معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر14

Jul 14, 2017 | 06:38 PM

شاہد نذیر چودھری

مہاراجہ پر تاب سنگھ کے تمام درباری گردنیں موڑ موڑ کر اس چھریرے بدن کے نوجوان کو دیکھ رہے تھے جو اپنے ساتھی پہلوانوں کے حلقے میں بیٹھا تھا۔غلام پہلوان نے تھوڑی دیر پہلے ہی مہاراجہ کے چہیتے پہلوان اور رستم ہند کیکر سنگھ کو چیلنج کر دیا تھا اور ساتھ ہی ایک لاکھ روپیہ انعام کشتی ہار جانے کی صورت میں دینے کا اعلان کر دیا تھا۔
بات حیران کن تھی تبھی تو تمام درباری چہ میگوئیاں کررہے تھے کہ بھلا یہ معمولی جسم والا نوجوان گوشت اور فن کے پہاڑ کیکر سنگھ کا مقابلہ کیسے کر سکے گا؟ ادھر غلام پہلوان چیلنج دینے کے بعد بڑی بے پروائی کے ساتھ کرسی پر بیٹھا تھا۔
مہاراجہ پر تاب سنگھ خود بھی غلام پہلوان کی اس للکار پر حیران ہوا تھا۔اس نے غلام پہلوان کو اپنے سامنے بلایا اور پوچھا۔’’ اے شیر دل نوجوان تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
غلام پہلوان نے فرشی سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔
’’حضور بندہ آپ کا غلام ہے۔ نام جو چاہے رکھ لیں۔‘‘
مہاراجہ غلام پہلوان کے طرز کلام سے متاثر ہوا اور کہا۔’’بہت خوب۔ دربار کے آداب بھی جانتے ہو۔ مگر ہم نے تو سنا ہے تم نے آج تک کسی دربار کی نوکری نہیں کی پھر یہ انداز گفتگو کیسا؟‘‘

معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر13  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’حضور یہ تو آپ کا حسن نظر ہے ورنہ ہم کیا ہمارا تکلم کیا۔‘‘
مہاراجہ غلام پہلوان کے اس جواب سے خوب محظوظ ہوا اور کہا۔’’غلام پہلوان تم گفتگو اچھی کر لیتے ہو۔ کشتی بھی ایسی ہی کرو گے تو تمہیں مالا مال کر دیں گے۔‘‘
’’یہ تو حضور کی عنایت ہو گی۔‘‘ غلام پہلوان نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔’’مگر حضور ہم کسی لالچ کے بغیر کشتی لڑیں گے۔ہمارے پرکھوں نے بھی سدا یہی وطیرہ اپنایا ہے اور نصیحت کی ہے کہ لالچ اور حسد کبھی نہ کرنا ورنہ پہلوانی کا صحیح حق ادا نہ ہو سکے گا۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘مہاراجہ نے ستائشی نظروں سے غلام پہلوان کو دیکھا اور پھر اسے نظروں ہی نظروں میں تولتے ہوئے کہا۔’’غلام پہلوان!تمہارا جذبہ قابل قدر ہے کہ تم امرتسر سے ہمارے چہیتے پہلوان سے ہتھ جوڑی کرنے آئے ہو۔مگر ہمیں خدشہ ہے تم اس کے فن کی تاب نہیں لاسکوگے۔تمہارا جسم یقیناً خوبصورت ہے۔مگر کیکر سنگھ تو گوشت کا پہاڑ ہے سمجھو کہ ہاتھی ہے۔ تم اس کا مقابلہ کیسے کر پاؤ گے؟‘‘
اس وقت کیکر سنگھ مہاراجہ کے بائیں پہلو کی نشست پر براجمان تھا جو خاص طور پر اس کے بیٹھنے کے لئے بنائی گئی تھی۔غلام پہلوان نے جوالاسنگھ کے اس فیل مست کو یک نظر دیکھا اور مہاراجہ سے مخاطب ہوا۔
’’مہاراجہ آپ نے بجا فرمایا ہے۔ آپ کا کیکر سنگھ اگر ہاتھی ہے تو میرے مولا کا فضل ہے کہ جس نے مجھے شیر جتنی قوت اور حوصلہ دیا ہے۔ شیر ہاتھی سے جسامت میں چھوٹا ہونے کے باوجود اس سے مات نہیں کھاتا۔ اسی لئے تو وہ جنگل کا بادشاہ ہے۔‘‘
غلام پہلوان کی حاضر جوابی سے محفل کشت زعفران بن گئی او رکیکر سنگھ اپنی کرسی پر کسمسا کررہ گیا۔
’’غلام پہلوان ہم تمہاری ذہانت کے قائل ہو گئے ہیں۔‘‘مہاراجہ نے کہا۔’’مگر ہماری خواہش ہے کہ پہلے تم اپنا وزن بڑھاؤ اور داؤ پیچ میں گھاگ بننے کی کوشش کرو۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ تمہارا کیکر سنگھ سے مقابلہ ضرور ہو گا۔ اس کے لئے تمہیں چند ماہ کی ریاضت کا موقع دیتے ہیں۔‘‘ شاہوں کا کہا پتھر پر لکیر ہوتا تھا۔ غلام پہلوان نے دیکھا کہ مہاراجہ اسے کیکر سنگھ کے مقابلہ میں لانے سے قبل اسی ڈیل ڈول کا دیکھنا چاہتا ہے تو خاموشی سے ریاضت شروع کر دی۔
اُدھر کیکر سنگھ اپنی طاقت کے نشہ میں دھت تھا۔استاد بوٹا لاہوری بڑا رمز شناس پہلوان تھا۔ اس نے غلام پہلوان کو ایک ہی نظر میں جانچ لیا کہ یہ نوجوان ضرور کچھ کر دکھائے گا۔ اسے خدشہ ہوا کہ اگر غلام پہلوان نے کیکر سنگھ کو پچھاڑ دیا تو بڑی بدنامی ہو گی اور کیکر سنگھ کی رستمی خطرے میں پڑ جائے گی۔اس امکان کے پیش نظر استاد بوٹا رستم ہند نے کیکر سنگھ کو سمجھایا۔’’دیکھ کیکر سنگھ!بندے کو کبھی بھی اپنے مقابل پہلوان کو کمزور نہیں جاننا چاہئے۔ تمہیں اب زیادہ زور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کیکر سنگھ نے اپنے ڈنڈوں پر ہاتھ پھیرے اور کہا۔’’استاد جی آپ چنتا نہ کریں۔واگرودی۔میں اس چھو کرے کانشٹ ماردوں گا۔‘‘
’’اوئے جوالا سنگھ کے سورمے،اپنی طاقت پر اتنا گھنمڈ نہ کر۔‘‘ استاد بوٹا نے کیکر سنگھ کو ڈانٹا۔’’تم نے غور نہیں کیا جب ہندوستان میں اور بہت سے بڑے پہلوان موجود ہیں،وہ تمہاری للکار پر دبک کر بیٹھ گئے ہیں اور ایک یہ نوجوان خم ٹھونک کر بھرے دربار میں تجھے للکار گیا ہے بلکہ اپنے پلے سے ایک لاکھ روپے دینے کو تیار بیٹھا ہے۔تجھے تو فکر کرنی چاہئے۔یہ کوئی پاگل تھوڑی ہے کہ تیرے مقابلے پر آگیا ہے۔ اس میں ضرور اتنی شکتی اور فنکاری ہے جو اسے تمہارے مقابل لائی ہے۔‘‘
کیکر سنگھ نے اپنے استاد کی بات پر غور کیا اور کہا۔’’ٹھیک ہے استاد جی۔آپ کہتے ہیں تو زور کئے لیتے ہیں مگر آپ یہ وشواش رکھئے کہ میں ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمنے دوں گا۔‘‘
****
۔۔۔اور غلام پہلوان نے جب ہتھیلی پر سرسوں جمائی تو ہر کوئی دیکھتا رہ گیا۔فلک نے ایک عجیب تماشا دکھایا اور مین پر کیکر سنگھ ندامت اورخجالت کے مارے پناہ ڈھونڈتا رہ گیا۔
غلام پہلوان نے مہاراجہ کی ہدایت پر جو کڑواکسیلا گھونٹ حلق سے اتار لیا تھا اس نے غلام کے زوروں میں بے تحاشا کرنٹ دوڑا دیئے تھے۔اس نے مقررہ مدت تک ریاضت کی اور مہاراجہ کے سامنے پیش ہو گیا اور کیکر سگھ کو اکھاڑے میں اتارنے کا مطالبہ کیا۔
بالآخر18مئی 1886ء کو دنگل قرار پایا اور تمام ریاستوں میں اس مقابلہ کی تشہیر کی گئی۔دنگل کا دن جوں جوں قریب آرہا تھا طرفین میں ہیجان بڑھ رہا تھا اور شہری آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ نواحی ریاتوں اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ پیدل، گھوڑوں پر،گھوڑا گاڑیوں اور اس زمانے میں سفر کے دوسرے مروجہ وسائل کے ذریعے دیوانہ وار چلے آرہے تھے۔
تاریخ ساز کشتی کا دن آپہنچا۔لاکھوں کا مجمع تھا۔ مہاراجہ پر تاب سنگھ کے لئے ایک خصوصی چبوترہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ دوسری ریاستوں کے راجے،نواب اور شہزادے براجمان تھے۔ زبردست جوش و خروش کی فضا میں اکھاڑہ جم گیا۔ ہپلے چھوٹی جوڑیں میدان میں اتاریں جو اپنے اپنے فن اور زور پیش کرکے بڑی جوڑ کے مقابلہ کے لئے راہ ہموار کر رہی تھیں۔آخر میں کیکر سنگھ اور غلام پہلوان اکھاڑے میں اترے۔مناسک پہلوانی ادا ہوئے۔ اسی دوران مجمع میں سے کیکر سنگھ کے حمائیتوں میں سے کوئی پکارا۔
’’استاد اسے پھونک مار کر اڑا دے۔‘‘
کیکر سنگھ نے اپنا گز بھر لمبا بازو ہوا میں لہرایا جس کا مطلب تھا۔’’فکر نہ کر ایسا ہی کروں گا۔‘‘
اکھاڑے میں دونوں پہلوان یوں قدم جماکر مقابل کھڑے ہوئے جیسے شیر ببر اور فیل مست ۔۔۔ کیکر سنگھ کی پشت پر اس کا استاد محمد بوٹا لاہری رستم ہند کھڑا تھا۔ وہ خود غیظ و غضب کی تصویر نظر آرہا تھا۔ ادھر غلام پہلوان ہمیشہ کی طرح مسکراتا ہوا اکھاڑے میں اترا تو کیکر سنگھ نے خوں آشام نظروں سے اسے گھورا۔ جواباً غلام پہلوان کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوا جو کیکر سنگھ کی غضب ناکی کو مہمیز دے گئی اور وہ ڈاکراتے ہوئے بھینسے کی طرح غلام پہلوان پر حملہ آور ہوا۔غلام پہلوان نے اسے جھکائی دی اور کیکر سنگھ اپنے ہی زور میں آگے بڑھ گیا۔کیکر سنگھ نے اپنا وار خالی دیکھا اور دوسرے ہی لمحہ پلٹ کر غلام سے گتھم گتھا ہو گیا۔
دونوں پہلوان اپنے فن اور طاقت کا خوب نظارہ دکھا رہے تھے۔ کشتی کو ایک گھنٹہ ہونے کو آگیا۔کیکر سنگھ بار بار جارحانہ حملے کرتا تھا اور غلام پہلوان صبر و تحمل سے مدافعت کرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ غلام پہلوان نے زور پکڑا اور تجربہ کاررستم ہند کو چند ایسے امرتسری ہاتھ دکھائے کہ استاد کیکر سنگھ کو چھٹی کا دودھ یادآگیا۔
غلام پہلوان کو دھوبی پٹ،ڈھاک اور کسوٹا جیسے داؤ پر بڑی مہارت حاصل تھی اور وہ بڑے تیقن کے ساتھ جغادری پہلوانوں کو ان داؤ کے زور پر پچھاڑنے کا دعویٰ رکھتے تھے۔لہٰذا جب کیکر سنگھ غلام پہلوان کے کسی داؤ کو خاطر میں نہ لایا تو غلام پہلوان نے اپنا روایتی اورخطرناک داؤ دھوبی پٹ مارا تو کیکر سنگھ گیند کی طرح اکھاڑے میں لڑھک گیا۔غلام نے یہ داؤ ایک سے کئی بار آزمایا مگر کیکر سنگھ ہر بار خم ٹھونک کر پہلے سے غضبناک ہو کر سامنے آجاتا۔ایک بار تو غلام پہلوان نے اسے ’’کسوٹا‘‘ دے مارا اور گرانڈیل کیکر سنگھ کو یوں لگا جیسے کسی نے زمین پاؤں تلے سے کھینچ لی اور وہ گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے کی طرح لڑھک کر رہ گیا۔ غلام پہلوان نے تین بار کسوٹا مارا اور کیکر سنگھ کے کس بل نکال دیئے لیکن آفرین استاد بوٹا پہلوان کاتجربہ کارشاگرد ہربار منہ کے بل گر کر بھی بچتا رہا اور غلام پہلوان سے گتھم گتھا ہوتا رہا۔
کشتی طویل ہو گئی لیکن یہ کشتی اتنی محظوظ کن تھی کہ تماشائی اکتاہٹ کا شکارہنے کی بجائے پر جوش ہوتے گئے۔دونوں پہلوانوں نے بھی شاید یہ سوچ لیا تھا کہ آج وہ اس کشتی کو یاد گار بنا کر چھوڑیں گے۔دو گھنٹے کی صبر آزما معرکہ آرائی کے بعد غلام پہلوان نے اچانک پھر ’’کسوٹا‘‘ مارا اور اب کی بار رستم ہند سنبھل نہ سکا اور سات من وزنی کیکر سنگھ اکھاڑے میں اس قدر اوپر اچھلا کہ نیچے گرتے ہی چاروں شانے چت پڑا تھا۔(جاری ہے)

معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں