آبادی کا بم، مسائل کی اصل جڑ
کیا ان دو باتوں میں کوئی ربط ضبط ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے اور دوسری طرف حکومت سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کرنے جا رہی ہے کسی کو اس میں کوئی تعلق نظر آئے یا نہ آئے مجھے ضرور آ رہا ہے، آبادی بڑھنے سے ہمارے ہاں نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لاکھوں بے روز گار نوجوانوں کا ہر سال اضافہ ہو جاتا ہے، آگے ملازمتیں موجود نہیں اور اوسط عمر میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اس لئے آبادی کا یہ ایٹم بم پھٹے یا نہ پھٹے، شدید مسائل ضرور پیدا کر رہا ہے۔ اب کسی ذہن رسا نے اگر حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے اور شنید ہے کہ اس کا پیش کار آئی ایم ایف ہے، کہ آبادی تو گھٹنی نہیں کم از کم ریٹائرمنٹ کی عمر ہی کم کر دو تاکہ لاکھوں ملازمین وقت سے پہلے ریٹائر ہو جائیں اور ان کی جگہ نوجوان بے روزگاروں کو ملازمت پر رکھ لیا جائے۔ وقتی طور پر تو یہ حل اچھا ہے لیکن جو لوگ اس پالیسی کے نفاذ پر ملازمتوں سے محروم ہوں گے، ان کا کیا بنے گا اس عمر میں کہ جب بچوں کی شادی اور تعلیم کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں محروم کر دیا جائے گا تو کیا معاشرتی مسائل جنم لیں گے، اس بارے میں بھی کوئی سوچے گا یا بے سوچے سمجھے لاٹھی برسا دی جائے گی۔
مجھے یاد ہے کہ جناب مجیب الرحمن شامی نے آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے یہ اصطلاح استعمال کی تھی کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ آبادی کے بم سے ہے۔ آبادی کو بم کے مماثل قرار دے کر انہوں نے اس کی سنگینی کو اُجاگر کیا تھا۔ آج اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ ہماری ساری تباہی کا سبب یہی آبادی کا بم ہے۔ بڑی سے بڑی معیشت بھی اس بم کے آگے تباہی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ آج ہمارے شہر مسائل کی آماجگاہ بن چکے ہیں، سب سے بڑا شہر کراچی اسی آبادی کے بم نے تباہ کر دیا ہے آئے روز اس کے مسائل کا تو تذکرہ ہوتا ہے مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ وہاں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کے الیکٹرک ہو یا واٹر بورڈ وہ کراچی کی ضروریات پوری کر ہی نہیں سکتے کیونکہ دس آدمیوں کے لئے اگر منصوبہ بنایا جاتا ہے تو سو آدمی مزید پیدا ہو جاتے ہیں کوئی بتائے کہ دنیا میں کون سا ملک آبادی کے لحاظ سے اتنی تیزی کے ساتھ بڑھا ہے، جس تیزی سے ہم بڑھ رہے ہیں جب متحدہ پاکستان موجود تھا تو ہم یہ شکایت کرتے تھے کہ سابق مشرقی پاکستان کے بنگالی آبادی میں اضافے کا باعث ہیں، آج بنگلہ دیش کا یہ حال ہے کہ اس کی آبادی کچھوے کی رفتار سے بڑھ رہی ہے جبکہ ہم ہرن کی رفتار سے آبادی میں اضافہ کر رہے ہیں تیز رفتاری کا عالم یہ ہے کہ ہم صفیں پھلانگتے پھلانگتے آج پانچویں صف میں آ گئے اور اگر رفتار یہی رہی تو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بچے دو ہی اچھے، خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ بھی کئی دہائیوں سے ملک میں کام کر رہا ہے۔ مگر مجال ہے کہ اس کی باتوں پر کسی نے توجہ دی ہو۔ علماء کرام نے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ان کا خیال ہے ہر آنے والا بچہ اپنا رزق خود لے کر آتا ہے۔ لیکن جب بچوں کو رزق نہیں مل رہا ہوتا تو وہ حکومتِ وقت کو کوستے ہیں کہ اس نے بچوں کو بھوکا مار دیا ہے اعتدال پسندی تو اسلام کا ایک بنیادی سبق ہے، آخری اس معاملے میں اسے کیوں بھلایا جا رہا ہے، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ایک دانشمندی ہے میں جب کسی سڑک کے کنارے غریب عورت کو پانچ چھ بچوں کے ساتھ غربت و افلاس کی تصویر بنے دیکھتا ہوں تو یہ سوچ میرے دامن گیر ہو جاتی ہے کیا ان لوگوں کو بچے پیدا کرتے ہوئے اپنے وسائل پر نظر نہیں رکھنی چاہئے تھی۔ یا ان کے ذہن میں یہی بات بٹھا دی گئی کہ بچے پیدا کرو یہ بھی تمہاری دولت ہے۔ آج ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی کیوں نہیں بڑھ رہی حالانکہ تعلیمی اداروں کی تعداد بھی بڑھی ہے اور مواقع بھی موجود ہیں، اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جتنے پڑھے لکھے بنتے ہیں ان سے کہیں زیادہ ان پڑھ پیدا ہو جاتے ہیں اور شرح وہیں کی وہیں موجود رہتی ہے کسی بھی ملک کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی کہ وہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے رقبے اور وسائل میں بھی اسی رفتار سے اضافہ کر لے۔ رقبہ تو ایک انچ نہیں بڑھ سکتا، البتہ وسائل بڑھانے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ لیکن جہاں صرف آبادی کے وسائل بڑھیں وہاں سوائے مسائل بڑھنے کے اور کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکتا۔
دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے شرح آبادی کو بھی کنٹرول کیا ہے چین جیسے ملک میں آبادی کو ایک خاص شرح سے بڑھنے دیا جاتا ہے۔ کوئی خاندان لا تعداد بچے پیدا نہیں کر سکتا۔ دنیا کی ساری ترقی آبادی کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اگر وسائل اور آبادی میں مطابقت نہ رہے تو کوئی نظام انسانوں کو ایک خوشحال زندگی نہیں دے سکتا۔ ہمارے ہاں ویسے ہی شارٹ ٹرم منصوبے بنائے جاتے ہیں جب تک وہ منصوبے مکمل ہوتے ہیں آبادی کا تناسب بڑھ چکا ہوتا ہے۔ آج ہمارے بڑے شہروں میں ٹریفک، سیورج، بجلی، گیس اور پانی کے مسائل خوفناک شکل اختیار کر چکے ہیں جس طرح ایک گھر پانچ افراد کے لئے بنایا گیا ہو اور اس میں پندرہ افراد رہنے لگیں تو اس کا سیوریج بھی تباہ ہو جائے گا، بجلی بھی پوری نہیں ہو گی، پانی کی دستیابی بھی ممکن نہیں رہے گی، اسی طرح ملک کا حال بھی ہے، ہر سال لاکھوں افراد کے اضافے سے ترقی کے سارے منصوبے فیل ہو جاتے ہیں اور ترقی، معکوس کی صورتِ حال ہر طرف نظر آتی ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ بچے پیدا کرنا ہر خاندان کا انفرادی فعل ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے تو بادی النظر میں اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی، ہمارا مذہبی طبقہ کبھی اس معاملے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیتا۔ چند ایک علماء اشتہاروں کی حد تک یہ پیغام ضرور ریکارڈ کرا دیتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ رکھا جائے مگر اجتماعی طور پر علماء نے کبھی اس اہم ترین ایشو پر سامنے آ کر لوگوں کی رہنمائی نہیں کی جس کا نتیجہ ہم پسماندگی اور مسائل کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
ہمارے ہاں عام آدمی کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر خود یہ عام آدمی کبھی نہیں سوچتا کہ وہ عام آدمی کیوں رہ گیا ہے اور نسل در نسل عام آدمی کیوں چلا آ رہا ہے۔ اگر وہ سوچے تو اسے بخوبی یہ علم ہو جائے کہ اپنے وسائل سے زیادہ بچے پیدا کر کے وہ ان کی تعلیم کا مناسب بندوبست کر سکتا ہے اور نہ ہی انہیں اچھی زندگی کی سہولتیں دے سکتا ہے اگر وہ تھوڑی سی توجہ اس نکتے پر بھی دے اور اپنے خاندان کو چھوٹا رکھے تو شاید اس کی اگلی نسل عام آدمی کی صف سے نکل کر خاص لوگوں کی صف میں شامل ہو جائے۔ مگر وہ ایسا نہیں سوچے گا کیونکہ وہ اپنی حالت بدلنا ہی نہیں چاہتا۔