جنگوں کے مبارک اثرات (1)
ویسے تو مسلم امہ ایک طویل عرصے سے جنگوں سے خائف ہو کر پیشہ ء سپاہ گری سے بچھڑ چکی ہے لیکن کئی صدیوں میں مسلمانوں کو اقوامِ عالم میں سر اونچا کرکے جینے کے عزم سے بھی محروم کر دیا ہے۔ میں کئی دفعہ اپنے کالموں میں اس حقیقت کو دہراتا رہا ہوں کہ جب سے مسلمانوں نے جنگ و جدال سے منہ موڑا ہے،ان کے زوال پر گویا ازلی مہر لگا دی گئی ہے۔ پیغمبرِ آخر الزماں سرورِ کائناتؐ نے اپنی مدنی زندگی کے پورے دس سال جنگ لڑنے میں گزار دیئے۔ ان کے وصال کے بعد تقریباً سات آٹھ سو برس مسلمانوں نے چاروانگ عالم میں اپنی حربی صلاحیت کا لوہا منوایا لیکن تیرہویں صدی میں منگولوں کی یلغار نے مسلمانوں کو نفسیاتی لحاظ سے اتنا بے بس کر دیا کہ وہ جنگ کو رحمت سمجھنے کی بجائے زحمت سمجھنے لگے۔ خلافت عثمانیہ نے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی یورپ میں مسلمانوں کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا تھا اور یہی موقع برصغیر میں مغل ایمپائر نے بھی عطا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن راقم السطور نے ملٹری ہسٹری کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ شعور پایا ہے کہ جب 13ویں صدی میں بارود کی ایجاد ہوئی تو اس کے جنگی ثمرات کا جو عرفان یورپی اقوام نے پایا وہ مسلمانوں کو حاصل نہ ہو سکا۔
اس تمہیدی پیراگراف کی تفصیل جاننے کے لئے کوئی قاری جب تک ورلڈ ملٹری ہسٹری کے چیدہ چیدہ اوراق کا مطالعہ نہیں کرے گا اس وقت تک اس کو ہرگز سمجھ نہیں آ سکے گی کہ مسلم امّہ کے زوال اور اقوامِ مغرب کے عروج کے اسباب کیا تھے…… چلئے میں قارئین کو ماضی بعید سے نکال کر ماضیء قریب میں لے جاتا ہوں۔
دونوں عالمی جنگیں 20ویں صدی میں لڑی گئیں اور دونوں میں مسلمانوں نے اول تو کوئی فعال کردار ادا نہ کیا اور اگر کیا بھی تو ایک غیر معروف اور مجہول رول ادا کیا جس میں مغربی عسکری کمانڈروں اور حکمرانوں کی غلامی اور تقلید شامل تھی۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک مسلمانوں کے درجنوں ممالک پھیلے ہوئے ہیں لیکن پہلی عالمی جنگ (1914-18ء) میں اور پھر دوسری عالمی جنگ (1939-45ء) میں بھی جن مسلمان ملکوں نے ان جنگوں میں شرکت کی وہ مغربی ممالک کی نوآبادیاں تھیں۔ ہمارے برصغیر پر انگریز حکمران تھے اس لئے ہم ان کی افواج میں ان کے ماتحت ہو کر لڑے۔ بری، بحری اور فضائی افواج میں ہم نے بطور محکوم اور جونیئر پارٹنر ان کی جنگوں میں حصہ لیا۔ اگر یورپی اقوام نے بالعموم اور برٹش قوم نے بالخصوص اپنی نو آبادیوں میں اپنی زیرِ کمان افواج کو کسی یورپی، افریقی یا ایشیائی محاذ پر لڑایا بھی تو ان کو ”جنگ کے چارے“ (Fodder of war) کے طور پر استعمال کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ستمبر 1945ء میں حساب لگایا گیا تو برٹش انڈین آرمی کی تعداد 25لاکھ تھی! انگریز (اتحادی) اس جنگ میں فاتح تھے اور دونوں عالمی جنگوں میں (جرمنی اور جاپان) مفتوح تھے لیکن اس 25لاکھ انڈین آرمی میں بھی انڈین کمیشنڈ آفیسرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سکھ سب نے اس جنگ عظیم دوم میں سپاہی رینک میں جنگ لڑی (لانس نائیک، نائیک، حوالدار اور صوبیدار وغیرہ رینکس تو ان ہندوستانی فوجیوں کو عرصہ ء ملازمت کے حساب سے عطا کئے گئے۔) چند کمیشنڈ آفیسرز جو دوسری جنگ عظیم کے دباؤ کی وجہ سے ہندوستان بھر سے بھرتی کئے گئے وہ بھی اپنے برٹش سینئر افسروں کی کمانڈ میں بطور محکوم اور جونیئر پارٹنر ہو کر لڑے…… کیا آپ باور کریں گے کہ جب اگست 1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا تو جو فوج پاکستان کے حصے میں آئی ان کے تینوں شعبوں (آرمی، نیوی، ائر فورس) کے کمانڈر انچیف برٹش آفیسر ہی تھے!…… ہماری اور انڈیا کی افواج 14اگست 1947ء کو گویا انہی برٹش کمانڈروں کے ماتحت تھیں جن کی ماتحتی میں ہندوستانیوں نے دوسری جنگ عظیم لڑی تھی، لاکھوں ٹروپس ہلاک کروائے اور لاکھوں زخمی کروائے تھے!
برسبیل تذکرہ یہ بتانا بھی قرینِِ حقیقت ہوگا کہ 1947ء سے لے کر اب تک انڈین اور پاکستانی افواج نے اگرچہ ہر لحاظ سے حیرت انگیز ترقی کی، ٹریننگ،اسلحہ سازی، تنظیم (آرگنائزیشن)، لاجسٹک (انصرام) حتیٰ کہ میزائل اور جوہری ٹیکنالوجی پر جو عبور حاصل کیا وہ قابلِ صد ستائش تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اگر ان دونوں اقوام (مسلمانوں اور ہندوؤں) کو 20ویں صدی کی دونوں جنگوں میں غلام افواج کی بجائے آزاد افواج کے طور پر لڑنا پڑتا تو وہ انہی حربی صفات کی حامل ہوتیں جو برٹش یا دیگر یورپی اقوام یا امریکی قوم میں ان دونوں جنگوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔میرے اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت دوسری عالمی جنگ میں جاپان اور چین کا رول ہے۔ جاپانی قوم کسی غیر ملکی قوم کی غلام نہیں تھی اور یہی حال چین کی اس فوج کا تھا جو ماوزے تنگ کی قیادت میں آزاد فوج تھی۔ مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں، چینیوں اور جاپانیوں نے یہ ثابت کرنے میں دیر نہ لگائی کہ وہ یورپی اور امریکی اقوام سے کسی بھی طور پسماندہ اورہیٹے نہیں تھے۔
1857ء میں اگر ہندوستانی فتح یاب ہو جاتے۔ اور برٹش حکومت کا خاتمہ ہو جاتا تو جو لاگ ہندوستانیوں کو برٹش وار ٹیکنالوجی سے لگ چکی تھی وہ تیزی سے پھلتی پھولتی۔ انگریزوں نے مدراس، بنگال اور بمبے آرمیز (Armies) کے نام سے جو افواج کھڑی کی تھیں، انہی نے تو 1857ء میں بغاوت کی تھی۔ وہ اس دور کے بھاری اسلحہ جات (بالخصوص آرٹلری) سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انگریزوں کی شکست کے بعد ان سلاحِ جنگ میں اسی طرح کی پراگرس ہوتی جس طرح کی جاپانیوں اور ماؤزے تنگ کے پیش رو چینیوں میں تھی۔ چینیوں پر اگرچہ جاپانیوں کا غلبہ تھا لیکن ”فتح“ ایک ”متعدی مرض“ بھی ہے۔ جب چینی یہ دیکھتے کہ ہندوستانیوں نے 1857ء میں برطانوی سامراج کو شکست دے دی ہے تو یہ ”متعدی بیماری“ ان کو بھی لاحق ہو جاتی اور وہ جاپانیوں کو ماؤزے تنگ کی آمد سے پہلے نکال باہر کرتے۔
اب میں قارئین کی توجہ ایک اور جانب مبذول کروانی چاہتا ہوں۔ جب 1947ء میں برطانیہ نے برصغیر کو آزاد کیا تو جو پاکستان ہمارے حصے میں آیا اس میں اسلحہ سازی کا کوئی ایک بھی چھوٹا یا بڑا کارخانہ نہ تھا۔ انگریزوں نے یہ سارے کارخانے اپنے بلکہ برطانیہ میں لگائے ہوئے تھے۔ اور جب برما کی جنگ شروع ہوئی اور مارچ 1942ء میں جاپانیوں نے رنگون پر قبضہ کر لیا اور کوہیما امپھال (آج کے آسام اور بنگلہ دیش) کے نزدیک آ پہنچے تو برطانیہ کو پورے ہندوستان کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس سے پہلے برطانیہ کی جو فوج (برٹش آرمی اور برٹش انڈین آرمی) اس وقت کے انڈیا میں موجود تھی اس کو چودھویں فوج (14th Army) کہا جاتا تھا…… اور اس فوج کا کوئی پرسان حال نہ تھا کیونکہ اصل معرکے تو اس دوسری عالمی جنگ میں یورپی اور افریقی محاذوں پر لڑے جا رہے تھے۔ اتحادیوں کا سارا زور انہی محاذوں پر تھا۔ لیکن جب 1942-43ء میں جاپانی افواج (تینوں افواج) ہندوستان تک آ پہنچیں تو برٹش حکومت کو اپنی اس سب سے بڑی نو آبادی کی یاد آئی۔ جنرل ولیم سلم (Slim) کو عراقی محاذ سے انڈیا بھیجا گیا اور 14ویں برٹش آرمی کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ تب تک اس آرمی کو فراموش شدہ آرمی (Forgotten Army) کہا جاتا تھا۔ (قارئین سے درخواست کروں گاکہ وہ اگر دوسری جنگ میں یورپی اور افریقی محاذوں کی ملٹری ہسٹری نہ پڑھیں تو کم از کم اپنے ہمسائے میں برما میں لڑنے والی اس 14ویں آرمی کی ملٹری ہسٹری کو تو پڑھ لیں برما میں مارچ 1942ء سے لے کر وسط 1945ء تک کے اڑھائی برسوں میں جاپانیوں نے جو حشر برٹش اور انڈین آرمی کا کیا، اس کا ایک سرسری مطالعہ تو کر لیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ اگر جاپان اس جنگ میں فتح یاب ہو جاتا تو آج انڈیا (اور پاکستان) میں جاپانی چہرے ہر جگہ دکھائی دیتے!)
برما کی اس اڑھائی سالہ جنگ کو اسلحی اور انصرامی سپورٹ دینے کے لئے انگریز نے سارے اسلحہ ساز کارخانے، جنگی ساز و سامان بنانے کی فیکٹریاں، ہوائی اڈے اور بحری مستقر تمام کے تمام آج کے وسطی اور مشرقی بھارت میں قائم کئے کہ وہ برما کی سرحد کے نزدیک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا تو یہاں ہمارے ہاں کوئی اسلحہ ساز کارخانہ یا جنگی ساز و سامان (Equipment) بنانے کی کوئی فیکٹری موجود نہ تھی۔ انگریزوں نے اسی دور میں وسطی ہندوستان سے برما کی سرحد تک سڑکوں اور ریلوں کا ایک وسیع جال پھیلایا جو آج بھارت کے کام آ رہا ہے۔ پاکستان اور انڈین آرمی کے بیشتر کمیشنڈ آفیسرز برما کی جنگ میں لڑتے رہے۔ ہمارے پہلے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور بھارت کے بھی پہلے کمانڈر انچیف جنرل کری آپا، برما ہی میں لڑتے رہے۔ ایوب خان اس وقت کرنل تھے اور کری آپا بریگیڈیئر تھے۔
اسی دوسری عالمی جنگ کا ایک اور نہائت اہم پہلو جس نے پاکستان کو بالخصوص کافی برسوں تک فوجی اعتبار سے کمزور رکھا اس کا ذکر اگلی قسط میں۔(جاری ہے)