرسی کا پہلا امتحان
صدر محمد مرسی کا یہ فیصلہ کہ پارلیمان کے زیریں ایوان کو بحال کر دیا جائے، جرنیلوں کی جانب سے کئے جانے والے فیصلے کہ اسے تحلیل کر دیا جائے، کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کی بدولت وہ معاملہ دوبارہ سامنے آ گیا ہے، جو انقلاب کے آغاز سے ہی متنازعہ چلا آ رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا چیز جائز ہے اور قانون کی حکمرانی کس طریقے سے قائم ہو، اس کے برعکس کے انقلابی انداز میں کیا چیز جائز ہے۔ اگر ہم انقلابی طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ کیا چیز جائز ہے تو 25جنوری کو انقلاب کے حق میں جدوجہد کرنے والے، اس بات پر مُصر ہے کہ اس وقت کے صدر حسنی مبارک مستعفی ہوں اور پھر ایسا ہوا ، یعنی باوجود اس کے کہ حسنی مبارک کے ساتھیوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ اُن کا اس طریقے سے مستعفی ہونا آئین کی خلاف ورزی ہو گی، جہاں انقلاب اس وقت تک جاری رہتا ہے۔ جب تک اس کے اہداف حاصل نہیں ہو جاتے اور ایسا ہی صدر مرسی نے منتخب ہونے کے بعد کیا۔ جب انہوں نے پہلی صدارتی تقریر میں کہا:” انقلابی قوانین (انقلاب جسے جائز سمجھے) پہلے سے موجود قوانین جو عرصہ دراز سے نافذ ہیں اور قانونی اداروں کی جگہ لے لیں گے۔
محمد مرسی کا یہ فیصلہ اسی وقت قابل قبول ہو سکتا ہے کہ جب انقلابی قوانین بالکل شفاف اور کسی خاص ضابطہ ¿ اخلاق کے مظہر ہوگئے، لیکن مرسی کی اخوان المسلمین کے فیصلوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تحریک منتخب انداز میں آئینی اور انقلابی قوانین(یا آئین اور انقلاب کے جائز ناجائز) کے مابین گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران گردش کرتی رہی ہے اور بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون سا راستہ اس کی قوت میں اضافے کا باعث بن سکے گا۔ اخوان المسلمین دوسری مزاحمتی قوتوں کی جانب سے کیا جانے والا احتجاج اور مظاہروں کی متعدد بار مخالفت کر چکی ہے اور یہ مزاحمتی قوانین آئین کے حوالے سے اُن کا احتجاج ریکارڈ کرواتی رہی ہیں، ملک کو اب انقلاب سے آئینی استحکام کی جانب سفر طے کرنا چاہئے اور انقلابی قوانین سے مقبول عام آئینی قوانین کی بالادستی کی جانب بڑھنا چاہئے۔
اس طریقے سے اخوان المسلمین نے اپنی ساکھ گنوا دی ہے اور اس طرح قانونی بے ترتیبی اور بے یقینی کی فضاءکا آغاز ہو گیا ہے، جس کی شروعات اس وقت ہوئیں کہ جب ایک عبوری لائحہ عمل جسے ڈیزائن کیا گیا۔ مسلح افواج کی سپریم کونسل نے(سکاف) اور اسے چلایا بھی گیا۔ سکاف اور اخوان المسلمین کے تعاون سے۔ یہ لائحہ عمل بتاتا ہے کہ صدر اور پارلیمان کا انتخاب پہلے ہو گا اور اس کے بعد آئین تخلیق کیا جائے گا اور اس آئین میں اِس بات کی تشریح کی جائے گی کہ صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان کس نوع کا تعاون ہو گا اور دونوں کے اختیارات کی نوعیت کیا ہو گی۔ اگر ہم کچھ عرصہ پہلے کی بات کریں جب اس لائحہ عمل کو تیار کیا گیا تو اخوان المسلمین نے آئین پہلے کی آواز لگانے والوں کی شدت سے مخالفت کی اور اس مخالفت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مشہور زمانہ ریفرنڈم کے ذریعے آرٹیکل10کی منظوری دی جا چکی ہے، جس کی بدولت راستے کا تعین ہو گیا ہے (اس وقت سکاف نے53مزید آرٹیکلز کو اس میں شامل کر دیا) لیکن اچانک اسلامی تحریک آئین پہلے کے اصول کو اپنا رہی ہے، جس کی طویل عرصے تک مخالفت کی جاتی رہی۔ مرسی کے فرمان کا مطلب ہے کہ نئے پارلیمانی انتخابات اس وقت ہوں گے جبکہ ریفرنڈم کے ذریعے آئین کی منظوری دی جائے گی۔ جسے حال میں اخوان المسلمین کی اکثریت رکھنے والی اسمبلی نے تیار کر لیا ہے۔
محمد مرسی کے کچھ حامی مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج حسنی مبارک کے تعینات کر دہ ہیں اور وہ صدر کے حوالے سے متعصب رویہ رکھے ہوئے ہیں اور یہ حقیقت ہے عدالت کے حکم ناموں کی ساکھ بہت کم ہے اور وہ انقلاب سے پہلے کے عہد اور مبارک کے تعینات کردہ سکاف کے ممبران کے مفادات کا خیال کر رہے ہیں۔ اِس بات پر یقین کرنا اِس لئے بھی مشکل ہے کہ مصر کی اشرافیہ کے نام نہاد آزاد خیال لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ صدر مرسی کے فیصلے پر انہیں پر تنقید کرتے ہیں، کیونکہ وہ سپریم کورٹ اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان نام نہاد آزاد خیالوں کی اکثریت اخوان المسلمین پر مسلسل حملے کر رہی ہے اور ایسا وہ جمہوریت اور آزاد خیالی کے نام پر کرتی ہے، لیکن اِس کے باوجود یہ آزاد خیال جرنیلوں کو منتخب ہونے والے سیاست دانوں کے مقابلے میں ترجیح دیتی ہے، لیکن نہ تو آزاد خیال اور نہ ہی اخوان المسلمین دونوں کو اپنے دعوﺅں میں مسیحا قرار دیا جا سکتا ہے۔ مرسی کے حامیوں کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ فوراً ہی کسی پر بھی الزام تراشی شروع کر دیں کہ وہ صدر کے سیاسی اقدامات کے خلاف ہیں، انقلاب کے مخالف اور سکاف کے حامی ہیں۔
کچھ لوگوں کے لئے مرسی یقینا ہیرو ہوں گے کہ وہ جرنیلوں کو چیلنج کر رہے ہیں آئینی ڈیکلریشن گزشتہ ماہ جاری ہوئی جو کہ فوجی کونسل کو ان کے قانونی اختیارات دینے کے حوالے سے تھی، لیکن اس ڈیکلریشن پر مسلح افواج کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کے اجازت دے دی، کیونکہ اس کی بدولت سکاف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلح افواج سے متعلق معاملات کو حل کر سکتے اور ان کو دیئے جانے والے فنڈز کے اختیارات بھی اس میں شامل ہیں، جو سکاف کو حاصل ہیں اس لئے مرسی نے اس حصے کو نہیں چھیڑا۔اب مصریوں کو چاہئے کہ وہ انہیں شک کا فائدہ دیتے رہیں کم از کم سو دن انہوں نے اپنے لئے رکھے ہیں۔ اگر وہ سکاف کے حوالے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور دوبارہ انقلابی اہداف کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ان میں وہ اہداف بھی شامل ہیں جو اخوان المسلمین جو کہ اخوان المسلمین کی طاقت کے تلاش سے متعلق نہیں ہیں اور اگر وہ جمہوری حکمرانی کے خواہاں ہیں اور عسکری قیادت کے اوپر سول قیادت کا کنٹرول چاہتے ہیں تو تبھی انہیں حقیقی حصوں میں انقلابی سمجھا جائے گا، لیکن اگر اُن کا مطمع نظر صرف یہ رہا کہ اخوان المسلمین کو زیادہ طاقتور بنایا جائے، تو وہ ( محمد مرسی) اور اُن کی تحریک کو بھی حسنی مبارک کی نامانوس نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کا عکس ہی سمجھا جائے گا۔
بشکریہ”گارڈین لندن“ترجمہ:وقاص سعد