ہم تیار ہیں

ہم تیار ہیں
ہم تیار ہیں
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب سے علامہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ وہ انقلاب کی کال کسی بھی وقت دے سکتے ہیں، عوام تیار رہیں، ہم تب سے تیار بیٹھے ہیں، نہ صرف یہ کہ ہم نے نہا دھو لیا ہے، نئے کپڑے پہن لئے ہیں، بلکہ کھانا بھی خوب پیٹ بھر کر کھا چکے ہیں کہ خدا جانے کب انقلاب کی کال آجائے اور آپا دھاپی پڑ جائے!

یہی نہیں ،بلکہ ہم نے دفتر میں چھٹی بھی بھیج دی ہے کہ جب تک انقلاب کی کال کے نتیجے میں ہمارے اندر متحرک انقلاب کا کیڑا نچلا نہیں بیٹھتا، ہم دفتر نہیں آنے کے ،اس کے ساتھ ساتھ خاکروب کو بھی ایڈوانس دے دیا ہے، دھوبی درزی سے پرانا کھاتہ صاف کرلیا ہے اور اپ پوری یکسوئی سے انقلاب پر نظر رکھے ہوئے ہیں!
اب تو ہمیںخواب بھی انقلابی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، کبھی نظر آتا ہے کہ ہمارے سر پر تاج پہنایا جا رہا ہے، تو کبھی ہم اپنے آپ کو علامہ سے حلف لیتے نظر آتے ہیں، باہر ہمارے لئے جھنڈے والی گاڑی تیار کھڑی ہے ، جدھر سے گزرتے ہیں سیلوٹ پر سیلوٹ بجنا شروع ہو جاتے ہیں، چونکہ ہمیں قطعی طور علم نہیں ہے کہ علامہ کب انقلاب کی کال دیں گے، اس لئے ایک ایک لمحہ ایک ایک صدی بن کر گزرہا ہے، وقت ہے کہ ٹھہرا ہوا ہے، اب بھی عالم یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے کالم لکھا جارہا ہے، تو دوسرے ہاتھ سے لڈو کھیل رہے ہیں تاکہ دل بہلا رہے ، مگر انقلاب کی امنگ ہمیں بے چین کئے ہوئے ہے اور کسی پل چین نہیں مل رہا ہے!
کسی نے ہمیں بتایا ہے کہ خالی ہاتھ انقلاب نہیں آیا کرتے، اس لئے ڈنڈا سوٹا بھی تیار کرلیا ہے، کیونکہ انقلاب کی کال ملتے ہی کسی بھی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، پھر ہم کس کی ماںکو ماںکہیں گے!....ہم نے تو دور دور تک پیدل چلنے کی پریکٹس بھی شروع کردی تھی، لیکن کسی نے بتایا کہ نواز شریف کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور عمران خان کا وزیرستان کی طرف امن مارچ پراڈوز پر ہوا تھا، اس لئے پیدل چلنے کی پریکٹس ترک کرکے اب ہم اس تاڑ میں ہیں کہ کس پراڈو میں گھسا جائے، ویسے علامہ کی پراڈو میں جگہ مل جائے تو کیا بات ہے، بم پروف، گولی پروف ....
ویسے ہم نے جس کسی سے بھی پوچھا ہے کہ کیا وہ بھی علامہ کی جانب سے انقلاب کی کال کے لئے تیار ہے اس سے ایک ہی ٹکا سا جواب ملا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ علامہ کے انقلاب کا مطلب کیا ہے اور چونکہ اسے انقلاب کا مطلب سمجھ نہیں آرہا، اس لئے وہ تیاری بھی نہیں کر رہا ہے، ایسے جواب سن کر ہمیں ایک طرح کی حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان لوگوں نے علامہ کی دھواں دھار انقلابی تقاریر نہ سنی ہوں، لیکن پھر ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ یہ ہمارا قومی سانحہ ہے کہ جب تک اخبارات کا راج تھا تب ہم اخبار پڑھنے کے بجائے سننے کو ترجیح دیتے تھے اور اب جب کہ چار جانب ٹی وی کا راج ہے، تو ہم سننے کے بجائے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، یعنی انقلاب کے ناقدین اس حد تک تو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے علامہ کو ٹی وی پر کچھ کہتے دیکھا تھا، لیکن علامہ نے کیا بولا تھا اس بارے میںانہیں کچھ بھی واضح نہیں ہے!
لیکن کیا کریں کہ صرف علامہ کے ناقدین ہی ان کے معتقدین کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، یعنی جب یہ واضح تھا کہ منہاج القرآن کے گرد موجود بیریئر علامہ کی صرف ایک دھمکی پر واپس آجائیں گے، اس کے باوجود لوگ 17جون2014ءکو اس قدر مشتعل کیوں ہوئے کہ گولی چلنے کا جواز پیدا ہوگیا!
خیر ہمیں تو علامہ کی جانب سے انقلاب کی کال کا انتظار ہے ، اس لئے ہر وقت اپنا موبائل فون چارج رکھتے ہیں اور کسی سے زیادہ لمبی بات بھی نہیں کرتے کہ انقلاب کی کال اب آئی کہ اب آئی!
لیکن ہمارے دوست نکے شاہ جی بات لگانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے، کہتے ہیں کہ علامہ انقلاب برپا کرنے کے لئے منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے باہر کیسے نکلیں گے، کیونکہ پاکستان واپسی پر تو وہ تب تک جہاز سے باہر نہیں آئے تھے، جب تک گورنر پنجاب نے اپنے آپ کو ان کے لئے انسانی ڈھال کے طور پر پیش نہیں کر دیا تھا!....اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ علامہ موجودہ کرپٹ اور ظالم نظام کے خلاف انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں تو نکے شاہ جی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں کہ علامہ کی ساری ایمپائر اسی کرپٹ اور ظالمانہ نظام کی پیداوار ہے، وہ کیسے اس نظام کے خاتمے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں!
ہم نے یاروں، دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگ لی ہے کہ خدا معلوم انقلاب کی راہ میں ہم پر کیا بیتے ، لیکن نکے شاہ جی یہاں بھی علیحدہ منطق نکالے بیٹھے ہیں کہ انقلاب وغیرہ کچھ نہیں آنے والا اور ہم اس کی آڑ میں اپنی تمام زیادتیوں کو معاف کروا لینا چاہتے ہیں،جو وہ کبھی نہیں کریں گے!
ویسے ایک بات ہے کہ ابھی تک شہر کے چوکوں، چوراہوں ، تھڑوں اور افطار پارٹیوں میں علامہ کے انقلاب مارچ کے بجائے عمران خان کے سونامی اور آزادی مارچ کی دھوم زیادہ ہے اور ہم نے جہاں جہاں علامہ کے انقلاب کی کال کا ایشو اٹھایا ہے، حاضرین محفل نے ہنس ہنس کر آنسو پونچھنے کے لئے ٹشو پیپر اٹھائے ہیں، ہم تو انہیں خوشی کے آنسو ہی سمجھتے ہیں ، ہو سکتا ہے کہ بہانے والے انہیں افسو س کے آنسو سمجھ کر بہا رہے ہوں!

مزید :

کالم -