احتساب جج، ویڈیو اور بیان حلفی، کس کا نقصان؟
کورٹ رپورٹنگ کے تجربے، سینئر وکلاء حضرات سے اچھے مراسم، دوستی اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کی وجہ سے ہم بھی قانون کے رموز سے آشنا ہیں اور اسی حوالے سے زیر سماعت اس دور میں کوئی مقدمہ کیسا ہی تحیر کن کیوں نہ ہو، جب عدالت میں چلا جاتا تو اس پر عدالتی کارروائی کے سوا کوئی تبصرہ نہیں ہو سکتا تھا، حتیٰ کہ عدالتی کارروائی کے دوران فاضل جج یا مجسٹریٹ اگر کسی حصے کی اشاعت سے روک دیتے تو رُک جاتے تھے، اب زمانہ تبدیل ہو چکا، میڈیا میں بھی نئی نئی روایات آ چکی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ آئین و قانون سے عدم دلچسپی والے حضرات بڑھ بڑھ کر بات کرتے ہیں تو خود قانون دان اور آئینی ماہر حضرات بھی اپنی حد تک تجاوز کر کے دوسروں پر الزام دھر دیتے ہیں۔
یہ گذارشات یوں کرنا پڑیں کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی آڈیو /ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سے مسلسل تجزیئے، تبصرے اور اس پر رائے کا سلسلہ جاری ہے،حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تو عدالت عظمےٰ نے بھی اس حوالے سے ایک شہری کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں، ہم اس سماعت سے قبل تھوڑی جسارت کے ساتھ اس پر بات کر لیتے ہیں کہ خود دو بیرسٹر حضرات نے تامل نہیں کیا اور نہ صرف تفصیل سے بات کی،بلکہ محترم احتساب جج کا دفاع بھی کیا اور دوسرے فریق کو بتایا کہ ویڈیو غلط ثابت ہونے پر دس سال تک سزا بھی ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے معاون احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کو ساتھ بٹھا کر یہ سب کہا جسے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے دھمکیاں قرار دیا گیا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم نے بعدازاں دیئے گئے ارشد ملک صاحب کے بیان حلفی کی بنا پر سسلین مافیا اور ”ڈان“ کے حوالے دے دیئے ہیں،انہی حالات میں ہم بھی تھوڑی جسارت کر لیتے ہیں۔
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف قید کی سزا بھگتنے کے لئے کوٹ لکھپت جیل میں مقید ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر ضمانت پر ہیں، ان سب کی احتساب جج کے فیصلے کے خلاف اپیل زیر سماعت ہے،اس دوران محمد نواز شریف کو چھ ہفتے کی ضمانت بھی ملی اور انہوں نے سارا وقت ٹیسٹ کروانے میں گزار دیا اس بنا پر ان کی درخواست ضمانت میں توسیع مسترد ہو گئی جو خالص طبی بنیادوں پر تھی۔
یہ امر مزید ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ سابق وزیراعظم کے فاضل وکیل نے اس کے بعد بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے طبی بنیادوں پر ہی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی، اس وقت بھی ہم نے اپنے ساتھیوں سے عرض کیا تھا کہ اس بنیاد پر سپریم کورٹ درخواست ضمانت مسترد کر چکی ہے تو ہائی کورٹ کیسے ضمانت دے دے گی اور وہی ہوا کہ درخواست مسترد ہو گئی،ہمارا خیال اس وقت بھی یہی تھا کہ فاضل وکلاء صفائی کو اپیل کی پیروی کرنا چاہئے اور میرٹ پر بحث کر کے دلائل سے اپنے موکل کو بری کرانے کی کوشش کرنا چاہئے، ہمارے خیال میں اب بھی دلائل میرٹ پر اور طبی رپورٹیں ثانوی طور پر اضافی دلیل کے طور پر سامنے لانا چاہئیں۔بہرحال یہ ان سب کا اپنا معاملہ ہے وہ جانیں ہم بعد میں پیش آنے والے حالات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
قائد مسلم لیگ(ن) محمد نواز شریف کی قید سے ان کے اہل خانہ خصوصاً مریم نواز گھبرا سے گئے، نظر آئے یا پھر والد اور صاحبزادی کی مشاورت سے مریم نواز نے باقاعدہ مہم شروع کی، اس کے پس منظر میں رہنماؤں کے خلاف متوقع مزید مقدمات بھی ہیں،چنانچہ مسلم لیگ(ن) کا عمل اور بیانیہ نواز شریف والا ہو گیا۔اس میں براہِ راست ٹکر کی بجائے فیصلہ کن قوتوں پر عوامی حمایت کا تاثر ثابت کرنے کی کوشش ہوئی۔
اسی دوران بوجوہ(یہ خود مریم نواز جانتی ہیں) ایک ویڈیو/آڈیو مارکیٹ میں پھینک دی گئی جس میں ارشد ملک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فیصلہ دباؤ میں ہوا،اس کے جواب میں پہلے تو پریس ریلیز سے کام چلانے کی کوشش کی گئی اور ویڈیو کو جعلی قرار دیا اور اصرار کیا کہ فیصلہ غیر جانبدارانہ ہے،لیکن بات پھر بھی نہ بنی کہ پریس ریلیز میں بھی ناصر بٹ اینڈ کمپنی سے تعلقات اور ملاقات تسلیم کی گئی تھی، بات آگے بڑھ گئی تو فاضل جج ارشد ملک نے ایک بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا اس میں بلیک میلنگ، رشوت اور دھمکیوں کا الزام لگایا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ نہ صرف ناصر بٹ ان سے ملتے رہے،بلکہ ایک صاحب ناصر جنجوعہ بھی شامل ہوئے، جنہوں نے رشوت کی پیشکش کی، پھر یہ بھی کہا کہ ان کو جاتی امرا میں میاں محمد نواز شریف سے ملایا گیا تو انہوں نے بھی بہت کچھ دینے کو کہا، جبکہ ان کے صاحبزادے حسین نواز نے50کروڑ روپے اور کسی بیرونی ملک میں سیٹل کرانے کی بھی پیشکش کی۔
یہ فاضل جج ارشد ملک کا بیان حلفی ہے،وفاقی وزیر قانون اور معاون احتساب دونوں نے اسے درست ہونے کا تاثر دیا اور ساتھ ہی فاضل جج کو کام سے روکنے کا حکم دے دیا گیا۔ یہ بھی24 گھنٹے میں واپس ہو گیا اور نیا حکم یہ ہے کہ جج صاحب! جہاں ہو، وہاں رہو، نئے احکام کا انتظار کرو، شاید یہ عدالت عظمےٰ کے نوٹس کی وجہ سے ہو، بہرحال یوٹرن تو ہے۔
ہم تو صرف یہ عرض کریں گے کہ فاضل جج نے جو کہا اگر اسے سچ بھی تسلیم کر لیا جائے تو انہوں نے عدالتی روایات پر عمل کیوں نہ کیا،ویڈیو کی بلیک میلنگ، دباؤ، دھمکیوں اور رشوت کو قبول نہیں کیا تھا تو نگران جج نے شکایت کیوں نہ کی؟ چلیں اگر گریز کی وجہ پرانی ویڈیو تھی تو پھر مقدمہ سے الگ کیوں نہ ہوئے اور عدلیہ کی روایت کے مطابق عدالت عظمےٰ کو مقدمہ واپس بھیج کر معذرت کیوں نہ کی؟ یہ سوالات اور دیگر بہت سے سوال ان کو دینا ہوں گے، جان آسانی سے نہیں چھوٹ سکتی، فاضل جج نے عالمی خبر بنا دی ہے، اللہ خیر کرے۔
جہاں تک مریم نواز اور شریف خاندان کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کا تعلق ہے تو ان کے فائدہ یا نقصان کا اندازہ بھی عدالت عظمےٰ میں سماعت کے بعد ہی ہو گا۔ بہرحال حکمرانوں کو یہ تو اطمینان ہونا چاہئے کہ وقتی فائدہ ان کو ہوا کہ اینکر حضرات / تجزیہ نگار صاحبان کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری اور صحت جیسے مسائل سے ہٹ گئی ہے۔