زندگی اور موت

زندگی اور موت
 زندگی اور موت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘ (الملک آیت2) اور پھر متعدد مقامات پر قرآن ہی میں واضح کیا کہ اچھے عمل کسی پر احسان نہیں بلکہ کرنے والے ہی کی ذات کے لئے سب سے زیادہ مفید مگر جو گمراہی اختیار کرلے تو اللہ بے نیاز ہے۔ اللہ نے متنبہ کیا ۔ اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔ (الانعام ۔104) ہر انسان کی پوری زندگی مختلف مراحل، درجوں اور ادوار میں انفرادی سطح سے لے کر اجتمائی حیثیت تک ایک پیچیدہ عمل سے گزرتی ہے اور ہرقدم، موڑ اور راستے پر وہ ایک رہنمائی کا تقاضا کرتی ہے اور جو لوگ اُس ہدایت کو تسلیم کر کے اوراُس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے لگے وہ ہمیشہ کے لئے روشنی کے مسافر بن کر جیئے اور اُن کی پوری حیات کا راستہ اور منزل واضح اور متعین قرار پائے۔ اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو کسی بھی رہنمائی سے مُبرا اور بے پروا پایا وہ سدا کے لئے اندھیروں کے مکین اور گمراہی کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے رہے۔


مسلمان وہ خوش نصیب قوم ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت قرآن مجید اور اس کے آخری نبی کریمﷺ کی سیرت پاک کی صورت میں مکمل ترین رہنمائی موجود ہے جو زندگی کے ہرشعبے اور گوشے کو جامع ترین انداز میں ہدایات دیتی ہے اور صرف قواعد اور ضوابط کا مجموعہ ہی پیش نہیں کیا گیا بلکہ عملی نمونہ اور کامل ترین اُسوۂ محمد مصطفےﷺ کی پوری حیات طیبہ کی صورت میں موجود ہے۔ مگر اس سے بڑی بد نصیبی اور کیا ہوگی مسلمان قوم کی کہ وہ دوسری قوموں کو تو کیا روشنی اور ہدایت کا پیغام قولی،عملی اور تکمیلی کی صورت میں دیتی وہ خود قرآن و سنت۔ دنیا میں ہدایت کے واضح سرچشموں سے روگردانی کر گئے الا ماشااللہ کے سوا۔ اور اس بات کی جھلک گزشتہ ہفتے احمد پور شرقیہ میں ہونے والے المناک حادثے میں نظر آتی ہے جس میں اب تک دوسو سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں اور ابھی تک بہت سے لوگ شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل ہیں۔ اس دردناک واقعہ کی مکمل رپورٹ تو آتی رہے گی مگر سیدھے طریقے سے یہ پیٹرول سے بھرے ہوئے ایک آئل ٹینکر کا ٹائر پھٹنا اور قریبی کھیت میں سڑک کنارے اُلٹنا لگتاہے۔ جس میں پیٹرول رِسنا شروع ہوتا ہے تو قریبی بستی والے لوگ اس ٹینکر میں سے ’’مفت‘‘ کا تیل بھرنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک آگ لگنے اور دھماکے صورت میں قریب موجود لوگ جل کر لقمہ اجل بن گئے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہے‘‘۔ (متفق علیہ) اور حجتہ الوداع کے موقع پر حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا ’’تم پر کسی مسلمان بھائی کی جان، مال اور عزت اس گھر (بیت اللہ) سے بڑھ کر ہے ان سنہری باتوں پر عمل کرنے والوں کی زندگی کیسی روشن اور خوبصورت ہوتی ہے اس کا ذکر 1993ء میں پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلہ کے موقع پر محترم اشفاق احمد خاں(مرحوم) اور محترمہ آپا بانو قدسیہ(مرحومہ) نے طلبہ ء اور طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔’’وہ بابا بلھے شاہ کے عرس سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں فیروزپور روڈ پر مکئی کے ایکہرے بھرے لہلہاتے کھیت پر رک گئے۔ کھیت کے اندر ایک دیہاتی پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں میں کام کر رہا تھا۔ خان صاحب نے اُس دیہاتی سے کچھ بھٹے (چھلیاں) توڑ کر دینے کو کہا تو وہ دیہاتی اُن دونو ں کو کھیت میں کھڑا کر کے کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ خان صاحب اور آپا جی مکئی کے کھیت سے محظوظ ہوتے رہے تو تھوڑی دیر میں دیہاتی بھاگتا ہوا واپس آیا۔ جلدی جلدی چھلیاں ایک بوری میں ڈال کر ان کی گاڑی میں رکھ دیں تو خان صاحب نے پوچھا کہ تم نے اتنی دیر کیوں لگا دی۔ وہ بولا صاحب جی یہ کھیت میرا نہیں ہے اس کا مالک گاؤں میں تھا جب آپ نے چھلیاں مانگیں تو میں اُس مالک کی اجازت لینے گیا تھا کہ شہر سے بابوجی آئے ہیں اور چھلیاں لینا چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے اُس دیہاتی کو کہا کملے تو ہمیں ویسے ہی دے دیتا اتنی دور کیوں گیا اور تکلیف برداشت کی۔ دیہاتی بولا جی سوہنے مدینے والےﷺ فرماتے ہیں کسی کی چیز اُس کے مالک کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کرو۔‘‘
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فاتح ایران مجوسیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی نصرت کے بعد رات کو اپنے خیمے میں موجود تھے کہ ایک صحابیؓ کو ایران کے شہنشاہ،خسرو کا تاج،ہیرے،جواہرات اور موتیوں سے بھرا میدان جنگ میں ملا کہ خسرو بھی اسی جنگ میں مارا گیا تھا صحابیؓ وہ تاج جو اُس دور کا اور بلاشبہ آج کے دور کا بھی روئے زمیں کی قیمتی ترین چیزوں میں سے ایک چیز تھا، لے کر خیمے میں داخل ہوئے اور سپہ سالار اعلی کو پیشِ خدمت کیا اور جلدی سے خیمے سے باہر نکلنے لگے، ٹمٹماتے چراغ کی روشنی میں سپہ سالار اعلی فوجی کو پہچان نہ سکے تو نام پوچھا کہ صبح ساری فوج کے سامنے انعام و کرام سے نوازا جائے۔ صحابی رسولﷺ نے فرمایا میں نے جس اللہ کے لئے یہ عمل کیا ہے اُسے میرا نام پتہ ہے۔ مجھے آپ سے کوئی اجر نہیں چاہیے۔ یہ اور اُن سے کتنے ہی امانت و دیانت کے پیکر لوگوں کا خون اُن سچے باکردار اور پاکباز مسلمان پاکستانیوں کی رگوں میں تھا جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے خون اور عزت و عفت کی لازوال قربانیوں سے وطن عزیز کی بنیاد رکھی کیونکہ مقصد اور منزل واضح تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کہ ایسا خطہ ارض جس پر اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق زندگی بسر ہوگی۔ قدرت اللہ شہابؒ نے شہاب نامہ میں ایک ایسے ہی بوڑھے میاں بیوی کا ذکر بڑے ایمان افروز واقعے کی صورت میں لکھا ہے جب شہاب صاحب آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری تعینات تھے اور وہ معمارِ پاکستان ایک گدھا گاڑی پر کئی سو تولے سونا لاد کر سرکاری خزانے میں جمع کروانے آئے تھے۔

واقعہ احمد پور شرقیہ سیدھا اور صاف طور پر لالچ اور طمع کا منظر پیش کرتا ہے۔ واضح طور پر ایک شرمناک چوری دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ پاکستانی معاشرے کے اخلاق کا انفرادی اور اجتماعی دیوالیہ پن ثابت کرتا ہے۔ اس کے کئی پہلو انتہائی تشویشناک ہیں کہ لوگ جس طرح دیوانہ وار مالِ مفت پر ٹوٹ پڑے، کچھ لوگ بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے لگے،کچھ منظر کشی کرنے پر بضد دکھائی دیئے۔ ڈرائیور منع کر رہا ہے کچھ اور لوگ انفرادی سطح پر، سرکاری اور غیر سرکاری ذمہ داری سمجھتے ہوئے لوگوں کو منع کر رہے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ جو مولانا طارق جمیل صاحب اکثر دعوت و تبلیغ کے خطابات میں ایک بات بڑے درد اور دکھ سے فرماتے ہیں کہ مجھے کسی صدرِ پاکستان کی کرپشن کا کیا رونا میرا تو چپڑاسی بھی بے ایمان ہو چکا ہے۔


حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہو
ا لوگ’’ سُدھرے ‘‘نہیں حادثہ دیکھ کر
اس شعر کے مصداق ہر سیاسی جماعت، دانشور، علماء اور سول سوسائٹی نے اس واقعہ کو بھی حکومت کو ہدفِ تنقید بنانے کا سنہری موقع سمجھتے ہوئے پاکستان اور اُس کو درپیش مسائل کی فہرست گنوادی کہ پہلے معاشی ناہمواری دور کرو پھر لوگ ایسی حرکتوں سے باز آئیں گے لوگ ایک لیٹر پیٹرول کے لئے کیوں چوری کریں گے۔ جتنے پہلو بھی اس سے اخذ کیے جائیں اور اُن پر دلائل سے بات کی جائے اُس کا وزنی ہونا لازمی محسوس ہوتا ہے اور اس لحاظ سے مسئلہ کو اجاگر کرے گا مگر سیدھی اور صاف بات کو نہ سمجھنا اور مُبہم اور غیر یقینی بات کو ثابت کرنا کہاں کا علم، حکمت، وکالت یا صحافت ہے؟


پاکستان کے مسائل کی فہرست بہت طویل سہی کون سا مسئلہ سب سے بڑا اور کون ترجیحِ اول کہ اُس کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کیسے کئے جائیں؟ معاشی، تعلیمی، علوم، فنون کی کمی، انصاف، خارجہ پالیسی، داخلی سالمیت وغیرہ یا کرپشن بیرونی قرضے، یا اہل حکمران، بجلی یا پھر بڑھتی ہوئی آبادی، بے روزگاری وغیرہ۔ لیکن ان سب مسائل میں اخلاقی مسئلہ تو موجود نظر آتا ہے۔ حکومت موجودہ ہو یا گزشتہ۔ جمہوری یا فوجی آمریت ہمارے اخلاق انفرادی اور اجتمائی طور پر جس قدر پست ہوچکے ہیں اور گزشتہ تقریباََ70 برسوں میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، لالچ، خیانت،گالی گلوچ، فحش گوئی بے ادبی بڑوں کی اور نفرت چھوٹوں سے، ملاوٹ ادویات سے لے کر کھانے پینے کی تمام اشیا میں موجود ہے۔


پورے قرآن کو البقرہ سے لے کر الناس تک پڑھیں تمام اخلاق جو قرآن نے بیان کئے یا سیرت نبی آخر الزماںﷺ میں بیان ہوئے اُس کو آخرت کے دن اس کے حضور کھڑے ہونے سے جوڑا گیا ہے۔ اگر آج بھی ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کو سنوارنا چاہتے ہیں تو یہ کسی ایک حکومت، برسر اقتدار یا حزب اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر مرد وعورت، بوڑھے جوان پاکستانی کو عین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا، گھروں، سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں اخلاق پڑھانا اور سمجھانا ہوگا، کاروبار اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اس اسلامی چال چلن کو عام کرنا ہوگا اور تمام میڈیا، دینی، سماجی بہبود کے ادارے اس بُرے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے آگے بڑھیں۔ اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم بھی دیتا ہے کہ مرنے والوں کی کمزوریوں کو نمایاں نہ کیا جائے، اللہ اُن سب لوگوں کی مغفرت کرے ہمیں اُن پر تنقید سے زیادہ اس سے جو انفرادی اور اصلاح کے پہلو نکل سکتے ہیں اُن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سامنے نبی کریمﷺ کی پوری سیرت بطور کامل اُسوہ حسنہ موجود ہے ضرورت صرف حضورﷺ کی سچی، عملی اورمکمل اطاعت میں ہے جیسے حکیم اُمت علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

مزید :

کالم -