یہ تو ٹریلر ہے جناب
یہ جملہ، محاورہ یا مصرعہ غالباً سیاست کے حوالے سے ہی مشہور ہے کہ ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟“ ہوا یوں کہ ہفتہ کے روز حکمران تحریک انصاف کے دو رہنماؤں کو ایک ہی علاقے میں ”عوامی گرمجوشی“ کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی پنجاب کا واحد صحت افزاء پہاڑی مقام فورٹ منرو ہے جو قبائلی علاقہ کہلاتا ہے تاہم انتخابی لحاظ سے یہ ڈیرہ غازیخان ضلع کے قومی حلقے این اے 191 میں آتا ہے جہاں سے وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی محترمہ زرتاج گل ایم این اے ہیں۔ وہ سیاست اور علاقے دونوں میں نووارد ہیں۔ وہ بنوں (کے پی کے) میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور متنقل ہوئیں۔ کوئنز میری کالج اور نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ ڈیرہ غازیخاں کے وڈیرے اخوند ہمایوں رضا خان بھی ان دنوں لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ ملاقات ہوئی۔ بات شادی تک پہنچی اور 2010ء میں بیاہ کر ڈیرہ غازیخاں آگئیں۔ وہ طالبعلمی کے زماے میں ہی تحریک انصاف میں فعال ہو چکی تھیں۔ انہیں سرداروں کے علاقے سے سرداروں کے مقابلے میں بھی ٹکٹ جاری کیا گیا۔ ہمارے سمیت بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ وہ تیسرے نمبر پر آئیں گی۔ مگر بلا ایسا چلا کہ رنز کی طرح پرچیوں کے انبار لگ گئے وہ علاقے میں بھی نئی تھیں انہیں یہ تک پتہ نہیں تھا کہ ان کے حلقے میں کون کون سا علاقہ آتا ہے۔
ان کے پاس وسائل بھی محدود تھے۔ ان کے پولنگ ایجنٹ پورے تھے نہ پولنگ کیمپ۔ ان کے مقابلے میں دو با اثر سیاسی خانوادوں کے نوجوان مگر تجربہ کار امیدوار تھے۔ مسلم لیگ ن نے سابق صدر مملکت سردار فاروق احمد لغاری مرحوم کے صاحبزادے سابق وفاقی وزیر سردار اویس لغاری کو ٹکٹ دیا تھا۔ ان کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی تھی۔ دوسرے مد مقابل امیدوار سابق گورنر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے بیٹے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ تھے۔ وہ آزاد حیثیت سے میدان میں تھے اور پر امید تھے۔ جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو ناتجربہ کار زرتاج گل نے دونوں بڑے برج الٹا دیئے۔ ان کو 79817 ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر سردار اویس لغاری آئے انہیں 54548 ووٹ ملے۔ تیسرے نمبر پر سردار دوست محمد کھوسہ آئے انہیں 31697 ووٹ مل سکے۔ اس طرح 25 ہزار سے زائد ووٹوں کی سبقت سے زرتاج گل نے میدان مار لیا۔ انہیں کابینہ میں لے لیا گیا۔ ایک تو وہ نئی تھیں اوپر سے وفاقی وزارت کی مصروفیات۔ وہ اپنے حلقے اور اپنے حلقے کے لوگوں کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ ان کی حکومت کی کارکردگی سے عوام دن بدن نالاں ہوتے جا رہے ہیں۔ فورٹ منرو جو دھیرے دھیرے پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ پینے کا پانی گزشتہ دو سال سے دستیاب نہیں۔ لوگ مہنگے داموں پانی کی ٹنکیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ بجلی کی فراہمی بھی عموماً تعطل کا شکار رہتی ہے۔
ترقیاتی کام ہوئے نہیں۔ روز گار ملا نہیں۔ کاروبار کا برا حال ہے، ایسے میں جب وفاقی وزیر بجلی کی فراہمی کے ایک چھوٹے سے منصوبے کا افتتاح کرنے پہنچیں تو انہیں خاصی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ متذکرہ ”منصوبے کی افتتاحی تختی کے اوپر پھولوں کے ہار کی بجائے جوتوں کا ہار جھول رہا تھا خود محترمہ کا نام بھی جوتے کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ وہ راستے میں ایک عوامی ہوٹل پر چائے پینے بیٹھ گئیں تو ان کے ان کی پارٹی، ان کی قیادت اور ان کی حکومت کے خلاف نعرے لگ گئے۔ یہی نہیں بلکہ کسی شرپسند نے تو ٹماٹر بھی اچھال دیئے۔ جب وہ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھیں تو مخالفانہ نعروں کے درمیان، نا معلوم اطراف سے کچھ پتھر بھی پھینکے گئے۔ وہ تو شکر ہوا کہ وہ محفوظ ہیں اور ”منصوبی“ کا افتتاح کر کے بخیریت واپس چلی گئیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ حرکت مخالف گروپ لغاری گروپ کی ہے ورنہ عوام تو ان کی کارکردگی سے خوش اور مطمئن ہیں۔ ادھر لغاری گروپ کے ترجمان نے حسب توقع اس الزام کی تردید کی ہے اور اسے عوامی جذبات کا اظہار قرار دیا ہے۔ اسی روز اسی علاقے سے تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی سردار احمد علی دریشک کے ساتھ بھی ”ہلکا پھلکا“ واقعہ اسی فورٹ منرو میں پیش آ گیا سردار احمد علی دریشک سیاست میں نئے ہیں نہ علاقے میں نووارد۔ وہ تو خاصے با اثر سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے دادا سردار نصر اللہ دریشک ضلع راجن پور کی سیاست میں سدا بہار بے تاج بادشاہ ہیں۔
ان کے والد سردار نوازش علی دریشک قبیلے کے سربراہ ہیں جو بچوں کی تعلیم کے لئے پسماندہ ضلع راجن پور سے نقل مکانی کر کے نیم پسماندہ ڈیرہ غازی خان متنقل ہو گئے تھے۔ سردار نصر اللہ دریشک 78 سال کی عمر میں بھی سیاسی طور پر متحرک ہیں۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے تقریباً ہر الیکشن میں کامیاب ہوتے آ رہے ہیں۔ وہ نصف درجن بار صوبائی اسمبلی اور کئی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ اس وقت بھی وہ این اے 194 راجن پور سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ احمد علی دریشک نے 25 سال کی عمر میں سیاست میں قدم رکھا اور 2013ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا مگر ہار گئے۔ پھر سردار ذوالفقار کھوسہ نے اپنی صوبائی نشست چھوڑی تو ضمنی الیکشن میں احمد علی دریشک کامیاب ہو گئے۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر کامیاب ہو گئے۔ پی پی 290 ڈیرہ غازیخان سے انہوں نے 32375 ووٹ حاصل کئے ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے احمد خان لغاری نے 28700 ووٹ لئے۔
احمد علی دریشک ہفتہ کو ہی فورٹ منرو میں اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں لوگوں کے ایک گروپ نے راستہ روک لیا۔ احتجاجی انداز میں انہیں مسائل اور مطالبات سے آگاہ کرتے رہے۔ جب تک انہوں نے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی انہیں راستہ نہیں دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے احباب ان واقعات کو لغاری گروپ کی شر پسندی قرار دے کر قیادت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں اور یہ بات یقینی ہے کہ ”بلے باز“ مطمئن بھی ہو جائیں گے اور آئندہ ”لوز شارٹ“ کھیلنے کی روش برقرار رکھیں گے لیکن یہ کوئی عقلمندی نہیں ہو گی۔ سیاست میں بھرم ہی ہوتا ہے، جھجھک ہی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کی جھجک ختم ہو گئی اور وہ اسی طرح راستے روکنے لگے اور ٹماٹروں، پتھروں سے تواضع کرنے لگے تو حکمرانوں کی مقبولیت کا بھرم ختم ہو جائے گا۔ بھرم ختم ہو جائے تو سیاست میں ڈھلوان کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ایک بار ڈھلوان کا سفر شروع ہو جائے تو بریکیں لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان دونوں واقعات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
جس علاقے میں یہ واقعات ہوئے ہیں وہاں کے تحصیل ناظم سردار عثمان بزدار رہے ہیں جو اتفاق سے اس وقت پورے صوبے کے حکمران ہیں۔ اگر ان کی وزارتِ اعلیٰ اور زرتاج گل کی وفاقی وزارت بھی علاقے کے عوام کو درپیش مسائل حل نہیں کر سکتیں تو پھر ان واقعات کو ٹریلر ہی سمجھیں۔ اصل فلم جلد شروع ہو جائے گی جو اور کسی کے لئے ہو نہ ہو، حکمرانوں کے لئے ”ضرور“ ہو گی اس لئے اس تھوڑے کو بہتا جانیں۔ 22 ماہ کے نئے طرز حکمرانی سے جتنا نقصان حکمرانوں نے خود کو پہنچا لیا ہے اس کی مرہم پٹی، ڈینٹنگ پینٹنگ کا وقت ہے۔ عوام کے جذبات بھڑکانے میں لغاری گروپ کا کوئی کمال ہے نہ اپوزیشن جماعتوں کی مہارت۔ کام آپ نے خود خراب کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں اب سدھار بھی آپ نے ہی کرنا ہے۔ عوام کو آئی ایم ایف یا دیگر عالمی اداروں کے مثبت اشارے مطمئن نہیں کرتے۔ انہیں آٹے، چینی، گھی کی قیمتوں، روزگار اور بنیادی ضروریات کی فراہمی سے غرض ہے۔ ان میں بہتری آئے گی تو ٹماٹروں، پتھروں کی فلم فلاپ ہو جائے گی ورنہ تو سب کو پتہ ہے کہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ”تمہارا“ جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے