آگاہی کے ذریعہ ذہنی بیماری آرٹ پر قابو پایا جا سکتا ہے : ڈاکٹر علی احسن

آگاہی کے ذریعہ ذہنی بیماری آرٹ پر قابو پایا جا سکتا ہے : ڈاکٹر علی احسن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پشاور(سٹی رپورٹر)آگاہی کے ذریعے ذہنی بیماری آٹ ازم پر قابو پایا جاسکتا ہے والدین ، خصوصاً ماؤں اور اساتذہ میں آگاہی پھیلا کر آٹ ازم جیسی ذہنی بیماری پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر علی احسن مفتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیاانکا کہنا تھا کہ ماہر نفسیات نے کہ آٹ ازم ایک ایسی اعصابی معذوری ہے جو انسان کے اطلاع پر عمل کرنے کی صلاحیت سماجی میل جول اور اظہار خیال کی مہارتوں کو متاثر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آٹ ازم کا شکار بچے دیگر لوگوں کو نہیں سمجھ سکتے اور ان سے رابطہ نہیں رکھتے تاہم تعلیم اور تربیت کے ذریعے ایسے بچوں کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ خود ایسی کیفیت اور حالات سے نبردازما ہو سکیں۔ آٹ ازم کے اثرات بچے کی ابتدائی تین سالہ زندگی میں واضح ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماری دماغ کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے جس سے بچے کی سماجی رابطے کی صلاحیتں متاثر ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آٹ ازم کی مختلف اقسام میں جیسے ہلکا، درمیانہ، شدید وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ ایک بچہ کی اپنے کنبہ کے افراد اور اساتذہ سے رابطہ میں کمی ہے، سماجی رابطہ کا فقدان ہے، جذباتی اظہارمیں کمی ہے اوراگر بچہ غیر مانوس ماحول میں اچھے طرز عمل کا مظاہر ہ نہیں کرتا تو آٹ ازم کی تشخیص کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔ ڈاکٹر علی احسن مفتی نے کہا کہ ایسے بچوں کی کیفیت کی طبی علامات میں رویہ کی بے ضابطگی اور دماغی بے ضابطگی شامل ہیں مختلف تیکنیک اورجانچنے والے آلات کے ذریعے ایسی علامات کا نتیجہ نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہ کہ ہر سال 2اپریل کو عالمی آٹ ازم کا دن منایا جاتا ہے ۔یہ دن پوری دنیا میں آٹ ازم کیلئے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کو موقعہ فراہم کرتا ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں، تحقیق، تشخیص اور علاج پر سوچیں اور ان سب کیلئے جو آٹ ازم کا شکار ہیں کام کریں۔انہو ں نے کہا کہ اس سال اقوام متحدہ نے گیارواں عالمی آٹ ازم آگاہی کا دن منایا جس کا محوراس بیماری کا شکار لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ آٹ ازم کا شکار لڑکیاں اور خواتین عالمی قوانین کے مطابق اپنے حقوق کا استعمال کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ آٹ ازم کا شکار پاکستانی بچوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیں تاہم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر 68بچوں میں سے ایک بچہ آٹ ازم کا شکار ہے اور یہ اعداد و شمار 2013کے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالات مختلف ہونگے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں آٹ ازم کا شکار بچوں کیلئے سہولیتں میسر ہیں لیکن پشاور میں ایسا کوئی ادارہ نہیں۔انہو ں نے مزید کہا کہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مخلص مینٹل ہیلتھ ورکروں کا ایک گروپ بنایا جائے۔ آٹ ازم کے چیلنج کا مقابلہ صرف ماہر نفسیات کے بس کی بات نہیں۔ معاشرے کے دیگر مکا تیب فکر ، والدین، اساتذہ اور مخلص مینٹل ہیلتھ ورکروں کو آگے آناہوگا