پاکستان کی وہ عدالت جہاں قیدیوں سے بھی رشوت وصول کی جانے لگی، بدلے میں کیا سہولیات دی جاتی ہیں؟ ایسی خبرآگئی کہ چیف جسٹس بھی حیران رہ جائیں گے

پاکستان کی وہ عدالت جہاں قیدیوں سے بھی رشوت وصول کی جانے لگی، بدلے میں کیا ...
پاکستان کی وہ عدالت جہاں قیدیوں سے بھی رشوت وصول کی جانے لگی، بدلے میں کیا سہولیات دی جاتی ہیں؟ ایسی خبرآگئی کہ چیف جسٹس بھی حیران رہ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(ویب ڈیسک)سٹی کورٹ میں رقم لے کر قیدیوں سے ملاقاتیں کرائی جانے لگیں۔

سٹی کورٹ میں رقم لے کر قیدیوں سے ملاقاتیں کرائی جا رہی ہیں، سٹی کورٹ کے احاطے اور عدالتوں کے برآمدوں میں من پسند جگہ پر قیدیوں سے ملاقات کرنے پر جھگڑے روزانہ کا معمول بن گئے ہیں معمولی جھگڑے، تلخ کلامی قیدیوں اور ملاقاتیوں کے مابین کسی بھی وقت بڑے واقعے کا سبب بن سکتے ہیں جیل حکام روزانہ600 کے قریب قیدیوں کو پیشی کے لیے سٹی کورٹ بھیجتے ہیں۔

اسی طرح چند قیدیوں کے علاوہ دیگر تمام قیدیوں کی ملاقات کرنے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے ایک قیدی سے ملاقات کے لیے اہل خانہ کے 6 سے 8 افراد ملاقات کرتے ہیں اس طرح 3 ہزار ملاقاتی روزانہ سٹی کورٹ آتے ہیں ہر قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے من پسند جگہ کا تعین کرتا ہے اگر من پسند جگہ نہ ملے یا پہلے ہی اس جگہ پر دوسرے قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات کررہے ہوں تو تلخ کلامی اور جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ایف بلاک میں واقع دور دراز سے آنے والے سائلین کے بیٹھنے کے لیے شیڈ مختص ہے لیکن اس شیڈ میں قیدیوں کو بٹھایا جاتا ہے اور شام تک غیرقانونی ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

گزشتہ روز بھی معمول کے مطابق قیدیوں کی ملاقات کاسلسلہ جاری تھا اسی اثنا من پسند جگہ پر بیٹھنے کے لیے قیدی نے دوسری قیدی کے اہل خانہ جو کہ پہلے ہی وہاں بیٹھے ہوئے تھے قیدی اور خاتون کے مابین تلخ کلامی ہوئی جس پر قیدی نے خاتون کو تھپڑ مارے اور دیکھتے ہی دیکھتے جھگڑا شروع ہوگیا ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار تماشا دیکھتے رہ گئے خاتون سیخ پا ہوکر آپے سے باہر ہوگئی تھی پولیس اہلکار کچھ نہ کرسکے تاہم معاملے کو سلجھانے کیلیے دوسرے قیدیوں نے مداخلت کی معاملہ طول پکڑتا تو سنگین نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔کئی بار قیدیوں پر سٹی کورٹ میں ملاقات پر پابند عائد کی گئی لیکن معاملات جوں کے توں ہیں قیدیوں اور ملاقاتیوں کی بھرمار سے کئی گھنٹوں کی ملاقات کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا سبب بن سکتی ہے۔

قیدیوں کی جیل کے علاوہ ملاقات کرانا غیرقانونی اور خطرناک ہے، جیل قوانین کے مطابق قیدیوں کی ملاقات صرف جیل میں کرائی جاسکتی ہے جہاں ملاقاتی کے کوائف کا اندارج لازمی ہے تاکہ جیل حکام کو قیدی سے ملاقات کرنے والے اور قیدی کے معاملات سے آگاہی ہوسکے جیل کے علاوہ تمام ملاقاتیں غیرقانونی ہیں جیل حکام قیدیوں کو عدالتوں میں پیشی کے لیے بھیجتے ہیں۔حوالات انچارج کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ قیدی کو عدالت میں پیش کر کے فوری واپس جیل بھیج دیں قیدیوں کو ملاقات کے لیے ان کی مرضی کے مطابق من پسند جگہوں پر بٹھانا غیرقانونی ہے، سیکڑوں قیدیوں کی ملاقات روزانہ کرائی جارہی ہے۔

جیل سے لائے گئے سیکڑوں قیدیوں کو عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا جاتا انھیں صرف ملاقات کی غرض سے سٹی کورٹ لایا جاتا ہے جیل حکام قیدیوں کوعدالتی پی او آرڈر کے تحت پیشی کے لیے عدالتوں میں بھیجتی ہے ،صبح سے ہی قیدیوں کو سٹی کورٹ کے احاطے میں بٹھاکر ملاقاتیں شروع کرا دی جاتی ہیں، پولیس اہلکار قیدیوں کے ریمانڈ پیپر پر اگلی تاریخ کا اندارج کراکر لے آتے ہیں۔