امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی بحالی(5)

امریکا کی مذمت اور حکومت کا معذرت خواہانہ رویہ:
حکومت کی کارکردگی کا جائزہ نامکمل رہے گا اگر اس حقیقت کو واشگاف نہ کیا جائے کہ، گو امریکا کا رویہ شروع ہی سے جارحانہ، جانب دارانہ ، مغرورانہ اور پاکستان کے لئے حقارت پر مبنی تھا، مگر زرداری گیلانی دور میں ان چاروں پہلوﺅں میں اضافہ ہوا، اور یہ حکومت، پاکستان کے مفادات اور عزت و وقار کی حفاظت میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ صرف چند تازہ معاملات ان پہلوﺅں کو سمجھنے کے لئے اور ریکارڈ کی درستی کے لئے پیش کیے جاتے ہیں:
1- امریکا کا رویہ یک رُخا (unilateral) رہا ہے اور ہماری قیادت پاکستان کے مفادات، ترجیحات اور تحفظات کسی کے بارے میں بھی کوئی گنجایش (space) حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت سے جس طرح امریکا نے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ قائم کی، اسے نیوکلیر سہولت فراہم کرنے کا راستہ اختیار کیا، کشمیر کے مسئلے پر اوباما نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ وعید کرنے کے باوجود سارا وزن بھارت کی تائید کے پلڑے میں ڈال دیا، پانی کے مسئلے کو جس طرح نظرانداز کیا اور ممبئی کے واقعے کو بنیاد بناکر جو جو دباﺅ پاکستان پر ڈالا، وہ بڑی الم ناک داستان ہے۔ اس کا آخری وار وہ بیان ہے جو ہیلری کلنٹن نے کولکتہ میں حافظ محمدسعید کے سر کی قیمت 10ملین ڈالر کی شکل میں رکھ کر کیا ۔ پھر ہمیں طعنہ بھی دیا کہ ایمن ظواہری پاکستان میں ہے اور ہماری قیادت کا حال یہ رہا ہے کہ ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم!
ریمنڈ ڈیوس کو امریکا چھڑا کر لے گیا اور جان کیری نے سب کے سامنے کھلا وعدہ کیا کہ امریکا خود اس پر مقدمہ چلا کر انصاف کا تقاضا پورا کرے گا، دونوں باتیںکس طرح ہوا میں تحلیل ہوئیں اور یہ باتیں ہر سچے پاکستانی کے دل پر نقش ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیری لوگر بل میں جو جو پابندیاں پاکستان اور اس کی افواج پر لگائی گئی ہیں، وہ شرم ناک داستان ہے ،لیکن اس حکومت نے ان سب پر آمنا وصدقنا کی روش اختیار کی۔ ڈرون حملوںمیں پاکستان کے ہراحتجاج اور پارلیمنٹ کی ہرقرارداد کے بعد اضافے ہوئے، اور بالآخر جنوری 2012ءمیں صدراوباما نے پہلی بار ان کی ذمہ داری قبول کی اور وہائٹ ہاﺅس کے ایڈوائزر جان برینن نے پوری ڈھٹائی سے ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز میں ایک خطاب میں ان کا دفاع کیا اور فرمایا کہ: ”وہ قانونی، اخلاقی اور دانش مندانہ اقدام ہیں“۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے درجنوں ماہر صاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون، جنگی روایات، حتیٰ کہ خود امریکی دستور اور قانون کے خلاف ہیں۔ تازہ ترین اعلان ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 50 ویں سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے مسلسل کیے جانے والے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔ 2مئی 2011ءکے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کے لئے مہلک جنگی قوت کے استعمال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ” امریکی حکومت کی جانب سے کسی مزید وضاحت نہ ہونے کی صورت میں، اسامہ بن لادن کا قتل بظاہر غیرقانونی تھا“۔
ایمنسٹی نے امریکا کے اس دعوے کی کھل کر نفی کی ہے کہ وہ ’عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا حق رکھتا ہے۔
امریکا جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ ڈرون حملے کر رہا ہے اور اس کا جس بے بسی سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نظارہ کر رہی ہے، وہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر ہی کاری ضرب نہیں، بلکہ ملک و قوم کی کھلی کھلی تذلیل و تحقیر بھی ہے۔
امریکا کے سیکرٹری دفاع لیون پانیٹا نے پاکستان کے سارے احتجاج، پاکستانی قوم میں امریکا مخالف جذبات کے سارے طوفان کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور عالمی راے عامہ اور ماہرین قانون کی آرا کو حقارت کے ساتھ رد کرتے ہوئے 6مئی 2012ءکو اعلان کیا ہے کہ: ”امریکا جنگ جوﺅں کی پناہ گاہوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا خواہ ملک کی حکومت ان کی مخالفت کرتی رہے“۔
یہ رعونت اور یہ کھلی دھونس اس کے باوجود ہے کہ 800سے زیادہ ڈرون حملوں اور 3ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے اتلاف کے باوجود، نہ اُن کی تعداد میں کوئی کمی ہوئی ہے جن کو ’دہشت گرد‘ کہا جارہا ہے، اور نہ کسی بھی محاذ پر امریکا کو فوجی یا سیاسی کامیابی حاصل ہوسکی ہے جس کا سب سے واضح ثبوت عالمی میڈیا اور آزاد مبصرین کا تقریباً متفق علیہ اعتراف ہے کہ افغانستان میں امریکا جنگ ہارچکا ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے 50 سے 70 فی صد پر اصل حکمران ہیں اور کابل میں امریکی، ناٹو اور افغان فوج کے پانچ حصاروں کے باوجود طالبان جب چاہیں قصرصدارت ناٹو کے ہیڈکوارٹر اور خود امریکی اور مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خود امریکا میں اس وقت 67 فی صد عوام افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلد از جلد انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے ہال کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، اس کے باہر ہزاروں امریکی جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ افغانستان اور عراق کی جنگ سے واپس آنے والے فوجی (veterans) اپنے وہ تمغے ندامت کے ساتھ حکومت کو واپس کر رہے تھے جو جنگی خدمات پر ان کو دیے گئے تھے، اور ان کا اعلان بش اور اوباما کی جنگی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ایک عوامی استصواب کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کی 21مئی 2012ءکی اشاعت میں اس کے نمایندے برنارڈ ہارکورٹ کی رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ افغانستان کی جنگ کے ستم زدہ یہ امریکی فوجی کہہ رہے تھے:
کتنے ہی میڈل، ربن اور جھنڈے کیوں نہ ہوں، جنگ نے جس پیمانے پر انسانوں کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، اس کو چھپا نہیں سکتے۔ میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے شرم! یہ افغانستان اور عراق کے عوام کے لئے ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ میں آپ سب کے سامنے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ آج میں اپنا تمغہ واپس کررہا ہوں، کیونکہ میں اپنی زندگی اپنے ضمیر کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں، نہ کہ ایک ضمیر کے مجرم کی طرح۔ میں عراقی اور افغان عوام سے ان کے ممالک کو تباہ کرنے پر ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں۔
افسوس صد افسوس امریکا کی قیادت اور اس کے شرکاے جرم بشمول قیادتِ پاکستان کے ضمیر میں کوئی چبھن نظر نہیں آتی، بلکہ پاکستان کی قیادت تو روایتی جوتے اور پیاز دونوں ہی کھارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کے گن بھی گائے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری اور سزا پر جس طرح امریکا نے ایک قومی مجرم اور پاکستان کے غدار کا دفاع کیا ہے، اور پاکستان کی معاشی مدد میں تخفیف کا جو طمانچا ہمارے منہ پر رسید کیا ہے، وہ بھی ایک آئینہ ہے جس میں امریکا پاکستان کو جو مقام دیتا ہے، اس کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان پر دوغلی پالیسیوں کا الزام، 2مئی 2012ءکو افغانستان سے اسٹرے ٹیجک معاہدہ اور اس پورے عمل میں پاکستان کو نظرانداز کرنا، افغانستان میں بھارت کے مشکوک کردار کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سے مکمل لاپروائی، حتیٰ کہ طالبان سے گفتگو میں بھی پاکستان کو نظرانداز کرنے کی کھلی کھلی کوششیں، صرف پاکستان اور امریکا میں اعتماد کی کمی (trust deficit) ہی کا مظہر نہیں ،بلکہ اس پورے علاقے اور اس کے مستقبل کے بارے میں دونوں کے وژن اور نقشہ¿ کار میں بُعدالمشرقین کی گواہی دیتے ہیں۔ امریکا جس طرح پاکستان پر معاشی، سیاسی اور عسکری دباﺅ ڈال رہا ہے، اس کے بعد اسے دوست ملک سمجھ کر معاملہ کرنا اپنے پاﺅں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہے۔(جاری ہے)