شیخ رفیق احمد مرحوم
[پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل شیخ رفیق احمد مرحوم کی آٹھویں برسی 14جولائی 2015ء کو ہے]
خدا کی بستی کے مظلوم عوام کو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہیدنے خوابِ غفلت سے جگانے کے لئے جدوجہد شروع کی۔ صدیوں سے ظلم اور جبر کا شکار افتادگانِ خاک نے چیئرمین بھٹو کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سرمایہ داری جاگیرداری اور اشرافیہ کی سیاسی آمریت کے خاتمہ کے لئے جوق در جوق کاروانِ بھٹو میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ وکلا، طلباء، کسان، مزدور اور دوسرے غریب طبقات نے اس کاروان میں ہراول دستے کاکردار ادا کیا۔ عوام کی عزیمت، جرأت اور دلیری کو دیکھتے ہوئے چیئرمین بھٹو نے آمریت کے پرستاروں کو للکارنے کے لئے ہر قصبہ اور شہر میں جلسے کرنے شروع کر دئیے۔ وقت کی آمر حکومت اور اس کے حواریوں نے چیئرمین بھٹو اور ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی، مگرحکومت کسی ترغیب، لالچ اور ڈر خوف سے عوام کو چیئرمین بھٹو سے دور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ آمریت کے پرستاروں نے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ ملتان کے قریب قادرپور راں میں قاتلانہ حملہ کیا۔ پارٹی کے نوجوان رہنما امان اللہ خان بھٹو صاحب کو بچانے کے لئے حملہ آوروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ حملہ آوروں نے ان کا بازو توڑ دیا، مگر پارٹی کارکنوں نے بھٹو صاحب پر آنچ نہ آنے دی اس کے بعدڈیرہ اسماعیل خان اور سانگھڑ میں بھی بھٹو صاحب کی جان لینے کی ناپاک کوشش کی گئی۔ ان سب کارروائیوں کے باوجود چیئرمین بھٹو نے اپنی تحریک کی رفتار میں کمی نہ آنے دی۔ اگر اس وقت بھٹو صاحب اپنی جان بچانے کی خاطر یا کسی اور مصلحت کی بناء پر اپنی تحریک روک دیتے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے کارکنوں سے تاریخ یہ سوال کرتی:
سر بچا لائے ہو مگر یہ زیاں تو دیکھو
کتنا ویراں ہے تا حدِ نظر منظرِ دار
شیخ رفیق احمد اگست 1970ء میں قائدعوام چیئرمین بھٹو شہیدکے کاروان میں شامل ہوگئے اور تادمِ حیات پارٹی کے ساتھ منسلک رہے۔ انہوں نے پارٹی کے مختلف عہدوں پر اپنے فرائض پوری تندہی، سیاسی دیانتداری، دلیری اور بیباکی کے ساتھ ادا کئے۔شیخ رفیق احمد دو دسمبر1922ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور اُن دنوں راولپنڈی میں مقیم تھے۔ شیخ رفیق احمد کا خاندان لاہور شہر کے محلہ فاروق گنج (مصری شاہ ) میں کئی نسلوں سے رہ رہا تھا۔
شیخ رفیق احمد نے 1937 ء میں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1939ء میں دیال سنگھ کالج لاہور سے ایف ایس سی اور 1941ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں 1942ء میں بی اے آنرز کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے 1946 ء میں ایل ایل بی تک تعلیم مکمل کی اور لاہور میں وکالت شروع کردی۔ قیام پاکستان سے قبل ان کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔تحریک پاکستان کے دوران انہیں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دسمبر 1948ء میں کراچی میں آل پاکستان مسلم یوتھ کنونشن منعقد ہوا۔ اس میں ڈیموکریٹک یوتھ لیگ پنجاب کی طرف سے مندوبین میں شیخ رفیق احمد بھی شامل تھے۔ اس کنونشن کی صدارت مادرِ ملت مس فاطمہ جناح نے کی۔ [بحوالہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی خودنوشت داستانِ حیات، ’’رو میں ہے رخشِ عمر‘‘]
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد حکومتِ وقت کے غیرجمہوری رویوں سے دل برداشتہ ہو کر جمہوریت پسند سیاسی سوچ رکھنے والے افراد نے عوامی حقوق اور بنیادی انسانی آزادیوں کے حصول کے لئے پنجاب میں آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی کے بانیوں میں میاں افتخار الدین، میاں محمود علی قصوری، سید امیر حسین شاہ، سردار شوکت حیات، بابائے سوشلزم شیخ محمدرشید اور شیخ رفیق احمد شامل تھے۔ ان رہنماؤں نے بنگال، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے رہنماؤں سے مل کر نیشنل عوامی پارٹی تشکیل دی ۔ یہ پارٹی پاکستان کی اولین قومی سیاسی جماعت تھی، جس نے پاکستان کے عوام کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ 1965ء میں نیشنل عوامی پارٹی دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ایک گروپ بھاشانی گروپ اور دوسرا گروپ ولی خان گروپ کے نام سے مشہور ہوا۔ شیخ رفیق احمد نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان گروپ) پنجاب کے صدر مقرر ہوئے۔ اس دوران انہوں نے وکلاء کی سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کیا اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
1970 ء میں شیخ رفیق احمد پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لاہور شہر سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 1972ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ان کو صوبائی مشیر خوراک اور سوشل ویلفیئر مقرر کیا گیا ۔اپریل1972ء میں عبوری آئین کے نفاذ کے بعد ان کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا۔ مارچ1977ء کے جنرل الیکشن کے بعد انہیں پنجاب کا وزیر قانون مقرر کیا گیا اور ساتھ ہی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہیدنے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی لاہور کا صدر مقرر کیا۔ مئی 1977ء کے پُر آشوب دور میں ان کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنایا گیا۔ اپریل1985ء میں انہیں پی پی پی کا مرکز ی سیکرٹری اطلاعات اور جنوری 1989ء میں انہیں پی پی پی کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ اس حیثیت میں وہ 1997ء تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1994ء میں شیخ رفیق احمد پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ شیخ رفیق احمد نے جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان اور جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کی بازیابی کے لئے یادگار کردار ادا کیا اور پاکستان کے عوام اور سیاسی کارکن ان کی جرأت ، ہمت، استقامت اور عزم کو بڑی قدر اور تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران وہ پی پی پی پنجاب کے صدر تھے۔ اس مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کے دوران ان کے دونوں بیٹے عتیق احمد اور توثیق احمد نظر بند رہے اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ شیخ رفیق احمدکی بیٹی ڈاکٹر حمیرہ راشد ضیانے ایف ایس سی میں لاہور بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کی مگر جنرل ضیاالحق سے میڈل وصول کرنے سے انکار کردیا۔
شیخ رفیق احمد سے میرا تعلق 1970ء میں قائم ہوا جو ان کے انتقال تک قائم رہا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے شیخ رفیق احمدکی زیر قیادت سیاسی کام کرنے اور سنٹرل انفارمیشن بیورو کے ممبر کی حیثیت سے ان کی زیرِ سرپرستی فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا۔ چودہ جولائی 2007ء کو ان کا انتقال ہوا اور ان کو لاہور شہر کے تاریخی قبرستان میانی صاحب میں دفن کیا گیا۔شیخ رفیق احمدحیاتِ مستعار کے بعد بھی پی پی پی کے کارکنوں اور اپنے عقیدت مندوں کے دِلوں میں زندہ ہیں:
وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نے
جنہاں کیتیاں نیک کمایاں نے