ہمارے مشکوک امتیازات
پاکستان ایک پیچیدہ ملک ہے۔ اس میں رونما ہونے والی کچھ پیش رفتیں لوگوںکو پُر امید کر دیتی ہیں ،جبکہ کچھ واقعات اُن کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیںکہ پاکستان انتشار اور افراتفری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔ ہم اس کے مستقبل کے بارے میں پُر امید باتیں بھی کر سکتے ہیں، جبکہ اس کے بارے میں ہمارا نقطہ ¿ نظر منفی بھی ہوسکتا ہے۔ ان آرا¿ کا تعلق ہمارے زاویہ ¿ فکر اور تبدیل ہوتے ہوئے معروضی حالات سے ہے....اگر ایک حوالے سے دیکھیں تو پاکستان کچھ ممتاز حیثیتوںکا مالک ایک بہت مختلف ملک نظر آتا ہے۔ جب ان پر نظر پڑتی ہے تو افق امید کی روشنی سے منور نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے سورج کی تابانی پھیلنے والی ہے، تاہم کچھ امکانات جمہوریت کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات ابھارتے ہیں۔ یہ متفرق امتیازات کچھ اس طرح ہیں:
٭....یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ایک مکمل جمہوری حکومت نے پانچواں اور اپنے آئینی دور کا آخری بجٹ پیش کیا ہو۔ یہ بجٹ جون کے وسط میں اسمبلی سے منظور ہو جائے گا۔
٭....وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی پاکستان کے سب سے طویل عرصے تک منصب پر فائز رہنے والے وزیر ِ اعظم بن چکے ہیں اور ان کے عہدے کی مدت پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بھی طویل ہے، تاہم سید یوسف رضا گیلانی ،جناب لیاقت علی خان سے زیادہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔
٭....صدر آصف علی زرداری صاحب اور سیدیوسف رضاگیلانی اور ان کے اہل ِ خانہ پر بدعنوانی اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے جتنے الزامات لگے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سے پہلے کوئی بھی سربراہ ِ مملکت یا وزیر اعظم اس طرح الزامات کی زد میں نہیں آیا۔
٭....پاکستان کی سپریم کورٹ دنیا کی واحد عدالت ہے جو اپنے ملک کے سربراہ کو غیر ملکی عدالت کے سامنے کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ جب وفاقی حکومت نے اس ضمن میں عدالتی حکم کی تعمیل نہ کی تو منتخب وزیر اعظم کو توہین ِ عدالت کیس میں سزا سنادی گئی۔ اب اپوزیشن کی شدید خواہش ہے کہ فاضل عدالت وزیر ِ اعظم کو نااہل قرار دے تاکہ وہ اپنے عہدے پر موجود نہ رہ سکیں۔ بہت سے پاکستانیوںکا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی ضرورت سے زیادہ فعالیت نے مداخلت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو، جس کی کارکردگی پہلے ہی غیر تسلی بخش ہے کو غیر مستحکم کیا ہے۔
٭....پاکستان کئی ایک حوالوںسے ایک منفرد ملک ہے ۔ اس کے سب سے بڑے صوبے ، پنجاب ، کے وزیرِ اعلیٰ لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر اپنے صوبے کے عوام کو وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی طرف سے نکالے گئے کچھ جلوسوںنے تشدد کا رنگ اختیار کرلیا اور شرکا نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔
٭....جب یکم جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا تو مسلم لیگ (ن) کے کچھ اراکین ِ اسمبلی نے اجلاس کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی، جبکہ کچھ ارکان پی پی پی کے ارکان سے دست و گریبان بھی نظر آئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مکوںکا تبادلہ بھی دیکھنے کو ملا، تاہم شکر ہے کہ زیادہ تر ارکان کا رویہ معتدل رہا اور اسمبلی میںہونے والے تشدد نے1958ءکی اسمبلی کی یاد تازہ نہیں،جب ستمبر میںہونے والے ایک اجلاس میں فاضل ارکان نے اسمبلی کے فرنیچر سے ایک دوسرے پر حملہ کیا۔ اُس ہنگامے میں اُس وقت کے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی شدید زخمی ہوئے اور بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔
٭....ایک حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پی پی پی حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی نظر نہیں آتی اور نہ ہی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار ہیں۔ اس حکومت نے بار ہا یہ ثابت کیا ہے کہ یہ پیشہ ور باصلاحیت افراد کی بجائے سیاسی وابستگی کے حامل افراد کو ترجیح دیتی ہے۔
یہ تمام نکات جمہوریت اور سیاسی وسماجی ہم آہنگی کی منفی تصویر کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی اس حد تک شدید ہوچکی ہے کہ بہت کم لوگ سیاسی اورمعاشی عوامل کو غیر جانبداری سے زیر بحث لاتے ہیں۔ سیاسی مکالمہ شائستگی کو خیرباد کہہ چکا ہے اور اس میں بامقصد گفتگو کی بجائے شورشرابا زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر مباحثے کے پروگراموں میں دیکھا گیا ہے کہ ”کامیابی “ کا راز یہ ہے کہ مخالف فریق کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ سیاسی جماعتوںکی اعلیٰ قیادت کو وہ ارکان من بھاتے ہیںجو سیاسی مخالفین پر شدید چوٹ کر سکیں اور ایسا کرتے ہوئے تہذیب و اخلاق کے ضابطوںکا ٰخیال نہ رکھیں۔ ہر سیاسی جماعت میں ایسے اراکین کی کمی نہیں،جن کا نام سن کر ہی لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ”اب کیا ہوگا“؟
ہونے والے سیاسی مکالموں کا مقصد ملک کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں،بلکہ ایک دوسرے کو پاکستان کی دگرگوں معیشت اور مسائل پر مورد ِ الزام ٹھہرانا ہے۔ اس لئے مخالف سیاسی رہنما ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہیں۔ اُن میںسے ہر کوئی دوسرے کی غلطیوںکی نشاندہی کرتا ہے، مگر وہ ان مسائل، جیسا کہ توانائی کی کمی، سرمایہ کاری کا انحطاط، لا قانونیت اوربدعنوانی کے حل کے لئے کوئی حکمت ِ عملی وضع کرنے کا مشورہ نہیںدیتا۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت ِ حال پنجاب میںپیدا ہوتی ہے ،جب یہاںکی سیاسی قیادت سٹریٹ پالیٹکس کے ذریعے وفاقی حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش میںمصروف ہے۔ وہ بھی صدر صاحب کی رخصتی چاہتے ہیں۔ تین جون کو کچھ اخبارات میں وزیر ِ اعلیٰ صاحب کی تصویر کے ساتھ ایک اشتہار شائع ہوا جس میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان تھا۔
اگر احتجاجی سیاست ایک حکومت یا سیاسی جماعت اپنی پالیسی بنالے تو پھر سیاسی گفت وشنید کی بجائے منفی سیاست کے عناصر، جیسا کہ ٹریفک بلاک، پتھراﺅ، سرکاری اور نجی املاک پر حملے ،سیاسی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر یہ رویے ہمارے معاشرے کا حصہ بن جائیں تو پھر ایسے گروہوںکو تشدد اور بدامنی کی کوئی نہ کوئی وجہ ملتی رہتی ہے اور معاشرے کا سکون برباد ہوجاتا ہے....اوراگر عدم برداشت اور تشدد کے عنصرکی روک تھام نہیں کی جاتی تو پھر سیاسی اور جمہوری نظام بے حیثیت ہوجائیںگے۔ پھر اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا کہ پاکستان پر کس کی حکومت ہے یا بجٹ کون پیش کررہا ہے ؟
یہ داخلی بدامنی ، جس کی مختلف سیاسی جماعتیں حمایت کررہی ہیں، معاشرے میںاتنی تیزی سے پھیل جائے گی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دارالحکومتوںسے باہر قدم نہیں نکال سکیں گی۔ جب حکومت اپنی عملداری کھو بیٹھے گی تو اسے طاقتور مقامی گروہوں، انتہا پسندوں اور مسلح گروہوں کے مطالبات ماننا پڑیںگے۔ ایسی صورت میں پورے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ایسی صورت میں پھر کوئی فرق نہیںپڑتا کہ پاکستان پر کس کی حکومت ہوگی، یا سپریم کورٹ وزیر ِ اعظم کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ اس لئے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کو ہدف بنانے کی پالیسی ترک کردیں۔ پاکستان کو مثبت امتیازات اور جمہوری روایات پر مبنی سیاسی کلچر کی ضرورت ہے تاکہ بطور ریاست یہ اپنی عملداری برقراررکھ سکے۔
کالم نگار، معروف سیاسی مبصر اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر امریطس اور بین الاقوامی شہرت کے ماہر تعلیم ہیں۔ ٭