سانحۂ سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں نظام کی ناکامی، اعلیٰ سطح کی نا اہلی، زمین پر قبضوں کا انکشاف

Jul 14, 2025 | 10:36 AM

 سوات  (ڈیلی پاکستان آن لائن)3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں 13سیاحوں کے المناک ڈوبنے کے واقعے کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ وقت کے خلاف ایک دوڑ تھی، ہر سیکنڈ، ہر لمحہ قیمتی تھا کیوں کہ شدید طغیانی کے دوران درجنوں سیاحوں کی زندگیاں ایک دھاگے سے بندھی ہوئی تھیں، وقت انتہائی محدود تھا۔
’’ڈان‘‘ اخبار کی رپورٹ کے مطابق سانحہ خوازہ خیلہ سوات کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ پیش آیا، وہ ایک ناقابلِ بیان سانحہ تھا، جب مرد، خواتین اور بچے بپھرے ہوئے پانیوں میں بہہ گئے، جب کہ دریا کے کنارے موجود لوگ بے بس تماشائی بنے رہے۔
کمیٹی کی رپورٹ میں واقعے کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل بیان کی گئی ہے، جس میں سرکاری افسران، عینی شاہدین اور زندہ بچ جانے والوں کے بیانات کے ساتھ ساتھ اس بحران کے دوران کیے گئے واٹس ایپ پیغامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
27 جون کے اس سانحے کی حقیقت جاننے کے لیے صوبائی انسپکشن ٹیم (پی آئی ٹی) کی کوششوں کی بنیاد پر، صوبائی حکومت نے کمیٹی کی تحقیقات کا خلاصہ ایک بیان میں جاری کیا، تاہم، تفصیلات میں اصل حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
63 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نظام کی ناکامی، اعلیٰ سطح کی نااہلی، غیر مؤثر کارکردگی، مجرمانہ غفلت، اور یہاں تک کہ زمین پر قبضے کے انکشافات کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اگر مناسب نظام موجود ہوتا تو یہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
رپورٹ میں شدید تشویش کے ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری، قواعد و ضوابط کے نفاذ، ادارہ جاتی نگرانی، اور ہنگامی ردعمل کے نظام میں گہرے نقائص کا ذکر کیا گیا۔
ریسکیو 1122 مرکزی ذمہ دار قرار:ریسکیو 1122 کو اس افسوسناک واقعے کا مرکزی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، ضلعی ایمرجنسی افسر ڈیوٹی پر موجود نہیں تھا، اور بغیر اجازت سٹیشن چھوڑ گیا تھا، جس سے ایک عملی خلاء پیدا ہوا۔
مزید یہ کہ 2 افراد جنہیں ڈرائیور بھرتی کیا گیا تھا، وہ غیر رسمی طور پر غوطہ خوروں کا کام کر رہے تھے، ایک چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی بھرتیوں کے تحت ایک غوطہ خور خود پانی سے خوفزدہ تھا۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ بھرتی کا عمل ناقص نظر آتا ہے، غیر فنی افراد کو مخصوص مہارتوں کے لیے تعینات کیا گیا، ایک ایسا فرد جو مبینہ طور پر پانی سے ڈرتا تھا، اسے غوطہ خور مقرر کیا گیا۔
ایک ڈرائیور جس نے اس روز ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا، غیر حاضر رہا لیکن حاضری لگا دی گئی، جب کہ دوسرا سرے سے آیا ہی نہیں۔
پانی میں بچاؤ کی گاڑی اور ایمبولینس بغیر غوطہ خور کے روانہ کر دی گئی، بعد میں جب حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو ایمبولینس ایک غوطہ خور کو لینے واپس گئی، جو دراصل ایک ڈرائیور تھا۔
عملے کو پتہ چلا کہ رسّی بہت چھوٹی ہے اور ان کے پاس پھینکنے والی گن، لائف جیکٹس، اور فلوٹیشن آلات موجود نہیں تھے۔
ایک ایسے بحران میں جہاں ہر لمحہ قیمتی تھا، 38 منٹ صرف غوطہ خوروں کو لینے اور جال اور مقامی ربڑ کی کشتی کا بندوبست کرنے میں ضائع ہوئے، جسے جوڑنے اور ایک کلومیٹر اوپر لے جانے میں مزید 6 منٹ لگے۔
سوات میں ریسکیو 1122 کے کال ریکارڈنگ سسٹم کو جان بوجھ کر بند کر دیا گیا تھا۔انچارج افسر نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام سینئر کی ہدایت پر بجلی اور گرج چمک سے بچاؤ کے لیے کیا گیا، لیکن کمیٹی کا کہنا تھا کہ ایسا کسی بھی احتساب سے بچنے کے لیے کیا گیا۔
ارلی وارننگ سسٹم بھی غیر فعال تھا، دریا کے بہاؤ کی پیمائش کرنے والے افسر نے رپورٹ کرنے میں 4 گھنٹے تاخیر کی، اس دوران پانی کا بہاؤ 6 ہزار 738 کیوسک سے بڑھ کر 77 ہزار 782 کیوسک تک پہنچ گیا۔
آبپاشی کے سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبے بھر میں نصب 131 گیجز میں سے صرف 22 میں ٹیلی میٹری نظام نصب ہے۔
قابل افسوس طور پر، خوازہ خیلہ اور شمو زئی کے ٹیلی میٹری گیجز جو سیلاب کی پیش گوئی کے لیے انتہائی اہم تھے، اس سانحے کے وقت غیر فعال پائے گئے۔
اربوں کی زمین پر قبضے کا انکشاف:کمیٹی نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے فنڈ سے چلنے والے }ایمرجنسی فلڈ اسسٹنس پروجیکٹ (ای ایف اے پی) پر کام کرنے والے بڑے ٹھیکیدار کی سنگین غفلت کی بھی نشاندہی کی، اس نے حادثے کے مقام سے تقریباً 200 فٹ اوپر ایک عارضی بند تعمیر کیا تھا۔
اس عارضی بند نے سیاحوں کو یہ جھوٹی تسلی دی کہ یہ علاقہ دریا کے فعال بہاؤ سے باہر ہے، حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔
یہ بند بارش کے عروج کے موسم میں دریا کی نچلی سطح سے جمع کردہ مواد سے بنایا گیا، جو کہ بنیادی انجینئرنگ اصولوں اور حفاظتی ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے، تعمیراتی مقام پر نہ کوئی حفاظتی نشانات تھے، نہ رکاوٹیں اور نہ ہی رسی بندیاں۔
مزید برآں، فلڈ پروٹیکشن وال دریا کے قدرتی بہاؤ میں گہری مداخلت کرتے ہوئے دریا کے اندر تک جا پہنچی تھی، کمیٹی نے مقامی افراد کے حوالے سے کہا کہ یہ زمین پر قبضے کی دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔
یہ دیوار تقریباً 850 میٹر لمبی تھی، اگر یہ دریا میں صرف 100 فٹ بھی اندر گئی ہو، تو قبضہ کی گئی زمین کا رقبہ تقریباً 2 لاکھ 78 ہزار 880 مربع فٹ بنتا ہے، موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق، جو 20 ہزار روپے فی مربع فٹ ہے، یہ زمین تقریباً 5 ارب 57 کروڑ روپے کی ہو سکتی ہے۔
کمیٹی نے انکشاف کیا کہ زمین کے ریونیو ریکارڈ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور صفحات بدلے گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اتنے بڑے مالی مفاد، اور زوننگ کے قوانین و دریا کے تحفظ کے ضوابط کی کھلی خلاف ورزی سے واضح ہوتا ہے کہ عوامی انفراسٹرکچر کے پردے میں زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا۔
کمیٹی نے غیر قانونی تجاوزات کا الزام ضلعی انتظامیہ اور تحصیل میونسپل انتظامیہ پر عائد کیا کہ وہ 2010 سے غیر قانونی تعمیرات کو نظر انداز اور باقاعدہ بنانے میں مدد فراہم کرتی رہیں۔
ضلعی انتظامیہ کی مکمل ناکامی:کمیٹی نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے امدادی کارروائیوں کی شروعات یا ہم آہنگی کرنے میں مکمل ناکامی ظاہر کی، جب کہ پولیس سیاحوں کو بروقت دریا سے دور رکھنے میں ناکام رہی۔
سیاحت کا محکمہ بھی مکمل طور پر غیر حاضر پایا گیا، اس نے نہ سیاحوں کی حفاظت کو منظم کیا، نہ ہوٹلوں کو لائسنس جاری کیے، اور نہ ہی اس کی ہیلپ لائن کا کسی کو علم تھا یا کسی نے اسے استعمال کیا۔
وہ ہوٹل جہاں سے سیاح دریا تک گئے تھے، وہ بھی رپورٹ کے مطابق دریا کے اندر تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے پاس کوئی این او سی یا منظور شدہ نقشہ نہیں تھا۔
کمیٹی نے متعدد سفارشات پیش کیں، جن میں عدالتی پابندیوں کو دور کرنے کے لیے ضوابطی و قانون سازی فریم ورک متعارف کروانا، غیر قانونی تجاوزات، غیر قانونی کان کنی پر قابو پانا، اور ادارہ جاتی کمزوریوں کا خاتمہ شامل ہے۔
ساتھ ہی، کمیٹی نے سوات کے تمام ڈپٹی کمشنرز اور بابوزئی میں تعینات تحصیل میونسپل افسران کے خلاف انکوائری کی سفارش کی، جو 2010 سے تعینات رہے۔
کمیٹی نے ای ایف اے پی کا مکمل آڈٹ اور تحقیقات کی بھی تجویز دی ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا منصوبے کا ڈیزائن قابل عمل تھا اور کیا یہ دریا کے اندر تجاوزات کا باعث بنا؟۔اس کے علاوہ سوات میں ایمرجنسی وارننگ سسٹم کی خرابی کی بھی علیٰحدہ انکوائری کی سفارش کی گئی ہے۔

مزیدخبریں