محب ِ وطن کون؟
یہ1960ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ جنرل اعظم خان مرحوم ایوب خان کی مارشل لاء حکومت میں سینئر وزیر تھے۔ انہوں نے اپنی خواہش پر ماحولیات کا محکمہ لیا تھا۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ جنرل اعظم جب تین ہٹی پُل اور ملیر ندی کے اردگرد مہاجرین کی چھونپڑیاں دیکھتے تو اُنہیں اِنہیں بسانے کا خیال آیا۔یہی دور تھا جب انہوں نے لانڈی اور کورنگی کا منصوبہ بنایا۔بے خانماں، برباد انسانوں کی ایک دردناک کہانی دوسری جنگ عظیم کا یورپ اور خاص طور پر جرمنی تھا،لیکن جرمنی نے بہت جلد اپنے لوگوں کے لئے چھت مہیا کر دی، برباد شہر پھر سے بسنے لگے۔ جنرل اعظم اس تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے جرمنی جانے کا پروگرام بنایا۔ کابینہ کا خیال تھا کہ وہ جرمنی سے کچھ امداد لینے گئے ہیں، لیکن جرنیل کے ارادے تو کچھ اور تھے، ان دِنوں جرمنی میں پاکستان کے سفیر جے اے رحیم تھے،جو بعدازاں پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری رہے۔ اعظم خان کو جے اے رحیم نے بتایا کہ جرمنی کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ خود بمشکل جنگ کی تباہ کاریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہے۔ جرمنی کے چانسلر اور کابینہ کی اعظم خان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں تو اعظم خان نے کسی قسم کی مدد کا ذکر نہ کیا اور صرف جرمن عوام کی بہادری اور محنت کا ذکر ہر اجلاس میں کرتے رہے۔
جرمنی حکمران خوش بھی تھے اور حیران بھی کہ ایک غریب ملک کا انتہائی اہم حکمران ان سے کوئی مطالبہ نہیں کر رہا۔ غالباً آخری اجلاس میں اعظم خان نے کہا کہ مَیں اپنے ملک میں مہاجرین کی آباد کاری کے لئے آپ کی تکنیکی اور مشاورتی مدد چاہتا ہوں، کیونکہ آپ نے جس طرح جنگ زدہ عوام کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے یہ تاریخ کا ایک کارنامہ ہے غالباً اس وقت چانسلر ایڈنائیر تھے انہوں نے جنرل سے کہا کہ ہم آپ کو تحفتاً جرمنی کی ایک سٹیل مل دینا چاہتے ہیں،جس کی تنصیب بھی ہم خود کریں گے اور یہ کہ جرمنی کی حکومت آپ کے دورہ کو دوستی اور محبت سے یاد کرتی ہے۔بقول جے اے رحیم جرمنی کے اخبارات نے اس دورہ کی شانداری پذیرائی کی اور جنرل کی خوب تعریف کی۔ اب اِدھر کا حال سنئے جونہی جرمنی سے سٹیل مل کے تحفے اور کامیاب دورے کی خبر ملی پاکستانی کابینہ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ایوب خان نے ورلڈ بنک اور امریکہ سے جو خصوصی درخواست پر وزیر خزانہ شعیب احمد منگوایا تھا وہ پریشان ہو گیا، کیونکہ اس وقت پاکستان امریکہ سے سٹیل درآمد کر رہا تھا اور پرمٹ سید بابر علی اینڈ کمپنی کے پاس تھا۔ کراچی ایئر پورٹ پر جنرل اعظم خان کو لینے کے لئے شعیب احمد خود پہنچے اور کہا اعظم صاحب، ہم جرمنی کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکتے یہ بہت اکھڑ قسم کے لوگ ہیں تم سٹیل مل کا پروگرام بھول جاؤ۔
امریکی سٹیل کے ایجنٹ اس حد تک پاکستانی مفادات کے مخالف تھے کہ انہوں نے پاکستان کو دُنیا کی بہترین سٹیل مل سے محروم کر دیا۔چند سال بعد نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو قائل کیا کہ سٹیل مل کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی کے لئے بنیادی ضرورت ہے اور پھر اس روسی مل کا نوکر شاہی اور حکمرانوں نے جو حال کیا اور بھٹو کو امورخارجہ اور نیو کلیئر طاقت کا جو ”انعام“ امریکہ کی طرف سے ملا وہ ہمارے سامنے ہے۔بھٹو اور جونیجو کے علاوہ اس ملک پر حکومت کرنے والے اپنے خاندان امریکہ بھی لے گئے اور برطانیہ، امریکہ سے تجارتی مفادات بھی وابستہ کئے۔ افغانستان میں پہلے طالبان کی حمایت میں امریکہ کی جنگ لڑی اور پھر طالبان کے خلاف امریکہ کے حا می بن گئے،لیکن موقع ملتے ہی امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردوں کا ساتھی بنا کر اسے FATF میں گرفتار کروا دیا۔ ہم سیٹو اور سینٹو میں امریکہ کے اتحادی تھے، لیکن1965ء کی جنگ میں امریکہ نے ہمارے لئے اسلحہ پر پابندی عائد کر دی۔ گزشتہ برس سے امریکہ ہندوستان کا اتحادی بن چکا ہے اور ہم سے کئی گنا زیادہ اسلحہ اُسے فروخت کر رہا ہے،ہم پر پابندیاں بھی عائد کرتا ہے،لیکن ہمارے حکمران امریکہ کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتے۔
پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پاکستان کے مفادات پر اولیت دی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔حکومتی بدانتظامی اور بے حسی کے نتیجہ میں پی آئی اے کا جو حال دُنیا میں ہوا اس کا فوری ردعمل گزشتہ روز امریکہ کی طرف سے بھی آ گیا ہے۔ امریکہ نے بھی پی آئی اے کی تمام سروس بند کر دی ہے، لیکن ہم ایک لمحے کے لئے بھی افغانستان میں امریکہ کی سہولت کاری سے ہاتھ نہیں کھینچ سکتے،کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے خاندان کے خاندان امریکہ میں اپنا مستقبل بنائے ہوئے ہیں۔ ملک میں کورونا نے ایک طرف تباہی مچا دی ہے، دوسری طرف بے روزگاری، مہنگائی، غربت، تھر میں مرتے ہوئے پیاسے اور بھوکے بچے، لیکن مفادات پارک لین اور سرے محل سے جڑے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں حکمران طبقوں کے لئے شاندار مستقبل کی علامت بن چکا ہے۔ نوکر شاہی، سیاست دان، جرنیل، جج ہر کوئی اپنے خاندان کے لئے امریکہ میں جگہ تلاش کر رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے کروڑوں کسانوں کے پاس ایک مرلہ زمین گھر کی چھت کے لئے نہیں ہے۔جہانگیر ترین مبینہ طور پر پینتیس ہزار ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کر کے بیٹھا ہے، حکمرانوں کو جب ذرا سی مشکل پیش آتی ہے وہ لندن اور امریکہ کی طرف بھاگتے ہیں۔پاکستان کے عوام پھربھی اپنے ملک سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں یہاں جو جتنا زیادہ مفلس اور بے یارو مدد گار ہے اتنا ہی محب وطن ہے، وہی اس زمین کے ساتھ وابستہ ہے اور وابستہ رہے گا۔