زوال پذیرعقل و دانش

زوال پذیرعقل و دانش
زوال پذیرعقل و دانش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یقین کیجیے کہ آج شاید ہم اتنی برکت سے عاری اس لیے ہیں اور شاید اپنی تمام تر غربت کے باوجود، صحابہؓ اتنے بابرکت اس لیے تھے کیونکہ ان کی ساری کی ساری عقل اور سارے کا سارا علم، دو حدوں پر جا کر ختم ہو جاتا تھا۔
ایک تو اُن کا وہ جملہ جو شروع ہی عشق سے ہوتا تھا کہ اللہ کے رسولؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور پھر اُن کی بات جس جملے پر ختم ہوتی تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں....
یہی وہ جملہ ہے جس نے صحرا کے ان پڑھ بدؤں کو صحابہ کرامؓ بنا دیا۔
اگر یہ جملہ کہنے کی صلاحیت نہ ہو، انسان کے اندر اتنی تپش نہ ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو آدھے گھنٹے کے لیے، ایک گھنٹے کے لیے، دو دن کے لیے، دس دن، دس سال کے لیے اپنے اندر رکھ سکے تو پھر وہی مزاج ہوتا ہے جو ہماری آج کی نسل کا ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس معلومات تو اس قدر زیادہ ہیں (گوگل پر اس قدر معلومات ہیں جو ایک طبعی زندگی میں پڑھنا ناممکن ہیں) لیکن اس کے باوجود عقل و دانش زوال پذیر ہے کیونکہ ہم معلومات کو صبر کے ساتھ اپنے اندر رکھ کر اس پر غور و خوض کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور اسی صبر کی غیر موجودگی نے ہمیں ناشکرا بنا دیا ہے۔
صحابہؓ کے اندر بھی یہی جذبات تھے جو آج ہم اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ میں تو اس بات پر بھی قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ آپ تمام لوگ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک بھی کوئی ایسا سوال نہیں کر سکتے، جہاں کسی صحابیؓ کی روایت کو روایت نہ کیا جا سکے۔
کسی صحابیؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اگر تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیں تو پھر ہم گھر سے کیوں نکلیں؟‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’اللہ نے تمھارے مقدر میں کچھ لکھا ہے تو یہ بھی لکھا ہے کہ تمھیں کون کون سی تو فیق دینی ہے، کون کون سے ذرائع دینے ہیں، کن لوگوں کے دل تمھارے لیے نرم، اور کن لوگوں کے دل تمھارے لیے سخت کرنے ہیں، اور یہ بھی کہ تم گھر سے کن اسباب اور وسائل کے ساتھ نکلو گے اور اس مقدر تک کیسے پہنچو گے‘‘
اب اس جواب سے اس صحابیؓ کی تو دلچسپی ختم ہو گئی، لیکن آج کے زمانے میں ہماری دلچسپی کو معاملات نے مزید آگے بڑھا دیا ہے۔
تاریخ میں ایک بہت بڑے استادِ محترم، بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ گزرے ہیں۔ آپؒ ایک جگہ نماز پڑھنے گئے، نماز سے فارغ ہو کر امام صاحب نے ان سے دعا سلام کی اور پوچھا’’بایزید رحمتہ اﷲ علیہ آپ یہاں کہاں رہ رہے ہیں؟ ‘‘
فرمایا’’ یہاں ہوں، ابھی مسجد میں آیا ہوں، پھر سفر کر کے آگے نکل جاؤں گا۔‘‘
امام صاحب نے پوچھا ’’ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا’’ ایک منٹ ذرا ٹھہرو، تمھارے پیچھے جو نماز پڑھی ہے، وہ باطل ہے، میں دوبارہ نماز ادا کروں گا‘‘
اب امام صاحب کو بڑی تکلیف ہوئی کہ میرے پیچھے پڑھی جانے والی نماز باطل کیسے ہو گئی؟
بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا ’’ میں اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتا جو یہ نہ جانتا ہو کہ معاش تو اللہ کی ذمہ داری ہے، انسان کی نہیں....‘‘
تو یہ جو نفاست کی بھی نفاست ہے، وہ عقل سے نہیں، تقویٰ سے نکلی ہے۔
پھر شفیق بلخی تھے جو ایک بہت امیر آدمی تھے اور اتنے امیر اور نفیس کہ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک بار قحط کا زمانہ تھا، یہ بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا ایک کالا حبشی غلام بازار میں ناچ رہا ہے۔ آپ کو بڑا بُرا لگا کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور یہ شخص اس طرح ناچ گا رہا ہے۔ اسے پاس بلایا اور کہا ’’سارا شہر قحط کی حالت میں ہے اور تو گلیوں میں ناچتا پھر رہا ہے؟‘‘
اس نے کہا’’ بات ہی ایسی ہے، سارا شہر تو بھوک سے مر رہا ہے لیکن مجھے کیا فکر؟ میں تو جس آقا کا غلام ہوں، اُس کے پاس بہت زیادہ اناج پڑا ہوا ہے، وہ مجھے بھوک سے مرنے نہیں دے گا......‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جس نے بلخی کو ایک فقیرسے ایک امام بنا دیا۔
اس نے سوچا ایک حبشی غلام کو اپنے آقا پر اس قدر مان، اس قدر یقین ہے کہ اس کا امیرمالک اسے بھوکا نہیں مرنے دے گا میرا مالک تو اس کے مالک سے کہیں زیادہ، سب سے زیادہ بڑا ہے، بلخی! تُو پھر کس لیے آگے کی فکر کے لیے مال جمع کرتا ہے؟‘‘
ایسی سوچ جو اللہ پر ہمارا گمان یقین اعتماد کاملیت بڑھادے ،ہے ہم میں ؟ یہ ہوگا تو انسان سکھی تہنا سیکھ لے گا ۔عقل و دانش زوال پذیرہونے سے رک جائے گی۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -