ماہِ رمضان اور اشرف المخلوقات

ماہِ رمضان اور اشرف المخلوقات
ماہِ رمضان اور اشرف المخلوقات
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماہِ رمضان کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے رحمت کا مہینہ بنا کر ان پر فرض کیا، جس طرح پہلے والے انبیاءکی امتوں پر روزے فرض کئے۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا اور اشرف المخلوقات میں ان لوگوں کے لئے بہت ہی زیادہ انعام واکرام عطا کرنے کا وعدہ کیا، جو اس کے آخری نبی اکرم پر ایمان لا کر مسلمان ہوئے۔ انسان نیک و بد کی تمیز سے بہرہ مند ہے، آگ اور پانی میں فرق کر سکتا ہے، پھر کیا اس سے کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسا عمل سرزد ہونا چاہئے، جو انسانیت کے حسن اور شرف کے منافی ہو اور جو اسے اسفل سافلین میں پہنچا دے، یعنی جس سے ہم جنسوں کے طبعی و فطری حقوق پر زد پڑے۔ خواہ ان کا تعلق ہم جنس کی جانوں سے ہو، احوال سے یا آبرﺅں سے؟ ایسا ہر فعل لازماً اجتماعی امن و راحت کے نظام میں کم یا زیادہ اختلاف کا باعث ہو گا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے اختلال انگیز افعال و حرکات سے احتراز حقیقتاً ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔
اسلام کی برتری یہ ہے کہ اس کے تمام اوصاف کی بنیاد معاشرے میں رحمت و محبت جاری و ساری رکھنے کے لئے ہے۔ وہ چاہتا ہے رحمت و محبت کے فروغ و عمومیت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ تمام افراد معاشرے کے درمیان اخوت، خلوص، ہمدردی اور یکجہتی کے روابط زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوں۔ یہ سب رحمت ہی کی کار فرمائی کے عوامل ہیں۔ غرض اسلام نے دینی عقائد و اعمال کا جو تصور قائم کیا ہے، اس کی بنیاد بھی تمام تر رحمت اور محبت پر رکھی گئی ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید کی مختلف تصریحات کے مطابق خدا اور بندوں کے درمیان بھی رشتہ محبت ہی کا ہے۔ سچی عبودیت ہے، اسی کی عبودیت، جس کے لئے معبود صرف معبود ہی نہ ہو، بلکہ محبوب بھی ہو۔ اس لئے فرمایا: اور جو لوگ ایمان والے ہیں، ان کے دِلوں میں سب سے بڑھ کر محبت و چاہت اللہ کے لئے ہوتی ہے (اے پیغمبر ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ سے واقعی محبت رکھتے ہو تو چاہئے کہ میری پیروی کرو، کیونکہ مَیں تمہیں اللہ سے محبت کی صحیح راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے.... (آل عمران31)
حب ِ رسول۔ خود رسول کی ذاتِ بابرکت سے محبت بھی اسی لئے دنیا بھر کے انسانوں پر فائق و برتر ہو گئی کہ ان کے ذریعے سے ہمیں خدا کا راستہ ملا۔ حضور کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک حقیقی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور پورے عالم انسانیت سے محبوب تر نہ ہو جاﺅں۔ رسول جو نور ہدایت لے کر آئے اس کے سوا ہدایت کا کوئی وجود نہیں۔ انسان کے لئے سب سے پہلی چیز ہدایت حق ہے اس کے بعد تمام رشتے آتے ہیں اور خود رشتوں کے ساتھ حسن و سلوک کے مختلف طریقے ان کی تکمیل و سرانجام دہی کے طریقے ہمیں اسی نورِ ہدایت سے ملے ہیں، جو رسول کے ذریعے سے ہماری زندگی میں مشعل راہ بنا اور ان پر عمل کر کے ہی انسان دوسری مخلوق سے افضل ہونے کا ثبوت دیتا ہے یہ بھی بتا دیا کہ خدائے بزرگ و برتر سے محبت کی عملی راہ خدا کے بندوں کی محبت سے ہو کر گزرتی ہے، جو شخص چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اس کو عطا کرے، اس کو چاہئے کہ رسول کی پیروی کرے اور سرکارِ مدینہ کے ارشادات کی روشنی میں خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔ محبت اور چاہت کی وجہ سے ہی دِلوں کو منور کیا جا سکتا ہے اور دِلوں کی روشنی حضور اکرم کے جاں نثاروں اور اولیائے کرام کے زرین اصولوں کو اپنا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
قرآن مجید اور احادیث میں خدا کے بندوں سے پیار کے لئے جو کچھ موجود ہے ، اس کا خاکہ مختلف طریقوں اور حوالوں سے جا بجا طریقوں سے پیش کیا جا چکا ہے،اعادہ غیر ضروری ہے، اس دنیا میں نگرانی اور دیکھ بھال کے محتاجوں کی کوئی صنف ایسی نہیں، جس کے لئے مختلف صورتوں میں انفاق کے احکام موجود نہ ہوں۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کی اعانت، بیواﺅں، مسکینوں اور اسیروں کی امداد، غلاموں کو غلامی سے آزاد کرانا، مسافروں کی خبر گیری، قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کے لئے سہارا دینا، غرض کون سی ضرورت ہے، جس کا ذکر آخری کتاب قرآن مجید میں نہیں آیا؟ واضح رہے کہ اسیروں سے مراد وہ لوگ نہیں، جو دنیا میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور جرم کی سزا بھگتنے کے لئے جیلوں میں بند ہوتے ہیں، بلکہ اسیروں سے مراد وہ لوگ ہیں، جو لوگ جنگ کرتے ہوئے پکڑے جائیں یا ماضی کی طرح کوئی پکڑ کر زبردستی لوگوں سے اپنا کام لینے لگے۔
جہاں صحیح اسلامی معاشرہ موجود ہو، اس کے تمام افراد اپنے واجبات، رہن سہن کے طریقے ، غیر مسلموں کے ساتھ برتاﺅ، کتاب و سنت کے مطابق پورے کریں، اگر ہم مسلمان صحیح معنوں میں آخری کتاب ہدایت قرآن مجید کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں، تو پھر کوئی محتاج نظر نہیں آ سکتا، جس کو کسی کی طرف حسرت بھری نظر سے دیکھنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہو۔ ارباب استطاعت کا اسلامی جذبہ خیر اور محتاج کی اسلامی خود داری اور عزتِ نفس دونوں اپنی اپنی جگہ پر قائم رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ استطاعت لوگوں کے مال میں غریبوں، محتاجوں اور حق داروں کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے، جو صاحب ِ استطاعت ادا کرتا ہے۔ اس طرح فیض یاب ہونے والے لوگ خود کو حقیر تصور نہیں کرتے ۔ یہ اسلام تھا جو آخری نبی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے لائے تھے۔ سرکارِ مدینہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر آپ کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے مسلمان دونوں جہانوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں، لیکن اشرف المخلوقات تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے بنا دیا۔ اس کے علاوہ دوسری ہزاروں مخلوق بھی دنیا میں آئی ہیں، جو انسانوں کے کام آتی ہیں۔ بے شمار مخلوق دنیا میں موجود ہیں، لیکن عام انسانوں کو ان کا پتہ بھی نہیں ہے، کچھ زمین کے اوپر ہیں، کچھ سمندروں کی تہہ میں ہیں، کچھ زمین کے اندر ہی زندہ ہیں، کچھ پہاڑوں اور ویرانوں میں زندگی گزارتی ہیں۔

مزید :

کالم -