صدر محمد مرسی کی شہادت،عالمی ضمیر اور اُمت ِ مسلمہ(3)

صدر محمد مرسی کی شہادت،عالمی ضمیر اور اُمت ِ مسلمہ(3)
 صدر محمد مرسی کی شہادت،عالمی ضمیر اور اُمت ِ مسلمہ(3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب ڈاکٹر محمد مرسی صدرمنتخب ہوئے تو اس وقت فوج کے78سالہ سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی 15سال کی توسیع ملازمت لے چکے تھے، اور مزید کے لئے سازشیں کر رہے تھے۔ جنرل طنطاوی کو ہٹا کر صدر مرسی نے جنرل عبدالسیسی کو 12اگست2012ءکو مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام سے وفاداری کو( جو دستور کا حصہ تھا) اور مصر کی خودانحصاری اور آزادی کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ سادگی کو عملاً اختیار کیا۔ پہلے دن سے صدرمملکت اور ان کی پوری ٹیم نے سرکاری پروٹوکول کو ترک کرکے عوام کے ساتھ برابری کا رویہ اختیار کیا۔

صدرمرسی کی بہن شدید بیمار تھیں، لیکن ان کو علاج کے لئے باہر نہیں بھیجا، اور قاہرہ ہی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہیں جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ صدر مرسی نے مقتدر طبقات کے امتیازی اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی، جس پر انہیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صرف یہی نہیں،بلکہ مفادپرست عناصر نے ماضی میں حکمرانی کا فائدہ ا±ٹھانے والے، نیز لبرل اور سیکولر حلقوں کو اسلام کا ہوّا دکھا کر مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کرنے کے لئے سارے وسائل لگادیے۔ صدافسوس کہ اس میں روایتی مذہبی عناصر، اور سلفی تحریک کی قیادت بھی شامل ہوگئی۔


مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے کوششیں
صدرمرسی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ غزہ اور مغربی فلسطین پر جو پابندیاں مصر کی حکومت نے لگائی ہوئی تھیں اور رفح کی جو سرحد بند کی ہوئی تھی، اسے فوراً کھول دیا۔ حماس پر اسرائیل نے جو زندگی تنگ کی ہوئی تھی، اس کی تلافی کے لئے مو¿ثر اقدام کیے اور فلسطین کے مسئلے کو مصر کی اوّلین ترجیح قرار دیا، حتیٰ کہ ستمبر 2012ء میں صدر مرسی نے اقوامِ متحدہ میں جو خطاب کیا اس میں سب سے پہلے اور نہایت جان دار الفاظ میں مسئلہ فلسطین پیش کیا۔

اس کے حل کا مطالبہ اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ تصادم سے بچنے کے لئے مرسی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس امر کا بھی اعلان کردیا تھا کہ مصر کے ماضی میں کیے گئے تمام عالمی معاہدات کا احترام کیا جائے گا۔ حماس کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کے عوام پر زندگی تنگ کردی تھی، صدرمرسی نے انھیں اس عذاب سے فوری نجات دلائی اور نقل و حرکت اور تجارت کی راہیں ہموار اور کشادہ کیں۔

القدس اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطین کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی کھل کر تائید و حمایت کی، جو مصر کے سابق صدر انورالسادات اور صدر حسنی مبارک کی حکومتوں کی شرم ناک اسرائیل نواز چالوں کے برعکس 100فیصد معکوس تبدیلی (reversal) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ: ”ہم نے مرسی حکومت سے معاملہ طے کرنے اور سابقہ مصری حکومت سے جو بندوبست کیا ہوا تھا، اس پر تعاون کے لئے ہرکوشش کی، لیکن مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کسی انتظام پر مرسی حکومت تیار نہ ہوئی اور پھر ہماری ساری کوشش اس حکومت سے نجات پر مرکوز ہوگئی“۔


یہی کوشش روس، امریکہ اور یورپی ممالک کی تھی اور بدقسمتی سے یہی رویہ خود مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے اختیار کیا۔ حتیٰ کہ مرسی حکومت کے خلاف بغاوت کی مالی اعانت اور پشت پناہی کے لئے چندعرب ممالک نے مصر کے غاصب حکمران، جنرل سیسی کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ تھے وہ حالات، جن میں مرسی حکومت نے ایک سال اور تین دن گزارے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان عناصر نے نیا دستور بننے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، عدلیہ نے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالیں، اور عسکری قوتوں نے سول حکومت کو غیرمو¿ ثر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

پھر نام نہاد عوامی بغاوت کے تانے بانے ب±نے گئے اور وہ سب عناصر جو ماضی کی حکومتوں سے فائدہ ا±ٹھاتے رہے یا جو نظریاتی طور پر اسلامی قوتوں کے مخالف تھے، سب کو مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ ان تمام حالات میں حکومت کا ایک سال چلنا بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ مخالفت کے اس پورے طوفان اور میڈیا کی یلغار کے باوجود یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مرسی حکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی،جس کا اعتراف18جون 2019ءکو الجزیرہ ٹی وی پہ نشر کیے جانے والے تعزیتی (obituary) پروگرام میں ان الفاظ میں کیا گیا: ”ڈاکٹر محمدمرسی کا ایوانِ صدارت میں جو وقت گزرا، اس میں ان کی شہرت اور عزت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور ان کے لئے عوامی پسندیدگی کا اشاریہ60اور55 فیصد کے درمیان رہا“۔


واضح رہے کہ اس ایک سال میں دو بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ 3جولائی2013ءکو فوج اور نام نہاد عوامی مظاہروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پھر14اگست2013ءکو صدر مرسی کی تائید اور فوجی اقتدار کے خلاف جو عظیم عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا، اس کے شرکا کو خود کار رائفلوں کی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا اور فوجی گاڑیوں تلے کچل دیا گیا۔ اخوان نے2600 سے زائد شہدا کی فہرست جاری کی۔ ہزاروں زخمی علاج معالجے کے لئے ترستے رہے۔یوں جنرل سیسی نے اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ایک آمرانہ دستور ملک پر مسلط کر دیا،اور اب جنرل سیسی کو2030 ءتک صدر رکھنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔


مرسی صاحب کے مخالفین کا انجام
یہ سب اپنی جگہ، مگر قدرت کے انتقام کا بھی اپنا ہی نظام ہے۔ بہت سے سیکولر اور جمہوریت پسند عناصر جو اخوان دشمنی میں فوجی سازشوں کے آلہ کار بنے اور جنہوں نے3جولائی2013ءکی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی، وہ خود بھی بہت جلد حکومت کی دست درازیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد داخل ِ زندان کی گئی اور اخوان کے قیدیوں کے ساتھ اب وہ بھی جنرل السیسی کے قیدی ہیں۔ نیز ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اخوانیوں کی طرح ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ آج صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔

ایمن نُور جو غیراخوانی حزبِ اختلاف کے قائدہیں، انھوں نے بیرونِ مصر سے کہا ہے: مرسی بلاشبہہ شہید ہوئے اور انھیں سوچ سمجھ کر مارا گیا ہے....مَیں اپنی اور دُنیاکے تمام آزاد لوگوں کی طرف سے آزادی کے راستے کے ایک عظیم معمار (great striver)کی موت پرغم ودکھ کااظہارکرتاہوں۔ [الجزیرہ،19جون 2019ء] (جاری ہے)


صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی ایک سخت ناقدمونا الطحاوی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں: یہ ہے وہ کچھ جوعبدالفتاح السیسی نے حاصل کیا۔جولائی2013ءسے (جب مرسی کی حکومت کاتختہ ا±لٹاگیا،اور) جنوری2016ئ(جب مصری پارلیمان بحال ہوئی) کے دوران21ہزار سے 41ہزار کے درمیان لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر اب کالعدم اخوان المسلمون کے حامی تھے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق ان میں ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے، جو لبرل اور سیکولر (اور اخوان مخالف تحریک میں) سرگرم تھے۔

اس کے بعد سے سزاے موت کے اعلانات کی تکرار ہے، جس پر عمل ہو رہا ہے۔ غیرقانونی اور غیرعدالتی اغوا اور قتل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے معاشرے میں اختلاف راے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ایک طرف اخوان کو صفحہ ہستی ہی سے مٹانے کا اہتمام ہورہا ہے، دوسری طرف ہر شکل میں، ہراختلافی راے اور ہرمدمقابل قوت کو دبانے پر بھی توجہ مرکوز ہے۔[دی نیویارک ٹائمز،18جون2019ئ
مگر اب اظہارِ حقیقت کرنے کا فائدہ؟


صبح دَم کوئی اگر بالاسے بام آیا تو کیا
مختصر یہ کہ جو عناصر اخوان المسلمون کے خلاف میدان میں لائے گئے تھے، خود وہ بھی موجودہ فوجی استبدادی حکومت کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب اخوان اور ان کے مخالف سیکولر عناصر، دونوںمصری عقوبت خانوں میں یا مصر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


واضح رہے کہ صدر ڈاکٹر محمدمرسی کے زمانے میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان سے پہلے صدر حسنی مبارک کے دور میں جنھیں سیاسی بنیادوں پر قید کیا گیا تھا، صدر مرسی نے ان کے لئے بھی جیل کے دروازے کھول دیئے تھے، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کیا ہے، اور یہ ان کے اوّلین اقدام میں سے ایک تھا۔


اخوان المسلمون کا ’جرم‘
اخوان کو جس ’جرم‘ کی سزا دی گئی ہے، وہ اسلامی اور جمہوری اقدار سے ان کی وفاداری اور ہرقیمت پر مصر کے دستور کو اسلام، جمہوریت اور اجتماعی فلاح کی بنیاد بنانے، منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل اور تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مصر کی قومی خودمختاری اور مسئلہ فلسطین کو انصاف، تاریخی اور زمینی حقائق، اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر مستقل حل، اور فلسطینی سرزمین اور الاقصیٰ کو اسرائیلی قبضے سے نکالنے کے لئے پ±رعزم ہونا اور ڈٹ جانا ہے۔

عرب اور اسلامی د±نیا کے مسائل کا مل جل کر اور اپنے وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے حل اور د±نیا میں ایک مبنی برانصاف معاشی نظام کا قیام ہے جس میں دولت چند ممالک اور چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو اور وسائل تمام نسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے، غربت کو ختم کرنے اور سماجی فلاح کے لئے استعمال ہوں۔اس سلسلے میں صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی تقاریر بہت واضح ہیں اور ان تمام نکات کا جامع اور مو¿ثر استحضار ان کی اس یادگار تقریر میں موجود ہے، جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر2012ءمیں انہوں نے کی تھی (یہ تقریر یوٹیوب پر آج بھی سنی جاسکتی ہے)۔


صدر مرسی کی حکومت نے پہلے دن سے تہذیبوں، مذاہب اور ملکوں کے درمیان تصادم کے بجاے ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر مکالمے اور بقاے باہمی کا تصور پیش کیا،اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو فکری اور تہذیبی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔ حضور پاک کی ذات بابرکات اور اسلام کی تعلیمات پر جو رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کے عالمی احتجاج کی مکمل تائید کی اور اقوامِ متحدہ میں برملا اعلان کیا کہ اگر دُنیا ہمارے نبی، ہمارے دین اور ہماری اقدار کا احترام نہیں کرے گی، تو ہم سے اپنی تہذیب و ثقافت کے احترام کی توقع نہ رکھے۔

سب کے لئے سلامتی اور آشتی کا راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سب مل جل کر تمام انسانوں، تمام علاقوں اور تمام تہذیبوں کا برابری کی بنیاد پر احترام کریں۔ سب کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی پیش کاری اور اختلاف، علمی حدود کے اندر ہو، اور کسی کو بھی نفرت کی آگ بھڑکانے اور دوسروں کی تحقیر اور انہیں مشتعل (provocation) کرنے کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہو۔ قومی اور بین الاقوامی، ہردائرے کی کچھ اخلاقی حدود ہیں، جن کا احترام ضروری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے عالمی امن اور تعاون پروان چڑھ سکتا ہے۔


عالمی استعماری قوتیں ہوں یا وہ قومی اور مقامی عناصر، جن کے مفادات پر مندرجہ بالا پالیسی کے خطوطِ کار سے ضرب پڑتی ہے، وہ اخوان اور دوسری اسلامی تحریکات کا راستہ روکنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیںاور ’سیاسی اسلام‘ ، ’اسلامی انتہاپسندی‘ اور ’اسلامی ٹیررازم‘ کے نام پر اسلام اور اسلامی تہذیب کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہی خطرناک کھیل ہے جو مصر میں کھیلتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ محض قوت اور جبرکے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی لہر کو روکا جاسکتا ہے۔


اخوان المسلمون محض ایک تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک تصور اور نظریہ، ایک پیغام اور نظامِ حیات ہے، جو ایک طرف انسان کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے، تو دوسری طرف ربّ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کی تشکیل، خیروفلاح، عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور تعاون اور اخوت کی بنیادوں پر کرنا چاہتا ہے۔ افراد کو قیدوبند اور قتل و غارت گری کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن افکار اور نظریات کو تیروتفنگ اور جبرواستبداد سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔

مصر میں اخوان کو گذشتہ 80سال میں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے ظلم و استبداد کے باوجود اخوان ایک قوت ہیں اوران شا اللہ رہیں گے، اس لئے کہ:


اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا ،جتنا کہ دبا دیں گے
حسن البنا، عبدالقادر عودہ، سیّد قطب اور ڈاکٹر محمد مرسی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں اور خود کو فراعنہ کے فرزند قرار دینے والوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔کوئی اسرائیل سے شکست کھا کر ندامت کی موت مرا، کوئی اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اور کوئی جیل اور ہسپتال کے درمیان اِیڑیاں رگڑتا رہا ہے:


پس عبرت حاصل کرو اے دیدئہ بینا رکھنے والو!
(الحشر 59 : 2)
قاہرہ میں روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کی نامہ نگار سلمہ اسلام،24جون2019ءکو صدرمرسی کی وفات اور اخوان پر پابندی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے قاہرہ کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں جبرواستبداد کی گرفت ہے، اور وہ ماحول سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:


قاہرہ کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بے چین نظر آتے ہیں۔ اگر کسی سے سیاست بالخصوص حساس یا ممنوع موضوعات، یعنی اخوان المسلمون کے بارے میں راے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب میں صرف بے چین نظریں دکھائی دیتی ہیں۔ وسطی قاہرہ میں سیّدہ زینب کے قرب میں، جب کوئی بھی فرد مرسی کی موت کے بارے میں اپنی راے دینے پر راضی نہ ہوا تو ایک شخص نے جو بظاہر 40برس کا لگتا تھا، دوٹوک انداز میں کہا:
”ہم اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی“۔


اپوزیشن رہنما، مصر کے تیسرے صدر محمدانور السادات کے بھتیجے نے [مرسی کی شہادت پر] کہا: ’اگرچہ اخوان المسلمون، حکومت کی نظر میں یقینا ’دشمن نمبر1‘ ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اخوان المسلمون ایک نظریہ ہے، اور نظریے کے طور پر یہ کبھی نہیں مرسکے گی‘۔
کلیرمونٹ کے اسکرپس کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر سومٹ پاہاوا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ :


مرسی کی موت کو اخوان المسلمون کی قیادت اپنے وجود کو ایک شہید کے طور پر نئی زندگی بخشنے کے لئے استعمال کرے گی....اخوان کے رہنما یہ توقع رکھتے ہیں کہ مرسی کی موت مصری عوام کے دلوں میں زیادہ ہمدردی پیدا کرے گی۔ اس لئے بھی کہ عوام2013ءکے مقابلے میں آج حکومتی دباﺅ کے نتیجے میں زیادہ بے حال ہیں اور روزانہ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں۔ 2013ءمیں مرسی کی گرفتاری کے وقت اتنا زیادہ اشتعال نہیں تھا کہ جس کا اب مستقبل میں امکان ہے۔ [لاس اینجلس ٹائمز، 24جون2019ئ]


امریکہ کے مشہور صحافی اور کالم نگار ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst) نے وہاں کے جریدے Middle East Eye (25جون 2019ئ) میں اخوان کے ایک مخالف اور سابق صدارتی ا±میدوار ایمن نُور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
مرسی کی موت جس طرح واقع ہوئی ہے، اس سے بڑے پیمانے پر حکومت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دراصل مرسی کو چھے سال مسلسل ایک عمل کے ذریعے موت کے گھاٹ ا±تارا گیا ہے(Killed slowly over six years)اور حکومت کو اس کی پوری ذمہ داری ا±ٹھانی پڑے گی اور جواب دہی کرنا ہوگی۔


مرسی حکومت پر تنقید کی حقیقت
پروفیسر عبداللہ الاریان الجزیرہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’ڈاکٹر محمد مرسی: ایک مصری المیہ‘ میں مرسی حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے ساتھ بڑے مو¿ثرانداز میں ان عوامل کی بھی نشاندہی کرتے ہیں، جن کا مرسی حکومت کو مقابلہ کرنا پڑا اور جو گمبھیر مسائل کسی بھی حکومت کے لئے ناقابل ِ تسخیر تھے:
تاہم،جو چیز مرسی کے دورِ اقتدار کے ایک متزلزل سال میں ان کے سخت ترین ناقد سمجھنے میں ناکام ہوگئے،درحقیقت وہ تشکیلی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں تھیں، جو مصر کے ان انقلابیوں کی صفوں میں سے کسی بھی شخصیت کو ناکامی کی بدنصیبی سے دوچار کر دیتے۔


مرسی کے بدقسمت دورِ صدارت کے اکثر تنقیدی جائزوں میں سے ا±ن چند در چند عوامل و عناصر کا ذکر غائب تھا، جو مصر کی انقلابی تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے یکسو تھے (مثال کے طور:)سابقہ[حسنی مبارک کی ا?مرانہ] حکومت کے طاقت ور بیوروکریٹ جنھوں نے [مرسی کی] صدارتی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا، محدود طبقے کی حکومت سے متعلقہ وہ لوگ کہ جنھوں نے عوامی بے اطمینانی کو بڑھاوا دینے کے لئے توانائی کی کمی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، ایک ایسی سیاسی حزبِ مخالف جس نے جب دیکھا کہ وہ مرسی کو یا ان کی جماعت کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکے، تو انہوں نے مریضانہ ذہنیت کے ساتھ تخریبی کردار ادا کرنا شروع کردیا، وہ غیرملکی حکومتیں کہ جنھوں نے جوابی [فوجی] انقلاب کی مالی مدد کی، اور بلاشبہہ مصر کی مسلح افواج۔

یہ سب، انقلابی تبدیلی کے عمل کے دوران زیادہ تر مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہے۔
اس پس منظر میں کوئی بھی، یقینا مرسی کی قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے، کلیدی فیصلوں کا ان کی طرف سے مناسب طور پر لوگوں تک ابلاغ کا نہ ہونا، اور پھر یہ عدم صلاحیت کہ وہ ایک وسیع تر انقلابی اتحاد نہ تشکیل دے سکے۔ تاہم، اس یلغار کے باوجود، اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ حزبِ مخالف کی کوئی بھی شخصیت کامیاب ہو سکتی۔


اس گفتگو سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
1- صدر مرسی اور ان کی حکومت کو جن حالات سے سابقہ تھا، وہ غیرمعمولی تھے اور اندرونی اور بیرونی مخالف قوتیں اور پورا نظام ان کے خلاف صف آرا تھا۔ ا±نھوں نے بڑی حکمت اور محنت سے راستہ نکالنے کی کوشش کی، لیکن فوج،خفیہ ایجنسیاں، انتظامیہ،عدلیہ، مفادپرست اشرافیہ اور لبرل جمہوری اور سیکولر قوتوں کے گٹھ جوڑ اور بیرونی طاقتوںخصوصیت سے اسرائیل، امریکہ اور چند عرب ممالک کی مشترکہ مزاحمت اور مخالفت نے صدرمرسی کی تعمیری اور پایدار کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے 19 سال میں پہلی بار ایک حقیقی جمہوری انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کا تختہ ا±لٹ کر پھر فوجی آمریت کا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔


2- اخوان کے لئے ایک سالہ اقتدار بلاشبہہ ایک نیا تجربہ تھا، مگر آمریت، فوجی حکمرانی، ریاستی جبر، قیدوبند، ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننا ان کا پہلا تجربہ نہیں۔ وہ پہلے دن سے اور خصوصیت سے گذشتہ80برسوں سے انہی حالات سے گزر رہے تھے اور الحمدللہ، ہر دور میں اور ہرحال میں، ہر آزمائش میں وہ ثابت قدم رہے۔ انہوں نے قربانیوں اور استقامت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں دعوتِ اسلامی اور اقامت ِ دین کی ہمہ گیر جدوجہد علمی، تربیتی، اصلاحی، تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی، غرض ہر میدان میں خدمات انجام دی۔

پھر ہرقسم کے حالات میں اپنے لئے راستہ بنانے کی تابناک مثالیں قائم کیں۔ ہمیں یقین ہے اور یہی اللہ کا وعدہ ہے کہ جب اس کے بندے خلوص، دیانت، حکمت اور استقامت سے اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اس کے فرشتے شریک ِ سفر بنتے ہیں اور بند دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد اور تاریخ کی شہادت ہے کہ:
اِنَّ الَّذِ??نَ قَال±و?ا رَبّ±نَا اللہ± ث±مَّ اس??تَقَام±و?ا تَ?تَنَزَّل± عَلَ??ہِم± ال?مَلٰ???ِ?َ?± اَلَّا تَخَاف±و?ا وَلَا تَح?زَن±و?ا وَاَب?شِر±و?ا بِال?جَنَّ?ِ الَّتِ?? ?±ن?ت±م? ت±و?عَد±و?نَ?۰3(حم السجدہ1۴ : ۰3)


جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا ا±ن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ا±ن سے کہتے ہیں کہ ”نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاﺅ ا±س جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے“۔


3- اخوان المسلمون محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے، ایک دینی تحریک اور نظریاتی جماعت ہے،جو عقیدے، عبادت اور اخلاق و تزکیے سے لے کر انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو کو ایمان،اخلاق، حق اور انصاف کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ایسی نظریاتی تحریکات کو محض قوت اور جبر سے اور محض سیاسی انتقام اور تشدد اور عقوبت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات سیکولر نظریاتی تحریکوں کے بارے میں بھی سچ ہے، لیکن اس کی اعلیٰ ترین مثال عقیدہ، اخلاق اور دین پر مبنی تحریک اخوان المسلمون اس کی ایک روشن ترین مثال ہے۔


اخوان المسلمون کی جہد ِ مسلسل
اخوان المسلمون کی قوت کا اصل سرچشمہ اللہ اور اس کے آخری رسول پر ایمان ہے۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت اور طریقے کو زندگی کا شعار بنانا اس کا اصل مطلوب ہے۔ نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کی تعمیر اس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔خاندان اور معاشرے کی اصلاح اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ خدمت اور حق و انصاف اور زندگی کےسارے معاملات کی صورت گری اس کی قوت کا ذریعہ ہے۔ سیاست اجتماعی زندگی میں اسی اخلاقی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور جنّت کی تمنا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔


فرد، معاشرہ، ریاست، انسانیت کی تعمیر اس کا ہدف ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا اصل راز اور اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی اور قانون کو جاری و ساری کرنے کی جدوجہد ہے۔ حسناتِ دُنیا اور حسناتِ آخرت دونوں مطلوب ہیں، لیکن رضاے الٰہی کے ثمرات کی حیثیت سے۔یہ چیز آزمائشوں میں استقامت کا ذریعہ بنتی ہے اور د±نیوی نشیب و فراز سے بے نیازی اور جہد ِمسلسل کا شعار بناتی ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار قرآن سے تعلق اور اللہ کے رسول سے محبت اور اتباع کا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں، مَیں نے اخوان المسلمون کو تمام اسلامی تحریکات میں سب سے بہتر اور سب سے بلند پایا ہے۔


گذشتہ 70برس میں مجھے ہرسطح پر اخوان کے ساتھیوں سے قریبی تعلق کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اخوان کے ہرکارکن کا قرآنِ عظیم سے جو تعلق میں نے دیکھا ہے، وہ قابل ِ رشک ہے۔ مصری معاشرے میں جو دینی اور اخلاقی تبدیلی گذشتہ 90برسوں میں آئی ہے، اس میں دوسری تمام دینی قوتوں کی کوششوں کے ساتھ امام حسن البنا شہید اور اخوان المسلمون کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور روشن ہے۔ قرآن سے تعلق اور ایک دوسرے سے محبت اور خبرگیری، یہ دو ستون ہیں جن پر اخوان کی تحریک قائم ہے۔

ا±خوت کا رشتہ، محبت اور خبرگیری کا رشتہ اور بھائی چارے کی فضا، اخوان نے گھرگھر اور محلے محلے میں قائم کی ہے۔ فہم قرآن کے حلقے اور اسرہ کا نظام اخوان کی طاقت کا منبع ہیں اور جب تک یہ تعلق اور نظام موجود ہے، ان شاءاللہ ظلم کی کوئی قوت اس تحریک کو دبا نہیں سکتی، اور بقول جگر مراد آبادی:


یہ خوں جو ہے مظلوموں کا ، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں ،جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں
استقامت اور تحریک کے نظریاتی کردار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے ظلم و زیادتی، حقوق کی پامالی،ملک کے دستور اور قانون اور اصولِ انصاف سے ر±وگردانی کے باوجود تحریک نے اینٹ کا جواب پتھر، اور تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ ہرظلم و زیادتی کو برداشت کرتے ہوئے قانون، اخلاق اور خود اپنے طے کردہ طریق کار سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کیا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنے طریق کار کی صحت اور اخلاقی برتری پر یقین رکھتی ہے، اور ب±رائی کے جواب میں ب±رائی کے راستے کو اصولی اور اخلاقی طور پر غلط سمجھتی ہے۔ اسلامی تحریک کا طریقہ محض مصلحت، بدلہ اور انتقام نہیں بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کا یہ اصول ہے کہ
وَلَا تَس?تَوِ? ال?حَسَ?نَ?± وَلَا السَّ?ِّئَ?±?۰? اِد?فَع? بِالَّتِ?? ہِ?َ اَح?سَن± (حم السجدہ14 :34)
”نیکی اور بدی یکساں نہیں ہے۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو، جو بہترین ہو“۔


اخوان کی عظیم کامیابی ہے کہ80سال میں آزمائش کے تین ہولناک اور صبر آزما اَدوار میں جھونک دیے جانے کے باوجود، انہوں نے اپنے تعمیری، اخلاقی، اصلاحی، جمہوری اور عدم تشدد کے طریق سے سرِموانحراف نہیں کیا۔ اس کے باوجود اگر غصّے، ردعمل اور بدلے کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی نوجوان نے تحریک کے معروف طریقے سے ہٹنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ روک دیا یا اس کو تنظیم سے خارج کر دیا۔ افسوس کہ مسلم حکومتوں، مقتدر طبقات اور مخالفین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا، حالانکہ اب تو اس بات کو غیر بھی محسوس کرنے اور اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔


نیویارک ٹائمز ( 19جون2019ئ) میں اس کے اسٹاف رائٹر پیٹر ہیسلر نے ، جو مصر پر ایک کتاب The Buried: An Archeology of The Egyption Resolution کے مصنف ہیں، اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ: ”سامراجی حکمرانوں کے خلاف ابتدائی دور میں اخوان کے کچھ ارکان سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں اور اخوان کے رہنماﺅں نے بالآخر ایسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا اور عدم تشدد کے اصول کو اختیار کیا“۔اخوان پر مظالم اور ریاستی تشدد کے تازہ دور کے پس منظر میں صاحب ِ مقالہ لکھتا ہے کہ:


یہ بات اہم ہے کہ حکومتی قیادت میں ہونے والے قاہرہ کے مختلف قتل عام اور ان کے نتیجے میں بچ جانے والوں اور (ان کے) رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم افراد نے دہشت گردانہ عمل یا تشدد سے جواب دیا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات جزیرہ نما سینائی کے دُور دراز حصوں میں ہوئے، نہ کہ بالائی مصر کے گنجان آبادی والے حصوں میں، جو کہ ابتدائی نسلوں میں انقلابی اسلام کا گہوارارہے تھے۔ مصری حکومت نے اخوان پر ایک ’دہشت گرد گروہ‘ کے طور پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کے پاس کوئی شہادت نہیں کہ اخوان نے متشددانہ مزاحمت کوچال کے طور پر اختیار کیا ہو۔


اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخوان جس طرح ماضی کے ہولناک اَدوارِ ابتلا سے صبرواستقامت کے ساتھ نبردآزما ہوئے، اسی طرح اس دور کا بھی مقابلہ کریں گے اور بالآخر کامیابی کے ساتھ اپنی اصلاحی اور تعمیری سرگرمیوں کو ایک بار پھر چار چاند لگائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرونی حلقوں سے بھی اب ایسی آوازیں ا±ٹھنے لگی ہیں۔مثال کے طور پر سی این این کی ایک تازہ رپورٹ، جو صدرمرسی کی شہادت کے اگلے روز (18جون2019ئ) شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مصر کے حالات کا جائزہ لے کر آخری حصے میں کہا گیا ہے:


اور ابھی تک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور آمرانہ من مانی ہلاکتوں کے باوجود، اخوان تحریک معدوم ہونے سے کوسوں دُور ہے۔اخوان ظلم و تعذیب سہنے کے عادی ہیں اور خدمت خلق کے لئے ان کا اپنا ایک بے مثل ڈھانچا ہے۔ جیساکہ ’کارنیگی رپورٹ‘ نے کہا ہے: ”مصر کے سیاسی مقدّر کا تعین بدستور اس تصادم سے ہی ہوتا رہے گا جو حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے“۔


اُمت مسلمہ کے نام
صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت پر مسلمان عوام، دینی اور سیاسی جماعتوں اور متعدد حکمرانوں کا جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ ا±مت مسلمہ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے لئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی اور اس کے صدر طیب نے سب سے بڑھ کر اور قطر، حماس، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے کھل کر اور چند دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے صرف تعزیت کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت تو خاموش ہے، مگر قومی اسمبلی نے دُعاے مغفرت اور پھر سینیٹ آف پاکستان نے ایک جان دار اور مفصل قرارداد کے ذریعے، جسے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے تعاون سے35 سینیٹروں کے دستخطوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا اور سینیٹ نے متفقہ طور پر پاس کیا، وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔


مسجد اقصیٰ سے لے کر دُنیا کے ہراس ملک میں،جہاں مسلمان آباد ہیں، ہزاروں مقامات پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر کے اُمت نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے، لیکن عوام اور حکمرانوں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان بالعموم جو فاصلہ اور دوری ہے، وہ بہت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور مغربی دُنیا کے حکمرانوں، اور بااثر طبقات پر موت کا سکوت طاری رہا ہے، وہ چشم کشا ہے۔

حکمران ، دانش ور، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار جو ہر چھوٹے بڑے حادثے یا معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں،ان کی خاموشی یا پشت پناہی نے ان کے دوغلے پن اور منافقت کا پردہ بھی ب±ری طرح چاک کردیا ہے۔بلاشبہہ مغربی د±نیا میں چند اداروں اور کچھ اصحابِ ضمیر نے غاصب مصری حکومت کے اس اقدامِ قتل کی مذمت بھی کی ہے، یا کم از کم افسوس کے اظہار کے ساتھ معاملے کی تحقیق کا برملا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ان افراد اور اداروں کے لئے تحسین کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔


امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کے وہ حکمران اور سیاسی اور انسانی حقوق کے ان نام نہاد علَم برداروں کو (جو ہرگستاخِ رسول کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں) صدرمرسی کے اس ظالمانہ قتل پر سانپ سونگھ گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں اور لبرل ازم اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دوغلے پن اور نفاق کا یہی مکروہ رویہ ہے جس کی وجہ سے عالم ِ اسلام اور تیسری دُنیا کے لوگ ان کے دعوﺅں پر یقین نہیں کرتے۔ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے بارے میں ان کی نعرے بازی (sloganeering)کو بجاطور پر محض اقتدار اور مفاد کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔


ہم اس مضمون کو رابرٹ فسک کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جو روزنامہ انڈی پنڈنٹ اور کاﺅنٹر پنچ میں شائع ہوا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘:
اے دیوتاﺅ،ڈاکٹر محمد مرسی کی پنجرے میں ظالمانہ موت پر ہمارا ردعمل کیا ہی عمدہ تھا! شاید افسوس، پچھتاوے اور غم، نفرت، جبر اور خوف کے تمام الفاظ کو د±ہرانا ایک تھکا دینے والا عمل ہو، جو مصر کے واحد منتخب صدر کی اس ہفتے قاہرہ کے کمرئہ عدالت میں موت کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کے کانوں میں انڈیلے گئے۔

ڈاﺅننگ سٹریٹ اور وائٹ ہاﺅس سے لے کر، جرمن چانسلری اور ایلسی پیلس تک اور کہیں ہم برلے مونٹ کو بھول نہ جائیں۔ ہمارے مدبروں اور ہماری خواتین نے ہماری خوب خاطر داری کی۔ مرسی کی موت پر ان کی پشیمانی اور احتجاجوں پر غور کرنا تو حقیقت میں ہمیں تھکا دے گا۔


کیونکہ یہ مطلقاً موجود ہی نہیں تھا۔ خاک اور دھول،کچھ بھی نہیں۔نہ خاموشی اور نہ کوئی بڑبڑاہٹ، نہ کسی پرندے کی چہچہاہٹ، نہ کسی پاگل صدر کا کوئی ٹویٹر پیغام، یہاں تک کہ بالکل رسمی اور سرسری سے اظہارِ افسوس کا کوئی لفظ تک بھی نہیں۔ وہ جو ہماری نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں،خاموش تھے، گنگ تھے۔ ان کی صدا اسی طرح روک دی گئی تھی جس طرح مرسی (کی صدا) کمرئہ عدالت میں اپنے ساﺅنڈ پروف پنجرے میں۔ اور یہ نمایندے اسی طرح خاموش ہیں جس طرح مرسی اب اپنی قاہرہ کی قبر میں ہے۔


لیکن وہ کوئی بُرا آدمی اور کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اس نے اپنے جانشین [جنرل سیسی] کی طرح 60ہزار سیاسی قیدیوں کو بند نہیں کیا ہوا تھا۔ وہ جانشین کہ جسے وائٹ ہاﺅس میں موجود عظیم شخص کی طرف سے عظیم شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔


یہ بات نوٹ کرنا مفید و سبق آموز رہے گا کہ اس انقلابِ مرسی کے ساتھ کتنا مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اسے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا، وہ اپنے خاندان سے بھی بات نہیں کرسکتا تھا، اس کو طبی امداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب اس گھناﺅنے سلوک کا ذرا اس سہولت و آسائش سے مقابلہ کرکے دیکھیں، جو اس [صدر مرسی] کے پیش رو [آمرمطلق] حسنی مبارک کو اپنی معزولی کے بعد حاصل رہی۔ مسلسل ہسپتال میں علاج معالجہ، خاندان کے لوگوں کی ملاقاتیں، عوامی ہمدردی کا اظہار، حتیٰ کہ اخبارات کو انٹرویو بھی۔


مرسی کے آخری الفاظ، جو اس نے اپنے دفاع میں کہے کہ:’مَیں مصر کا اب بھی صدر ہوں‘ ان کو مشینی انداز میں ساﺅنڈ پروف پنجرے میں دبا دیا گیا۔ ہماری بے حوصلہ ذلت آمیز خاموشی نہ صرف مغرب میں عوامی عہدے داروں اور انتظامیہ کی شرمناک فطرت کا ثبوت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے ہر [ظالم]رہنما کی قطعی اور حتمی حوصلہ افزائی [کا اجازت نامہ] بھی ہے، کہ اس کے بُرے افعال کی اسے کبھی سزا نہیں ملے گی۔ کوئی اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں، انصاف کبھی نکھر کر سامنے نہیں لایا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں کو کبھی پڑھا نہیں جائے گا۔


ان حالات میں اُمت مسلمہ کے لئے ایک ہی راستہ ہے....خود اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونا اور اپنے ایمان، اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنے دین، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے معاشی مفادات، اپنی خودمختاری اور خودانحصاری کا تحفظ اور ترقی۔ صدر ڈاکٹر محمدمرسی کی شہادت ہمیں اگر غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے سرگرم ہونے کے لئے مہمیز کا کام کرے، تو ان کی زندگی بھی قابل ِ رشک تھی اور ان کی موت بھی قابل ِ رشک ہے۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے خالق اور پروردگار نے بشارت دی ہے کہ:


مِنال?م±و??مِنِ??نَ رِجَال? صَدَق±و?ا مَا عَاہَد±وا اللہَ عَلَ??ہِ?۰? فَمِن?ہ±م? مَّن? قَضٰ? نَح?بَہ? وَ مِن?ہ±م? مَّن? ?َّن?تَظِر±?۰?? وَمَا بَدَّل±و?ا تَب?دِ??لًا?32? (الاحزاب 33 : 32)
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ ا±نھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔


یہی اللہ کے وہ نیک اور کامیاب بندے ہیں جو حق کے علَم بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں جو ظلم کے ہر وار کو مردانہ وار سہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک حق و انصاف، عدل و احسان، اطاعت ِ رب اور خیروفلاح کی سربلندی کے لئے سرگرم رہتے ہیں، جو نفس ِ مطمئنہ کی چلتی پھرتی تصویر ہوتے ہیں، اور جنت جن کا انتظار کر رہی ہے!
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -